ماں

پاکستانی ریاست کی حالت ان دنوں اس ماں جیسی ہے جو بدقماش ہمسایوں میں گھری اپنی جان‘ عزت اور آبرو بچانے کے درپے ہے کوئی اس کے سر سے دوپٹہ اتارنا چاہتا ہے اور کسی کو دامن تار تار کرنے کی جلدی ہے۔ مسلّح غنڈے بات نہ ماننے پراسے گولی سے اڑانے اور پورے گھر کو مسمار کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں جبکہ اس کا بیٹا ماں کا ساتھ دینے عمر بھر کی ریاضت‘ خدمت اور دلداری کا احسان اتارنے اور اپنے آپ کو غیرت مند اولاد ثابت کرنے کے بجائے دشمنوں کے کندھے سے کندھا ملائے‘ کبھی اس کی غلطیاں‘ زیادتیاں اور کمزوریاں گنواتا ہے‘ کبھی غنڈوں کی بات نہ ماننے پر اپنے ہاتھ سے گلا گھونٹنے کی دھمکی دیتا ہے اور گاہے بے عزت کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔یہ ماں کا اکلوتا بیٹا نہیں ‘انوکھا لاڈلا ضرور ہے مگر دوسرے بیٹے ماں کی جان اور عزت بچانے ‘انوکھے لاڈلے کو سختی سے روکنے‘ گستاخی پر ٹوکنے اور قانون کے حوالے کرنے کے بجائے مسلسل ماں کو ہی سمجھائے چلے جا رہے ہیں کہ کوئی بات نہیں ماں ‘یہ دشمنوں سے مل کر تمہیں بے آبرو اور موقع ملے تو قتل کرنا چاہتا ہے مگر تم برا نہ منائو‘ فراخدلی کا ثبوت دو اور سب کہا‘ سنا معاف کر دو‘ انوکھے لاڈلے کے علاوہ دشمنوں کو وہ سب کچھ کرنے دو جوکرنے کے درپے ہیں۔ماں جو ہوئی۔
ایم کیو ایم کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں جو کچھ ہوا وہ اچانک تھا ‘نہ کسی ناخوشگوار اور دلآزار واقعہ کا برجستہ ردعمل۔ جب پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ ن تک صوبے اور مرکز کی حکمران جماعتوں کے رہنما اظہار یکجہتی کر کے ایم کیو ایم کی بلیک میلنگ و سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط بنانے پر تلے تھے تو الطاف حسین ذہنی تنائو کا شکار کیسے ہوئے اور پاکستان کے خلاف بد زبانی پر کیوں اُتر آئے؟ابھی تک کوئی معقول کیا‘ نامعقول وجہ سامنے نہیں آئی۔ ایم کیو ایم کے معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے حلقے بھوک ہڑتالی کیمپ کو لندن میں طے کی گئی حکمت عملی کا حصہ قرار دیتے ہیں تاہم یہ تقریر22اگست کے بجائے کم و بیش تین چار روز بعد ہونے کی توقع تھی۔ سرینگر اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے اور سبزہلالی پرچم کی نمائش نے نریندر مودی کو برافروختہ کیا اور ''را‘‘ نے پاکستان کے علاوہ جموں و کشمیر کی بعض جماعتوں اور شخصیات پر جو سرمایہ کاری تھی وہ اکارت ہوتی نظر آئی۔ چنانچہ کراچی میں بدامنی اور پاکستان مخالف نعرہ بازی کا منصوبہ لندن میں ترتیب پایا اگر رینجرز اور پولیس احتیاط سے کام نہ لیتی‘ بھوک ہڑتالی کیمپ سے نکل کر پریس کلب‘ ٹی وی چینلز اور مصروف شاہراہ پر توڑ پھوڑ میں مصروف تخریب کاروں پر گولی چلا دیتی اور ہنگامہ آرائی میں پیش پیش خواتین لاٹھی‘ گولی کا نشانہ بن جاتیں تو بھارتی حکومت‘ میڈیا اور ''را‘‘ سے معاوضہ وصول کرنے والی لندن کی قیادت آسمان سر پر اٹھا لیتی۔ مہاجروں کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا اور کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ اور نسل کشی سے عالمی برادری اور میڈیا کی توجہ ہٹ جاتی۔ مگر یہ منصوبہ الطاف حسین کی بے موقع تقریر‘ مردہ باد کے نعروں اور پولیس و رینجرز کی طے شدہ حکمت عملی یا سست رفتار ردعمل کی وجہ سے ناکام رہا۔
کہتے ہیںتدبیر کند بندہ‘ تقدیر زند خندہ۔ انسان تدبیر کر رہا ہوتا ہے اور قدرت مسکرا رہی ہوتی ہے دھرتی ماں کے خلاف بدکلامی نے پانسہ پلٹ دیا اور کل تک ایک بدنام زمانہ برطانوی شہری کے اشارے پر کراچی کے امن کو منٹوں میں تہہ و بالا کرنے والے کارکنوں نے چوبیس گھنٹے میں اسے قیادت سے فارغ اور فاروق ستار و خواجہ اظہار الحسن کی بات ماننے پر مجبور کر دیا ۔یہ شرسے خیر کا ظہور ہے ع
عدو شرے برانگیزد کہ خیر مادرآں باشد
یہ سمجھنا بہرحال سادہ لوحی ہو گی کہ الطاف حسین اور اس کا وفادار ٹولہ اس صورتحال کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرے گا اور ''را‘‘ کا دامن چھوڑ کر‘اپنی پہاڑ جیسی غلطیوں پرپشیماں ہو کر پاکستان سے وفاداری کا دم بھرنے لگے گا ع
سپاں دے پُت میت نہ تھیندے
بھاویں چُلیاں دودھ پلائیے ہو
مجھے امریکہ سے ایک ویڈیو ملی ہے جس میں موضوع گفتگو نائن زیرو اور حیدر آباد کے دفاتر کی بندش ہے ویڈیو کے مطابق فاروق ستار کی پریس کانفرنس اور پاکستانی قوم سے معافی مانگنے کے دو اڑھائی گھنٹے بعد الطاف حسین نے امریکہ میں ایم کیو ایم کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے پھر زہر اگلا‘ پاکستان کی (معاذ اللہ) تباہی و بربادی کی دعا مانگی‘ امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل‘ افغانستان سے مدد لینے کے لیے کارکنوں کو ترغیب دی اور ''داعش‘ القاعدہ ‘ طالبان کو پیدا کرنے والی‘‘ فوج اور آئی ایس آئی سے لڑنے کے لیے نکلنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس موقع پر کارکنوں نے پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی اور سبز ہلالی پرچم جلایا یعنی جو کام کراچی کے کارکن نہ کر سکے وہ امریکہ میں مقیم کارکنوں نے انجام دیا اور نریندر مودی کا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ یہ ہے ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کی یقین دہانی کا انجام جو انہوں نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کے ذریعے پاکستانی قوم‘ حکومت‘ ریاستی اداروں کو کرائی اور کراچی میں میئر کے انتخاب کو یقینی بنایا۔ وسیم اختر نے بھی کامیابی کے بعد قائد تحریک کے فلسفہ کی پیروی جاری رکھنے کا اعلان فرمایا اور پاکستان کے برعکس الطاف سے وفاداری کو یقینی بنایا۔
پاکستان کے حوالے سے جو بدزبانی الطاف حسین نے کی‘ اس کی جرأت 25 مارچ 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن نے کی ‘نہ سوات اور وزیرستان میں فوج سے لڑنے والے دہشت گردوںاور اُن کے لیڈروں کو جرأت ہوئی۔یہ ریاست کی کمزوری اور ریاستی اداروں کی مصلحت کوشی ہے جس نے نریندر مودی کے یاروں اور ''را‘‘ کے وفاداروں کو حوصلہ بخشا۔ برطانیہ ان کی پشت پر ہے اور بھارت ہر طرح مددگار۔ مگرحکمران تمام تر ثبوت مل جانے کے باوجود ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ پاکستان کے معاشی مرکز کو یرغمال بنانے والوں سے کیسے نمٹا جائے ۔ہم برطانیہ سے یہ تک کہنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے کہ اگر پاکستان کا کوئی سیاستدان الطاف حسین کی طرح لندن میں اپنے کارکنوں‘ پیروکاروں اور ہمدردوں سے اس انداز میں بات کرے۔ برطانیہ مردہ باد کے نعرے لگوائے‘ بی بی سی پر ہلّہ بولنے کی ترغیب دے اور برطانیہ کو ساری دنیا کے لیے ناسور‘ عذاب اور دہشت گردی کا گڑھ قرار دے‘ جس نے امریکہ سے مل کر عالم اسلام کو تباہ کیا‘ثبوت میں چلکوٹ رپورٹ کو پیش کرے اور پھر مشتعل کارکن توڑ پھوڑ‘ فائرنگ اور جلائو گھیرائو شروع کر دیں تو برطانوی حکومت اورریاستی ادارے اس سے کیا سلوک کریں گے؟ لاڈلے داماد یا بدترین دشمن کا۔ کلبھوشن نیٹ ورک اور کراچی میں سرینگر جیسے حالات پیدا کرنے والے ''را‘‘ کے ایجنٹوں کی گرفتاری کے بعد ہم اب تک بھارت سے مذاکرات کے لیے مرے جا رہے ہیں تو برطانیہ سے دو ٹوک بات کون کرے؟۔ چودھری نثار علی خان نے برطانیہ سے بات کی لیکن کیا وزیر اعظم کو خود یہ کام نہیں کرنا چاہیے تھا؟۔ 
گلہ مجھے صحافی بھائیوں سے بھی ہے جنہوں نے ٹی وی چینلز پر حملے کا ماتم تو کیا پاکستان کے خلاف بدزبانی کو پس پشت ڈال دیا اور الطاف حسین کا دفاع کرنے والوں کو تاویل و توجیہ کا موقع فراہم کیا۔یہ حق کیا وہ آزادی صحافت کے دشمنوں کے علاوہ اپنے ذاتی مخالفین کو بھی دیں گے‘ ؟کبھی دیا ہے؟ یہ پاکستان کی عزت‘ عظمت ‘وحدت وقار‘ سلامتی اور غیرت کا سوال ہے۔ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والا غدار اور ہر غدار تختہ دار کا حق دارہے۔ بھارت میں کرناٹک کی ایک اداکارہ اور سیاستدان رمیا نے اپنے وزیر داخلہ سے یہ کہا کہ پاکستان جہنم نہیں بلکہ پرامن ملک ہے۔ اس کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہو گیا۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر کنیہاکمار نے کشمیریوں کے حق میں نعرے لگائے ‘یونیورسٹی سے نام کٹ گیا مگر پاکستان میں وطن کے غداروں اور مودی کے وفاداروں کا معاملہ ہو تو بڑی ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے کہ ریاست ماں ہے وہ بیٹے کی ہر گستاخی‘ نافرمانی حتیٰ کہ دشمنوں سے مل کر بے آبروکرنے کی حرکت بھی معاف کردے۔ کیا قسمت پائی ہے بیس کروڑ غیرت مندوں کی غریب ماں نے‘ کون سمجھائے کہ معافی غلطی کی ہوتی ہے دانستہ جرم اور غداری کی نہیں۔ ؎
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہئے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں