خوش قسمت

یہ ہماری حکمران اشرافیہ کی فراخدلی ہے اور ریاست کی کمزوری یا الطاف حسین کی خوش قسمتی کہ پاکستان کے خلاف نعرے بازی‘ کراچی میں اشتعال انگیز بیانات اور کارکنوں کے ذریعے لاشوں کے ڈھیر لگانے اور امریکہ‘ بھارت‘ اسرائیل کی مدد سے پاکستان کو توڑنے کا عزم ظاہر کرنے کے باوجود باغی اور غدار قرار پائے نہ ان کے تیس تیس سال تک دست و بازو بنے ساتھیوں سے وہ سلوک ہو رہا ہے جو دہشت گردوں‘ غداروں اور ریاست کے باغیوں کے معاونین‘ سہولت کاروں اور مالی امداد دینے والوں کا ہونا چاہئے ‘ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو خاصے روشن خیال وزیراعظم تھے ‘ مگر خان عبدالولی خان نے پختونستان کا عزم ظاہر کیا‘ زنجیر اٹھا کر اٹک کے پل پر لگانے کی بات کی اور عراقی سفارت خانہ سے لایا گیا اسلحہ برآمد ہوا تو موصوف اپنے ساتھیوں غوث بخش بزنجو اور عطاء اللہ مینگل سمیت وطن دشمن قرار پائے اور حیدرآباد جیل میں بند کر دیئے گئے۔ ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی اور وہ آج تک کالعدم ہے۔ نیپ کے بچے کھچے ارکان اسمبلی اور کارکنوں کو البتہ یہ رعایت ملی کہ وہ سردار شیرباز خان مزاری کی سربراہی میں بننے والی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی) میں شامل ہو کر سیاست کریں۔ ولی خان اور اُن کے ساتھی تو خیر قوم پرست تھے‘ پختونستان کے حامی اور قیام پاکستان کے وقت کانگریس کے ہمنوا ‘ یہاں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا عبدالستار خان نیازی کو حُب رسولﷺ کی تحریک میں حصہ لینے اور ''غلام ہیں‘ غلام ہیں‘ رسولﷺ کے غلام ہیں ‘‘کا نعرہ لگانے پر موت کی سزا سنائی گئی۔ ان کی حُب الوطنی پر کسی کو شک تھا نہ باغی ہونے کا یقین۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ نون کے صدر جاوید ہاشمی نے پریس کانفرنس میں ایک گمنام شخص کا خط پڑھا جو ارکان اسمبلی کو لکھا گیا تھا اور پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے خلاف تھا۔ اسے فوجی افسران کو حکومت کے خلاف اُکسانے کی ترغیب پر مبنی قرار دیا گیا ۔ساری زندگی پاکستان سے محبت کا پرچار اور بحالی جمہوریت کی جدوجہد کرنے والے اس سیاستدان کو بغاوت کے الزام میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی ۔اتنی رعایت البتہ پرویز مشرف نے کی کہ قیدی کو پہلے اڈیالہ اور پھر کوٹ لکھپت جیل میں رکھا‘ مچھ اور میانوالی جیل بھیجنے کی ہدایت نہیں کی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ وفاق اور پنجاب میں اس وقت مسلم لیگ کے ایک دھڑے کی حکومت تھی۔ وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی کا تعلق مسلم لیگی خاندان سے تھا مگر وہ اپنے مسلم لیگی بھائی کی کوئی مدد نہ کر سکے۔ حد یہ تھی کہ جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری جیسا دبنگ چیف جسٹس ان کی ضمانت لینے پر تیار نہ تھا ۔
الطاف حسین نے مگر پاکستانی عوام اور اپنے کارکنوں کو بغاوت پر اُکسایا‘ بھارت سے مدد طلب کی اور پاکستان کے خلاف نعرے لگوائے تو ریاست‘ حکومت‘ پارلیمنٹ اور سول اداروں میں سے کسی کو اتنا غصّہ بھی نہ آیا جتنا مولانا فضل الرحمن کو عمران خان اور محمود خان اچکزئی‘ کو فوج پر آتا ہے۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ نے الطاف حسین کے خلاف ایک ہومیوپیتھک ٹائپ قرارداد منظور کی تو حیرت ہوئی کہ اگر الطاف حسین کی ناز برداری اور ایم کیو ایم کی خوشنودی مطلوب ہے تو اس تکلف کی کیا ضرورت تھی؟ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا یا قومی سلامتی کے اداروں کو مطمئن کرنا؟ مخدوم جاوید ہاشمی سے رابطہ نہیں ہو پایا‘ میں ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ الطاف حسین اور اُن کے ساتھیوں کی ناز برداری ہوتے دیکھ کر وہ کسی احساس محرومی کا شکار تو نہیں؟ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بھی جب جاوید ہاشمی اڈیالہ جیل میں پڑے تھے‘ الطاف حسین پاکستان کے خلاف بھارت سے مدد مانگنے اور پاکستان کو تاریخ کا سب سے بڑا بلنڈر قرار دینے کے بعد نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کے گھر عشائیے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ اس عشائیہ کا اہتمام فوجی حکمران کی ہدایت پر کیا گیا تھا ورنہ سفارت خانے کے جملہ ارکان اس ننگ ملت‘ ننگ دین‘ ننگ وطن سے ہاتھ ملانا تو درکنار اسکی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اسلام آباد کے احکامات پر مجبور ہو گئے۔ حکمِ حاکم مرگ مفاجات۔
ریاست اور حکومت کی اس قدر نرمی بلکہ شفقت اور متحدہ قومی موومنٹ کو فاروق ستار کی سربراہی میں اپنی قانونی و سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت کے باوجود ڈاکٹر فاروق ستار اور نسرین جلیل خوش نہیں‘ ان کو گلہ ہے کہ نائن زیرو سیل ہے اور سرکاری رقبے بالخصوص پارکوں میں قائم دفاتر کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ پریس کلب کے باہر بھوک ہڑتالی کیمپ میں الطاف حسین کی آواز پر لبیک کہنے‘ پاکستان کے خلاف پرجوش نعرہ بازی کرنے اور چینلوں کے دفاتر پر دھاوا بولنے والے مرد و خواتین گرفتار ہیں‘ یہ ہمیں دیوار سے لگانے کی سازش ہے وغیرہ وغیرہ۔ قومی اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے وقت صرف لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے الطاف حسین کے خلاف کھل کر بات کی اور ایم کیو ایم کے ارکان کو الطاف کا اعزاز و اکرام برقرار رکھنے پر حیرت کا اظہار کیا۔ مسلم لیگ نون تو اپنی قیادت کی فراخدلانہ پالیسی کے ہاتھوں مجبور ہے مگر تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں نے بھی مصلحتوں سے کام لیا۔ پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کی اسی مصلحت پسندی سے گھبرا کر بسااوقات فوجی قیادت کو زبان کھولنی پڑتی ہے کہ عوام اپنے آپ کو بالکل بے بس‘ مجبور اور بھارت کے علاوہ اس کے ایجنٹوں کے سامنے بے آسرا محسوس نہ کریں‘ یہ نہ سمجھنے لگیں کہ کوئی ان کے جذبات کی ترجمانی کرنے والا ہے نہ دُشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دینے والا۔گزشتہ روز گلگت بلتستان میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے نریندرمودی اور ''را‘‘ کا نام لے کر سرحدوں کی حفاظت کا عزم ظاہر کیا تو بہت سی جبینیں شکن آلود ہوئیں مگر اس کے سوا چارہ کیا تھا؟ عوام جن کے مُنہ سے یہ باتیں سننا چاہتے ہیں وہ خود بولیں نہ شلجموں سے مٹی جھاڑنے کے سوا کچھ کریں تو کوئی نہ کوئی یہ کفارہ ادا کریگا اور آرمی چیف نے کیا۔ 
1951ء میں پاکستان نیوکلیئر پاور تھا نہ اقتصادی‘ معاشی اور سیاسی طور پر بھارت کے ہم پلّہ‘ کروڑوں کی تعداد میں مہاجرین کی آباد کاری میں الجھا ہوا مگر جواہر لال نہرو کی حکومت نے نوزائیدہ مملکت کو ایزی لینے کی کوشش کی‘ سرحدوں پر نقل و حرکت کی تو قائداعظمؒ کے ساتھی لیاقت علی خان نے مُکّہ لہرایا اور سرحدوں پر کھڑی بھارتی فوج کو واپسی پر مجبور کر دیا ۔اب صورتحال یہ ہے کہ نریندرمودی تو کجا ہم اس کے ایجنٹوں کو بھی اس زبان میں جواب دینے کے روادار نہیں جو وہ سمجھتے ہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین کے حوالے سے اس قدر بے لچک اور سخت کہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی ریلیوں کو ناکام بنانے کے لیے لاہور اور راولپنڈی میں کنٹینر لگا کر مریضوں کی ہسپتالوں تک رسائی ناممکن بنا دی‘ اموات کی پروا نہ کی ۔مگر الطاف حسین کے حوالے سے مذمتی قرارداد میں بھی اس امر کو ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ وہ غدّار قرار نہ پائے‘ اس کی اور اس کے وفاداروں کی دل آزاری نہ ہو۔ اقبالؒ نے کہا تھا ؎
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
معرکہ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
یہاں حکمران اشرافیہ کی رگ حمیّت صرف سیاسی مخالفین کے خلاف پھڑکتی ہے۔ پاکستان دشمنوں کے معاملہ میں یہ طبقہ ریشم کی طرح نرم ہو نہ ہو مصلحت کوش ضرور ہے۔ اس میں سول اور فوجی کی تفریق نہیں۔ الطاف حسین سب کی آنکھ کا تارا تھا اور ہے۔ مذمتی قرارداد میں ایسے تمام افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ مولانا مودودی‘ خان عبدالولی خان‘ مولانا عبدالستار خان نیازی‘ غوث بخش بزنجو تو اب دنیا میں موجود نہیں‘ البتہ عطاء اللہ مینگل اور مخدوم جاوید ہاشمی سوچتے ضرور ہوں گے کہ انہوں نے کس جُرم کی سزا پائی۔ غداری‘ بغاوت اور ملک دشمنی کا مرتکب ہونے والوں سے اب تو کوئی نہیں پوچھتا۔ تب کیوں؟ شائد الطاف حسین اور اُن کے ساتھی خوش قسمت ہیں‘ حکمران اشرافیہ فراخدل‘ یا ریاست کمزوری کا شکار؟؟؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں