درندے

لگتا ہے پاکستان پر درندوں نے یلغار کردی ہے۔ نریندر مودی، محمود اچکزئی، الطاف حسین اور اب اسفند یار ولی۔
احتیاط لازم اور انصاف برحق۔ مگر حیلوں بہانوں سے بھارت نواز قوم پرست لیڈر شپ کے غلبے اور باقیات کو برقرار رکھنے پر اصرار؟ یہ عوام سے دوستی نہیں‘ دشمنی ہے۔ سنگدلانہ روش جس نے ماضی میں ریاست کو کمزور سے کمزور تر کیا۔
ڈاکٹر فاروق ستار سے مخالفین کا مطالبہ کیا ہے؟ الطاف حسین سے زبانی کلامی لاتعلقی نہیں موثر اور لائق اعتبار فیصلے اور اقدامات۔ مثلاً ایم کیو ایم کے آئین میں ترمیم، رابطوں کا انقطاع اور پارٹی میں تطہیر ۔صرف کراچی ہی نہیں ملک بھر کے عوام کو احساس ہو کہ الطاف حسین اور اس کے ملک دشمن ساتھیوں کے منحوس سائے چھٹ رہے ہیں اور سندھ کے شہری علاقوں کے مہذب اور ستم رسیدہ عوام کی قیادت اب صاف ستھرے اور قانون پسند لوگ کریں گے ۔ اگر فاروق ستار الطاف حسین اور اس کے جرائم پیشہ ساتھیوں کی پارٹی پر گرفت ختم کر کے سیاست میں نیا آغاز کرتے ہیں‘ ایم کیو ایم کو جمہوری اصولوں کے مطابق چلاتے اور بلیک میلنگ کے پرانے طور طریقوں سے کام نہیں لیتے تو بھلا کس کو اعتراض ہو سکتا ہے‘ کون یہ چاہے گا کہ ایک منظم سیاسی جماعت ،جرائم پیشہ عناصر سے چھٹکارا پانے کے بعد تتر بتر ہو اور دال جوتیوں میں بٹے۔
شکوک و شبہات اس وقت جنم لیتے ہیں جب ڈاکٹر فاروق ستار اور اُن کے ساتھی امریکی قونصل جنرل سے مل کر مبینہ طور پر ریاستی اداروں کی شکایت لگاتے اور 22 اگست کو پاکستان کے خلاف نعرے لگانے کے علاوہ میڈیا ہائوسز پر حملہ کرنے والوں کے وکیل صفائی بنتے ہیں‘ یا پھر کھل کر نہیں کہتے کہ جو لوگ بھارت کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں اُن کے خلاف ریاست کارروائی کرے، ہم بھرپور ساتھ دیں گے۔ سیاست میں مصلحت سے کام لینا بُرا نہیں‘ قاتل مافیا سے جان چھڑانے کے لیے بسااوقات زبان بند رکھنی پڑتی ہے اور فیصلوں میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ لیکن عزم تو نظر آئے اور ثابت قدمی بھی۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور اُن کے محب وطن ساتھی تو شائد یہ کر گزریں ،مگر پاکستان سے زیادہ اپنے مفادات کو ترجیح دینے اور ہر معاملے کو پرو اسٹیبلشمنٹ‘ اینٹی اسٹیبلشمنٹ نقطہ نظر سے دیکھنے والے بعض سیاسی و صحافتی نابغے انہیں غلط روش برقرار رکھنے کی ترغیب دے رہے ہیں حیف در حیف۔ 
الطاف حسین نے خبث باطن ظاہر کیا یا نریندر مودی کے ''جارحانہ دفاع‘‘ کی پالیسی کے تحت بھارت کی جنگ سرحدوں سے دور کراچی میں لڑنے کا آغاز‘ یہ بحث فضول ہے۔ لندن اور امریکہ میں بیٹھے الطاف حسین کے پاکستان دشمن ساتھیوں کے سوا کوئی دفاع پر آمادہ ہے نہ وضاحت کرنے کی پوزیشن میں۔ فاروق ستار اور اُن کے ساتھی اپنی قلب ماہیت کو حب الوطنی کا تقاضا قرار دے رہے ہیں مگر ہمارے بعض سیاستدان اور تجزیہ کار اسے رینجرز کی کدوکاوش اور اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دیکر یہ ثابت کرنے کے درپے ہیں کہ یہ کراچی میں قائم لانڈری کا کیا دھرا ہے۔ اعتزاز احسن جیسے سرد و گرم چشیدہ سیاست دان نے جب فاروق ستار اور آصف حسنین کے حوالے سے یہ بات کہی اور رینجرز کو اختیارات سے تجاوز کا مرتکب ٹھہرایا تو سچی بات ہے مجھے تکلیف ہوئی۔ کیا انہیں بدستور الطاف حسین کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہنا چاہیے؟ ملک دشمن مہم کا حصہ بنیں اور نریندر مودی کی مذموم خواہش کی تکمیل کریں؟۔ بعض تجزیہ کار بھی ان دنوں مہاجروں کو دیوار سے لگانے اور اسٹیبلشمنٹ کی پیشقدمی کا شور مچا کر عملاً یہی کھیل کھیل رہے ہیں‘ شاید ان کی خواہش یہ ہے کہ کراچی کے عوام قاتل مافیا کے چنگل سے آزاد نہ ہوں اور ایم کیو ایم امن کی پیامبر نہ بن سکے۔ مصطفی کمال پر بے رحمانہ طعن و تشنیع اور فاروق ستار کو ڈٹے رہنے کے مشورے؟ یہ حب الوطنی اور جمہوریت پسندی کی کون سی قسم ہے۔ ع کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
اطلاعات یہی ہیں کہ ڈاکٹر فاروق ستار مزید تنقید سے بچنے اور اپنی پشت پناہ وفاقی حکومت کو دبائو سے نکالنے کے لیے ایم کیو ایم کے دستور میں ترمیم اور الطاف حسین کی باقیات کے خاتمے کے لیے قانونی مشاورت مکمل کر چکے اور بتدریج پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے ہیںاور ڈاکٹر عشرت العباد کا تعاون انہیں حاصل ہے۔ پارٹی میں چھپے شرپسندوں کی نشاندہی جاری ہے تاکہ کراچی کو ''را‘‘ کے ایجنٹوں اور کرائے کے قاتلوں سے تدبر و احتیاط کے ساتھ پاک کیا جا سکے۔ ضرورت محسوس ہوئی تو ایم کیو ایم کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ اپنی رکنیت سے استعفیٰ بھی دے سکتے ہیں تاکہ متنازعہ مینڈیٹ سے نجات پا کر وہ آزادی سے کام کر سکیں۔ الطاف حسین سے مکمل قطع تعلقی صرف شکوک و شبہات کے ازالے کے لیے ہی نہیں برطانیہ میں ''را‘‘ کے ایجنٹوں کی بارگیننگ پوزیشن کمزور بلکہ ختم کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ وفاقی حکومت اگرچہ اس حوالے سے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہے اور ایم کیو ایم کو زیادہ سے زیادہ مراعات اور سہولتیں دے کر استعفوں سے روکنے کی کوشش کرے گی کیونکہ یہ خدشہ موجود ہے کہ ان استعفوں کے بعد تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی بھی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر ایک ایسی نگران حکومت کی تشکیل کا راستہ ہموار کر دیں جو عام انتخابات کے علاوہ بلاتفریق احتساب کا کارنامہ انجام دے سکے۔ تاہم ڈاکٹر فاروق ستار اور اُن کے ساتھیوں پر بڑھتا ہوا دبائو اور ایم کیو ایم پر پابندی کا مطالبہ کسی بھی ایسے فیصلے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے جو لندن کے علاوہ اسلام آباد کے لیے سرپرائز ہو۔
ماضی میں ہمارے کوتاہ اندیش سیاسی و فوجی حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی دشمنی میں زمینی حقائق فراموش کرنے والے میڈیا نے سانپوں اور سنپولیوں کی پرورش کی‘ اگر تلہ سازش کیس حقیقت تھا اور شیخ مجیب الرحمن کے علاوہ ان کے قریبی ساتھیوں کی پاکستان دشمنی مُسلّم ۔مگر ایوب خان کو مجبور کر دیا گیا کہ وہ سانپ کا سر کچلنے کے بجائے اُسے دودھ پلانے کا احمقانہ مطالبہ تسلیم کرے‘ بھارت کی کھلی فوجی جارحیت کے ذریعے پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے نئی دہلی اور ڈھاکہ میں برملا اعتراف کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر ایک عشرے سے آزاد بنگلہ دیش کی جدوجہد کر رہا تھا‘ الطاف حسین کو جتنی ڈھیل ملی، تاریخ میں کسی غدار اور باغی کو نہیں۔ الطاف حسین سے تعرض نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ کبھی محمود خان اچکزئی اسمبلی میں کھڑے ہو کر پاک فوج اور آئی ایس آئی کو لتاڑتے ہیں اور کبھی اسفندیار ولی ''میں افغانی تھا‘ افغانی ہوں اور مرتے دنوں تک افغانی ہی رہوں گا‘‘ کا راگ الاپتے ہیں۔پاکستان کے بجائے جلال آباد میں دفن ہونے والے غفار خان کے پوتے کو اچانک یہ خیال کیوں آیا۔؟ نریندر مودی کی 15 اگست والی تقریر کے بعد۔ ع 
تہذیب نے اپنے درندوں کو ابھارا
ایسی مادر پدر آزاد جمہوریت اور بے شرم و بے حیا آزادی اظہار کا تیسری دنیا کے کسی اور ملک میں تصور ہے؟ اسلام‘ پاکستان‘ مذہبی شعائر حتیٰ کہ ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے ہمارے حکمران اور آزادی اظہار کے علمبردار خاصے فراخدل واقع ہوئے ہیں۔ عوام جراثیم زدہ پانی پیئں یا کوڑے دان سے چن کر گلی سڑی غذا کھائیں‘ تھر میں معصوم بچے پانی اور خوراک کی کمی سے سینکڑوں کی تعداد میں مریں یا پنجاب میں اغوا کاروں کے ہتھے چڑھیں کسی کو پروا نہیں۔ بچوں کے اعضا بھارت سمگل کرنے کا مکروہ دھندہ جاری ہے اور ماں باپ غربت و افلاس اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنے بچوں کو قتل کر رہے ہیں کبھی کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ۔لیکن قومی ادارے کسی ملک دشمن اور غدار پر ہاتھ ڈالیں‘ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے والی کوئی خاتون گرفتار ہو اور مقبوضہ کشمیر میں خون کی ہولی کھیلنے والی بھارتی فوج کے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے کراچی کا فسادی ٹولہ رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو جمہوریت پسندوں کو فوراً انسانی حقوق یاد آ جاتے ہیں اور جذبہ ہمدردی جاگ پڑتا ہے۔ گزشتہ روز بچیانہ میں ایک لاوارث لاش کو گدھا گاڑی پر ڈال کر تھانے لایا گیا ‘ اے ایس آئی کو معطل کر دیا گیا مگر میٹرو بس کے روٹ پر زندہ انسان، مرد و زن اور بچے گدھا گاڑی پر سفر کر رہے ہوتے ہیں ‘کسی کی نظر نہیں پڑتی کہ یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔ جب زندہ انسانوں کو گدھا گاڑی پر سفر روا ہے تو لاش کا جرم کیسے؟ انہی تضادات نے معاشرے کو جہنم بنا دیا ہے اور الطاف حسین‘ اسفندیار ولی‘ محمود اچکزئی اور براہم داغ بگٹی کے مُنہ میں جو آتا ہے کہہ دیتے ہیں کوئی پوچھنے والا جونہ ہوا؟۔مناسب نہ ہوگا کہ 22 اگست کے مجرموں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایاجائے؟۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں