ہنگامہ ہے کیوں برپا

سیاست کی آڑ میں ریاست کو یرغمال بنانے والے سیہ بختوں سے توقع فضول ہے‘ ایک ہفتے سے ان کے حق میں تاویلیں تراشنے والے وکیلوں سے البتہ التماس ہے کہ 1993ء 1998ء اور 2002ء کے تجربات کو سامنے رکھیں ؎ 
الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتا نہیں دانا
غواّص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
کراچی میں ''را‘‘ کے ایجنٹوں اور پاکستان کے دشمن عسکریت پسندوں کی کمر ہمیشہ فوج اور رینجرز کے آپریشن سے ٹوٹی۔چوہوں کی طرح بلوں میں چھپنے اور بیرون ملک بھاگنے کی نوبت اس وقت آئی ‘ جب قانون کے آہنی ہاتھ نے انہیں دبوچا۔ سیاست کے مرکزی دھارے میں لانے کی کوششوں سے تو یہ مزید طاقتور‘ سرکش اور آمادۂ بغاوت ہوئے۔ آج بھی اگر کراچی میں امن ہے‘ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والے مردود عناصر الطاف حسین کی تصاویر پھاڑنے یا دفاتر گرانے پر خاموش ہیں تو یہ سیاسی عمل میں انہیں شریک رکھنے کی حکمت عملی نہیں بلکہ سخت گیر آپریشن کا نتیجہ ہے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور الطاف حسین کے علاوہ اس کے وفادار ساتھیوں نے بار بار اس اُردو محاورے کی افادیت ثابت کی۔
ایک طرف تو یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ الطاف حسین اور اس کے عسکریت پسند ٹولے کی بدزبانی کو اہل کراچی کی آواز نہ سمجھا جائے‘ یہ بات درست بھی ہے‘ کراچی کے مہاجر عوام ملک کے دوسرے حصوں میں بسنے والے لوگوں سے زیادہ مہذب‘ شائستہ اور محب وطن ہیں‘ پاکستان کے اتحاد و یکجہتی کے علمبردار‘ مگر دوسری طرف جونہی بھارت نواز عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا آغاز ہوتا ہے‘ مہاجر عوام کے مینڈیٹ کا شور مچ جاتا ہے۔ آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کراچی کے عوام نے ایم کیو ایم کو پاکستان کی تقسیم‘ مادر وطن سے غداری‘ ''را‘‘ سے وفاداری اور اپنے ہی ووٹروں کی ٹارگٹ کلنگ کا مینڈیٹ کب دیا تھا۔ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں تین سو افراد کو زندہ جلانے‘ 12 ؍ مئی کو کراچی میں قیامت صغریٰ برپا کرنے‘ فوج‘ رینجرز‘ پولیس پر حملہ آور ہونے اور ممتاز علمائ‘ وکلائ‘ اساتذہ اور فنکاروں کو موت کے گھاٹ اتارنے والوں کو قانون کے شکنجے میں کسنے اور دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں اور پاکستان کے خلاف نفرت انگیز سی ڈیز‘ لٹریچر بانٹنے والوں کی گرفتاری سے مینڈیٹ کی نفی کیسے ہوتی ہے‘ یہ عوامی مینڈیٹ تھا یا قتل و غارت اور بغاوت و غداری کا لائسنس؟
ہر آپریشن کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو‘ میاں نوازشریف اور پرویز مشرف نے اس جرائم پیشہ ٹولے کو سیاست کے مرکزی دھارے میں لانے کی سعی کی‘ سابقہ جرائم معاف کر کے آئندہ جمہوری انداز میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع دیا مگر جواب کیا ملا؟ الطاف ٹولے کی جتنی نازبرداری پرویز مشرف دور میں ہوئی اور جس طرح ایک فوجی سربراہ نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ مثال ملنا مشکل ہے سنگین جرائم اور بھارت سے رابطوں کی مکمل تفصیل پرویز مشرف کے علم میں تھی آصف علی زرداری نے بھی اپنے پیشرو کی یہ پالیسی جاری رکھی اور پانچ سال تک الطاف حسین کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا رہا۔ رحمن ملک وزیر داخلہ تھا‘ اپنے فرائض کی انجام دہی سے زیادہ وہ الطاف حسین کی کفش برداری میں مصروف رہا۔ عبدالرحمن ملک نے جتنی الطاف بھائی کی تابعداری کی اس کا عشرعشیر اطاعت گزاری اپنے حقیقی خالق و مالک کی کرتاتو معلوم نہیں ولائت و صالحیت کے کسی مقام پر فائز ہوتا۔ مگر ع
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
بلیک میلنگ اور کراچی کی بدامنی روز بروز بڑھتی ہی گئی جب جی چاہا کراچی بند کر دیا‘ سو پچاس لاشیں گرا دیں اور مہاجروں کی نسل کشی کا الزام لگا دیا۔ حتیٰ کہ اپنے ہی لیڈروں اورارکان اسمبلی کی ٹارگٹ کلنگ شروع کر دی۔ بانی چیئرمین عظیم احمد طارق‘ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق‘ سے ایم پی اے رضا حیدر‘ منظر امام تک ایک طویل فہرست ہے جو اپنوں کے ہاتھوں دردناک انجام کو پہنچے۔ مگر الزام ڈھٹائی سے مخالفین اور قومی اداروں پر لگایا گیا۔
22 ؍ اگست کے شرمناک واقعہ نے الطاف اور اس کے وفاداروں کو ذلت اور پسپائی کی طرف دھکیلا۔ بے آواز لاٹھی برسی اور اللہ کی یہ سنت پوری ہوئی کہ انسان کی اصل حقیقت آشکار ہو اور وہ رسوائی کا سامنا کرے۔ الطاف حسین نے بھوک ہڑتالی کیمپ کے علاوہ امریکہ و جنوبی افریقہ کے کارکنوں سے خطاب میں پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑا‘ اپنی اصل حقیقت اپنی زبان سے بے نقاب کی اور اپنے ہر وکیل صفائی کو شرمندہ کیا۔
کراچی اور حیدرآباد میں الطاف حسین کی تصویروں سے کیا جانے والا سلوک مکافات عمل ہے اور اس پر کڑھنے والوں کے لیے مقام عبرت۔ اس وحشی مافیا کو سیاست کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی احمقانہ کوششوں کا نتیجہ‘ 1993ء سے 2013ء تک کراچی کی تباہی و بربادی اور قتل و غارت گری کی صورت میں نکلا مگر اس کے حامیوں اور وکیلوں میں سے کسی کا دل پسیجا نہ جذبہ انسانی ہمدردی جاگا۔ جرم اور سیاست کے اس ملاپ نے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری خطرے میں ڈال دی اور ناکام ریاست کے طعنے سننے کو ملے۔ الطاف حسین نے بھارت کے دبائو پر ‘پارٹی پر گرفت برقرار رکھنے کے چکر میں یا کارکنوں کو اشتعال دلا کر حسب عادت آٹھ دس لاشیں گرانے کے شوق میں جو جوا کھیلا وہ ناکام ہوا اور قومی اداروں کو یہ موقع ملا کہ وہ کراچی کوبدنما تصویروں‘ تجاوزات اور جرائم پیشہ افراد سے پاک کریں تاکہ معصوم‘ امن پسند اور محب وطن شہریوں کا خوف دور ہو اور ایم کیو ایم میں صاف ستھری سیاست کرنے والے کارکن اور لیڈر بے دھڑک اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ اس پر اعتراض کیوں؟ ہزاروں گھروں کو برباد کرنے والوں کے دفاتر مسمار ہوں تو ماتم کس بات کا؟ تجاوزات گرانا جرم کیسے ٹھہرا؟ وسیم اختر کو میئر منتخب ہونے کا موقع دے کر ریاست اور حکومت نے ثابت کیا کہ وہ جرم اور سیاست کو الگ کرنا چاہتی ہے‘ مہاجروں سے انتقام لینا نہیں چاہتی۔آخرہمارے بعض دانشوروں‘ تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کا جذبہ انسانی ہمدردی ظالموں‘ قاتلوں اور مجرموں کے حق میں ہی کیوں بیدار ہوتا ہے۔؟
مشرقی پاکستان کی مثال دے کر عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کے خلاف فوجی کارروائی کا نتیجہ پاکستان کی تقسیم کی صورت میں برآمد ہوا۔ بجا لیکن کیا کراچی مشرقی پاکستان ہے‘ایم کیو ایم عوامی لیگ جس نے قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے 160 (مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 ) جیت کر پورے ملک میں حق حکمرانی حاصل کیا۔ شیخ مجیب الرحمن تو زندگی بھر اپنے صوبے کے عوام کے ساتھ رہا اور ڈھاکہ میں دھان منڈی والے گھر سے گرفتار ہوا جبکہ الطاف حسین چوبیس سال سے لندن میں عیش کر رہا ہے اس کے معصوم ووٹروں کا کراچی میں کوئی پرسان حال نہیں۔ بھائی کے ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور عذاب کی صورت میں مسلط ہیں۔ ایٹمی پاکستان آخر ایک مٹھی بھر ٹولے سے بلیک میل کیوں ہو؟ اور صفایا کرنے کا موقع کیوں ضائع کرے۔ سیاسی جماعتیں آپریشن کو کامیاب اور کراچی کے مظلوم کو آزاد دیکھنے کی آرزو کریں ۔ ظالموں کو مظلوم نہ بنائیں تعلیم‘ روزگار‘ صحت اور صفائی کی سہولتیں مہاجروں کا حق ہیں‘ مجرم قیادت کو مسلط رکھنا نہیں۔وفاقی حکومت میں شامل بعض لال بجھکڑ الطاف حسین کے وفاداروں کو محفوظ راستہ دینے کی سوچ رکھتے ہیں‘ وہ میاں نوازشریف کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ ایم کیو ایم حصوں بخروں میں بٹی‘ الطاف آئوٹ ہوا تو سیاسی خلا تحریک انصاف پُر کرے گی جو مسلم لیگ کے لیے نقصان دہ ہے مگر یہ وقت سیاست سے زیادہ ریاست بچانے اور امریکہ‘ بھارت اور ان کے حواریوں سے نجات حاصل کرنے کا ہے۔ پُرامن کراچی مسلم لیگ نون‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سب کے مفاد میں ہے۔ سب سے زیادہ پاکستان کے مفاد میں۔ ریاست ہے تو سیاست بھی چلے گی اور سیاست کے نام پر موج مستی بھی۔ مسلم لیگ الطاف مافیا کو بچانے کے بجائے سیاسی عمل میں شریک کیوں نہیں ہوتی۔ میاں نواز شریف‘ عمران خان اور دیگر سیاستدان کراچی کو علاقہ غیر کیوں سمجھتے ہیں۔رہے ڈاکٹر فاروق ستار تو موصوف تاحال دو کشتیوں کے سوار ہیں۔ اخلاص کا ثبوت وہ اور اُن کے ساتھی استعفیٰ دے کر نئے مینڈیٹ لینے کی صورت میں دے سکتے ہیں۔ ع
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں