ربّ نیڑے کہ گُھسن

عمران خان لاکھ جتن کریں، ارکان پارلیمنٹ کو جھنجھوڑیں، طنز کریں، طعنے دیں، ان کا ضمیر جگائیں، کامیابی ممکن نہیں۔ کہتے ہیں سوتے کو آواز دے کر جگایا جا سکتا ہے، جاگے کو کون جگائے۔ باضمیر ارکان اسمبلی کی مسلم لیگ (ن) میں کمی نہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ع 'ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہوشیار بھی ہیں‘ لیکن سب کے سب مفاد پرست ہیں نہ جھولی چُک۔ بھلے مانس زیادہ ہوں گے یہ اتنے بھولے مگر نہیں کہ عمران خان کی باتوں میں آ کر اپنے قائد سے جواب طلبی کی حماقت کریں؟ ناممکن۔ اگر سیاستدان اور ارکان اسمبلی اطاعت گزاری اور فرماں برداری کی عادت چھوڑ کر اپنے اور اپنے قائدین کے احتساب کی روش اپناتے تو ملک کی حالت اتنی ابتر ہوتی؟
کہنے کو یہاں ایک صدی پرانی مسلم لیگ ہے اور نصف صدی پرانی پیپلز پارٹی بھی، تحریک انصاف کا سن ماشاء اللہ سولہ برس کا ہے، تینوں کو ووٹروں کی کثیر تعداد کا اعتماد حاصل ہے مگر ان کے ارکان اسمبلی سے کوئی یہ توقع کرے کہ وہ اپنے لیڈر کے ذاتی اعمال و افعال، پالیسیوں کے حسن و قبح اور فیصلہ سازی کے طریقہ کار کو نقد و جرح کا موضوع بنائیں۔ ایں خیال است و محال است و جنوں۔ یہ کام جمہوری طور پر منظم سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے‘ جن کا یہاں کال ہے۔ عمران خان نے 2012ء میں جماعتی انتخابات کا ڈول ڈالا، کچھ اپنی غلطیوں، کچھ ساتھیوں کی زیادتیوں بلکہ سازشوں اور کچھ قوم کے عمومی مزاج کی وجہ سے شفاف انتخابات کرانے میں ناکام رہے۔ اس چکر میں 2013ء کے عام انتخابات میں وزارت عظمیٰ کی بس مس کر بیٹھے۔ دھاندلی تو عام انتخابات میں ہوئی، مگر تحریک انصاف کی دھاندلی زدہ شکست کا جواز مخالفین نے یہ ڈھونڈا کہ عمران خان اپنے امیدواروں کا بروقت فیصلہ نہ کر سکے، تنظیمی ڈھانچہ کمزور تھا، کارکن اور لیڈر باہم دست و گریباں اور انتخابی مہم کے لیے وقت کم‘ وغیرہ وغیرہ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی والوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ وہ انہی خدشات کی بنا پر جماعتی انتخابات کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتے۔ 
منظم سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی میں لیڈر ہی سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں اور کارکن ہوں یا ارکان اسمبلی‘ ان کے محتاج و نیازمند۔ میاں صاحب تو ویسے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کا تیسری بار اقتدار میں آنا ان کی خوش قسمتی کا مرہون منت ہے، یا پھر دلیرانہ موقف، ذاتی مقبولیت اور جمہوریت کے لیے قربانیوں کے علاوہ سیاسی جوڑ توڑ کی غیرمعمولی صلاحیت کا۔ ارکان اسمبلی کی یہ مجال کہاں کہ وہ پاناما پیپرز کے حوالے سے کوئی سوال کر سکیں۔ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی یہ ہمت نہیں کہ وہ عمران خان سے پوچھ سکیں: قبلہ! آپ نے احتجاجی تحریک کے لیے حج کا ارادہ کیوں ترک کیا؟ بحرانی کیفیت میں آپ بچوں سے ملنے لندن چلے جاتے ہیں اور سیر سپاٹے کے لیے کاغان، ناران بھی‘ مگر حج کو ٹال دیتے ہیں‘ حالانکہ اللہ سے کامیابی مانگنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ مسلم لیگی ارکان اسمبلی میں اتنی تاب و تواں کہاں کہ وہ اپنے لیڈر سے‘ جو بااختیار وزیر اعظم بھی ہے‘ لندن کی جائیدادوں اور بچوں کی آمدن کے بارے میں سوال کر سکیں، کرکے جائیں گے کہاں؟
جس ملک میں سقوط ڈھاکہ پر باز پرس کا رواج نہ ہو، آئین شکنی پر کسی سے پوچھ گچھ نہ ہو، سرے محل اور سوئس اکائونٹس کے بارے میں سوال اٹھے تو میڈیا، عدالتوں اور پارلیمنٹ میں قسمیں اٹھا کر لاتعلقی ظاہر کی جائے اور پھر اچانک ملکیت کا دعویٰ۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپنے منصب کی قربانی دے دیں، سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل نہ کریں مگر ان کا جانشین خط لکھ دے، پارٹی میں کوئی شرمندگی محسوس کرنے نہ وضاحت کی ضرورت۔ اور جہاں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ دس سالہ تحریری عہد و پیماں کی تردید اور پھر تائید کے باوجود کسی کی پیشانی پر عرق انفعال کا ایک قطرہ تک نمودار نہ ہو‘ وہاں حکمران جماعت کے ارکان پارلیمنٹ پاناما پیپرز میں کسی کا نام آنے پر احتساب کا نعرہ کیوں بلند کریں؟ رسم دنیا ہے نہ موقع ہے نہ دستور۔ اربوں روپے کی یہ دولت کون سا ان کی جیبوں سے نکلی اور بیرون ملک منتقل ہوئی، قومی دولت کو ہماری اشرافیہ نے ہمیشہ مال مفت سمجھ کر بے رحمی سے استعمال کیا۔ قومی خزانہ ان شرفا کے لیے حلوائی کی دکان ہے جس پر نانا جی کی فاتحہ نہ پڑھنا کور ذوقی ہے۔ جو ایسا نہیں کرتے انہیں سیاستدان تو کیا عام لوگ بھی لائق اعتنا نہیں سمجھتے۔ ''چھوڑیں جی یہ تو شریف آدمی ہے یعنی سادہ لوح اور کودن‘‘۔
پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی کمزوری کا ذمہ دار فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ بجا کہ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو کام کرنے کا موقع نہیں ملا، سیاسی اور جمہوری ادارے مضبوط نہ ہو سکے‘ مگر جمہوری ادوار میں ہمارے منتخب حکمرانوں اور مقبول سیاستدانوں نے پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، ارکان اسمبلی اور دیانتدار سیاسی کارکنوں سے کیا سلوک کیا؟ کوئی سوچتا ہے نہ اپنے گریبان میں جھانکتا ہے۔ محاذ آرائی تو ایک فیکٹر ہے مگر وسیع پیمانے پر لوٹ مار، اختیارات کا ناجائز استعمال، اقربا پروری، دوست نوازی، شرمناک، کارگزاری، نااہل و نالائق افراد کی سرپرستی، سیاسی جماعتوں کو منظم کرنے سے گریز اور خاندانی قیادت پہ اصرار۔ یہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف میں کس فوجی جرنیل کا تجویز کردہ نسخہ ہے؟ انہی فوجی حکمرانوں کے قریبی ساتھیوں کو اپنے وفادار اور ایثار پیشہ کارکنوں پر ترجیح دینا اور انہی کی پالیسیوں کو جاری رکھنا کون سی مجبوری ہے؟ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ فوجی آمروں کے بعض اچھے فیصلے، منصوبے اور قوانین تو ترک ہوئے مگر ان کی برائیوں کو ضرب دے کر جاری رکھا گیا۔ ارکان اسمبلی کے لیے بی اے کی شرط ختم ہو گئی مگر لوٹ مار کے لیے صوابدیدی و ترقیاتی فنڈز بدستور بٹ رہے ہیں۔
ان فنڈز اور مراعات سے مستفید ہونے والے ارکان پارلیمنٹ کی بلا سے، بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کے بجائے کمی ہو، برآمدات میں چار ارب ڈالر کا گھاٹا پڑے، تارکین وطن کی ترسیلات زر میں پچھلے سال کے مقابلے میں مندے کا رجحان ہو، وزارت خزانہ بجٹ خسارہ کا مقررہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ملک میںکثیر آبادی پینے کے صاف پانی، مناسب طبی و تعلیمی سہولتوں، روزگار کے مواقع اور انصاف سے محروم ہے۔ مائیں بچوں سمیت خود کشی پر مجبور اور نوجوان جرائم کی راہ پر گامزن۔ انہیں بھلا کیا غرض۔ ان بھلے مانس عوامی نمائندوں کو اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا جمہوری حق حاصل ہے‘ اور یہ مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے بیرون ملک کے دورے بھی کر سکتے ہیں۔ کپاس ہماری برآمدات میں اہم عنصر ہے مگر اس کے کاشتکار پریشان ہیں۔ زرعی شعبے کا کوئی پرسان حال نہیں اور مہنگائی کے علاوہ جعلی و ناقص کھادوں، زرعی ادویات اور بیجوں نے ان کی کمر توڑ دی ہے مگر مسلم لیگی حکومت ایک محدود صنعتی و تجارتی طبقے کو خوش کرنے میں لگی ہے۔ اسمبلی میں ستر فیصد نمائندگی دیہی حلقوں کی ہے، مگر مجال ہے کہ کوئی رکن اسمبلی کاشتکاروں اور زرعی شعبے کے مسائل پر لب کھولنے کی زحمت گوارا کرے۔ حکومتی بنچوں کے علاوہ اپوزیشن بنچوں کا بھی یہی حال ہے۔ ان ارکان پارلیمنٹ سے اگر عمران خان یہ توقع کرتے ہیںکہ وہ پاناما پیپرز پر زبان کھولیں اور میاں نواز شریف سے جواب طلب کریں تو قصوروار وہ خود ہیں، کوئی دوسرا نہیں۔ جن وزیروں اور ارکان اسمبلی کو کئی کئی ماہ بلکہ ایک ایک سال تک شرف ملاقات حاصل نہ ہو، وزیر اعظم پہچانتے نہ ہوں، مگر انہیں اپنے قائد سے کوئی گلہ نہیں‘ وہ بھلا ایک ایسے موضوع پر کلمہ حق کیوں بلند کریں‘ جو ان کے گلے پڑ سکتا ہے۔ احتساب کا آغاز ایک بار ہو گیا تو کون جانے کس کس کی باری آ جائے۔ اس حمام میں سب نہیں تو اکثر ننگے ہیں۔ لہٰذا خاموشی ہی بھلی۔ جب اللہ تعالیٰ کو جواب دینے کی باری آئی تو دیکھا جائے گا۔ فی الحال تو معاملہ ''رب نیڑے کہ گُھسن‘‘ والا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں