جری

1987ء میں الطاف حسین سے لاڑکانہ والی ملاقات کا ذکر میں نے اپنے کالم میں کیا تو یاد آیا کہ اسی ملاقات میں الطاف حسین نے جی ایم سید کی جئے سندھ سے اتحاد کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ اگر کل کلاں کو خدانخواستہ ایک بار پھر پاکستان 1971ء کی طرح کسی ابتلا کا شکار ہوتو مہاجروں کو بہاریوں جیسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسی ملاقات میں الطاف حسین نے اُردو کو پنجاب کا مسئلہ قرار دیا ۔میں نے اپنے ادارے کی طرف سے قائد تحریک کو لاہور آ کر پنجاب کے عوام کو اپنے خیالات‘ تحفظات اور شکایات سے آگاہ کرنے کی دعوت دی تو ان کا جواب تھا: ''میں وہاں مارا جائوں گا‘‘۔
لاڑکانہ سے میں ''سن‘‘ گیا جہاں میری طویل ملاقات جی ایم سید مرحوم سے ہوئی۔ میں نے پوچھا‘ سّید صاحب! آپ نے ہمیشہ سندھ پر مہاجروں کے تسلط کا پروپیگنڈہ کر کے نفرت پھیلائی مگر اب آپ نے مہاجروں کی جماعت سے اتحاد کر لیا، کیا یہ تضاد نہیں؟ صاف گو جی ایم سید بولے: ہم نے جب بھی پاکستان کے خلاف جدوجہد کی مہاجروں نے پاکستان کی فوج‘ بیورو کریسی اور پنجابیوں سے مل کر ہمارا مقابلہ کیا‘ اب میں مہاجروں کو فوج‘ بیورو کریسی اور پنجاب کے خلاف کھڑا کر رہا ہوں۔ الطاف حسین پاکستان کے خلاف بہترین مہرہ ہے۔ پنجاب اور پاکستان کے بارے میں الطاف حسین اور جی ایم سید کے خیالات میں خاصی یکسانیت تھی۔ الطاف حسین اور اُن کے ساتھیوں کے خیالات اور ''جرا￿ت و دلیری‘‘ کے حوالے سے کئی واقعات کا میں عینی شاہد ہوں‘ مگر عظیم احمد طارق‘ ڈاکٹر عمران فاروق اور سلیم شہزاد کی بہادری کا تذکرہ کرنے سے قبل عقیل عباس صاحب کا مشاہدہ قارئین کی نذر کرنا ضروری ہے جو انہوں نے فیس بک پر شیئر کیا ۔ لکھتے ہیں:
''یادش بخیر۔یہ وہ دور ہے جب ہم لیاقت میڈیکل کالج جام شورو میں زیرتعلیم تھے۔ جئے سندھ سٹوڈنٹس فیڈریشن نے ایک سرد شام کالج کیمپس کے سامنے والے لان میں سندھ کے مشہور قوم پرست رہنما سائیں جی ایم سید کی سالگرہ منانے کے لیے جلسہ عام کا اعلان کیا ۔اس دور میں سندھ کے تعلیمی اداروں میں عموماً اور جام شورو کے تینوں بڑے تعلیمی اداروں ... میڈیکل کالج‘ انجینئرنگ یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی میں خصوصاً سندھو دیش کی حامی طلبہ تنظیم جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا زور تھا۔ لیکن ہمارے لیے زیادہ دلچسپی کی خبر یہ تھی کہ اس جلسہ عام میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین تشریف لا رہے تھے۔ سندھ کے مخصوص سیاسی پس منظر میں جہاں سندھی مہاجر تضاد ایک بہت تلخ حقیقت کی حیثیت رکھتا تھا‘ ہمارے لیے یہ بات باعث حیرت تھی کہ اس جلسے میں مہاجروں کے قائد کیسے تشریف لا رہے تھے ؛چنانچہ ہم بھی تماشائے اہل کرم دیکھنے جلسہ گاہ میں پہنچ گئے۔‘‘
''پتا چلا کہ ایم کیو ایم کا پورا وفد اپنے فکری قائدین کے ساتھ آیا ہے جس میں مرحوم رئیس امروہوی‘ اس دور کے مشہور کالم نگار انعام درانی اور سکہ بند کمیونسٹ لیڈر اختر رضوی شامل تھے۔ خیر خطابات کا سلسلہ شروع ہوا‘ ہم نے پہلی دفعہ قائد تحریک الطاف حسین کی زہرافشانیاں سنیں‘ موصوف نے پاکستان کو بے نقط سنانے کے بعد جئے سندھ تحریک کے ساتھ اپنے تعاون کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی قوم کو بیدار کرنے کے لیے بہت عرصے سے جدوجہد کر رہے ہیں‘ مجھے آپ تھوڑا وقت دیں ‘میں بہت جلد اپنی قوم کو بیدار کروں گا اور ہم مشترکہ مقاصد یعنی (خاکم بدہن) پاکستان سے سندھ کو علیحدہ کر کے سندھو دیش بنانے کے لیے کام کریں گے۔‘‘
''اختر رضوی نے ان کمیونسٹوں کو جو متحدہ پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کی بات کرتے تھے‘ مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مقصد ہمارا ایک ہی ہے یعنی سوشلسٹ انقلاب لیکن ہم یہ منزل سندھ کو پاکستان سے آزاد کرانے کے بعد حاصل کریں گے۔ جئے سندھ کے لیڈروں نے اپنی تقریریں سندھی زبان میں کیں جو قائد محترم کے سر سے گزر گئیں کیونکہ یہ لوگ اس وقت سندھی سے نابلد تھے۔ چنانچہ ان کے ساتھی ہم سے پوچھ رہے تھے کہ یہ اپنی تقریروں میں کیا کہہ رہے ہیں۔ بہرحال سب خطابات میں پیارے وطن کی خوب گوشمالی کی گئی۔‘‘
''اس جلسہ کے مہمان خصوصی ہمارے کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد عظیم عالمانی تھے۔ آخر میں ان کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ اس مرد مجاہد نے آتے ہی کہا کہ میں ان سب لوگوں پر لعنت بھیجتا ہوں جو جیب میں پاکستان کا پاسپورٹ لیے پھرتے ہیں اور پھر پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ جئے سندھ کے جو لوگ ہمارے کالج سے باہر کے تھے انہوں نے پرنسپل صاحب کے ساتھ بدتمیزی کرنا چاہی لیکن ہمارے کالج کے طلبہ نے پرنسپل صاحب کو اپنے حصار میں لے لیا ۔اتنے میں کسی نے رائفل سے فائر کر دیا۔ بس پھر کیا تھا جئے سندھ کے بہادر سپوت اور قائد تحریک کے ساتھیوں نے راہ فرار اختیار کی ‘اکثریت کے تو جوتے بھی وہیں رہ گئے۔ یوں یہ جلسہ اختتام پذیر ہوا۔‘‘
''جو لوگ آج یہ کہتے ہیں کہ الطاف حسین نے یہ یاوہ گوئی جذبات میں آ کر وقتی اشتعال کے تحت کی ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس تحریک کی اٹھان شروع ہی سے پاکستان مخالف ہے۔ اسی لیے آج میں نے یہ پرانی داستان شیئر کی ہے جو خود میری آنکھوں دیکھی ہے‘‘۔
1990ء میں کشمیر میں آزادی کی تحریک نے زور پکڑا اور بھارتی فوج کی تعداد بڑھنے لگی تو پاکستان میں بھی ہلچل پیدا ہوئی۔ اپنے ادارہ کی طرف سے میں نے لاہور کے الحمراء ہال میں کشمیر کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں سردار محمد ابراہیم‘ سردار سکندر حیات کے علاوہ ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق کو بھی شرکت کی دعوت دی۔ عظیم احمد طارق نے بتایا کہ دو ساتھی ان کے ہمراہ ہونگے۔ ہم نے گلبرگ کے ایک ہوٹل میں تینوں کے ٹھہرنے کا اہتمام کیا جو ادارے کے ساتھ بارٹر سسٹم کی وجہ سے سستا پڑتا تھا۔ میں فاروق اعوان کے ہمراہ عظیم احمد طارق مرحوم کو لینے لاہور ائرپورٹ جاتے ہوئے اس شش و پنج میں تھا کہ اگر نازک مزاج اور زودرنج مہاجر لیڈر نے اس ہوٹل میں ٹھہرنا کسرشان سمجھا تو متبادل صورت کیا ہو گی؟
لائونج سے عظیم احمد طارق اپنے دو ساتھیوں ڈاکٹر عمران فاروق اور سلیم شہزاد کے ساتھ برآمد ہوئے اور گاڑی میں بیٹھنے سے قبل مجھے ایک طرف لے گئے۔ انہوں نے رازداری سے بتایا کہ فلائٹ میں ''بے دُم کا شیر‘‘ بھی گھوم رہا تھا ۔اُس نے ہمیں دیکھا ضرور ہو گا ‘یہاں کوئی شرارت ہی نہ کر دے۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ ''بے دُم کا شیر‘‘ کون ہے اور کراچی بلکہ سندھ کے عوام کی ناک میں دم کرنے والے یہ شیر دل لیڈر خوفزدہ کیوں ہیں؟ استفسار پر بتایا ‘وہی آپ کا ''شیر پنجاب‘‘ یعنی غلام مصطفیٰ کھر ‘جو ان دنوں محترمہ بے نظیر بھٹو سے صلح کر کے پیپلز پارٹی میں واپس جا چکے تھے۔ میں نے پوچھا عظیم بھائی بے دُم کے شیر سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ویسے ہم نے آپ کی رہائش کا اہتمام ایک غیر معروف مگر محفوظ ہوٹل میں کیا ہے ۔ یہ کسی فائیو سٹار ہوٹل میں نہ ٹھہرانے کا معقول بہانہ تھا۔ بعد کے برسوں میں الطاف حسین کے وفاداروں نے کراچی میں اپنے ساتھ اختلاف کرنے والوں سے جو وحشیانہ سلوک کیا‘ درندوں کی طرح انسانی جانوں سے کھیلے اور ایذارسانی کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ‘حتیٰ کہ نازیوں کی روح اور تاریخ شرمانے لگی ‘وہ شاید اسی بزدلی اور خوف کا نتیجہ تھا یا اپنے سیاسی اور غیر سیاسی مخالفین سے نفرت کا اظہار؟ تاہم جی ایم سید نے 1987ء میں جو بات کہی تھی وہ درست ثابت ہوئی ۔جئے سندھ تحریک اپنی موت آپ مر گئی‘ اب شاید جی ایم سید کے اتحادی الطاف حسین کی باری ہے ۔
الطاف حسین اور اس کے وفادار پیروکاروں نے گزشتہ تین چار روز میں جس طرح کینچلی بدلی اور قائد سے منہ موڑا ع یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے!
جری بس اتنے ہی تھے حریفان آفتاب
نکلی ذرا سی دھوپ تو کمروں میں آ گئے
مجھے اب بھی یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ جام شورو میں جوتیاں چھوڑ کر بھاگنے اور لاہور میں بے دُم کے شیر کو دیکھ کر کانپنے والے اسلامی نیوکلیئر ریاست سے لڑنا چاہتے ہیں اور تعجب بھارتی عقل و دانش پر ‘جو ان جوانمردوں سے اُمیدیں لگائے بیٹھی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں