سنگ را‘بستہ وسگاں را‘کشادہ

معطل ایس ایس پی ملیر ٹائون رائو انوار خودسر افسر ہے ۔صرف خود سر ہی نہیں بااثر بھی۔ انسپکٹر کے طور پر اس نے طویل رخصت لی تو فرمائش کی کہ اس کی واپسی تک کسی کو تھانہ انچارج نہ لگایا جائے۔ ایس پی اور ڈی آئی جی نے انکار کر دیا مگر جب تک وہ چھٹی پر رہا پوسٹ خالی رکھی گئی کہ اوپر کا حکم تھا۔ ذوالفقار مرزا جیسا بارسوخ اور بددماغ وزیر داخلہ بھی اسے تابع فرمان بنا سکا‘ نہ تبدیل کرانے میں کامیاب ہوا‘ بالآخر خود ہی وزارت داخلہ سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پچھلے سال اپریل میں اس نے ایم کیو ایم کے بعض بااثر کارکن پکڑے اور فاروق ستاراینڈ کمپنی کے شور مچانے پر الزام لگایا کہ یہ ملزمان بھارتی سرزمین پر ''را‘‘ سے دہشت گردی‘ تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ کی تربیت حاصل کر کے آئے ہیں۔ بعض دستاویزات کے ذریعے اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایم ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور الطاف حسین لندن سے دہشت گردی کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم بھڑک اٹھی اور دبائو بڑھنے پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے آصف علی زرداری کے چہیتے ایس ایس پی کو عہدے سے ہٹا دیا مگر دو چار دن کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ سال بعد رائو انوار کی ساری باتیں درست ثابت ہوئیں۔ 
رائو انوار پر جعلی پولیس مقابلوں میں بے گناہ افراد کو مارنے‘ اپنی ترقی اور شہرت کے لیے ہر حد سے گزرنے‘ قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرنے اور مُنہ آئی بات کہہ دینے کا الزام ہمیشہ لگتا رہا۔ رائو انوار نے گزشتہ روز خواجہ اظہار الحسن کو وارنٹ گرفتاری دکھائے بغیر دن دیہاڑے میڈیا کی موجودگی میں گرفتار کر کے سینہ زوری دکھائی۔ ایک خودسر افسر نے اپنی کوتاہ اندیشی سے ایم کیو ایم کو آکسیجن فراہم کی اور کئی گھنٹے تک ایم کیو ایم کے رہنما اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو یرغمال بنائے رکھا اور ہمارا فعال و متحرک میڈیا مہمند ایجنسی میں دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے درجنوں معصوم شہریوں کو بھول کر الطاف حسین کے ساتھیوں کی اُوٹ پٹانگ باتیں نشر کرتا رہا۔
طریقہ کار کی غلطی اور رائو انوار کی خودسری اپنی جگہ مگر ہماری سیاسی اشرافیہ نے اس پر جو ردعمل ظاہر کیا وہ بچگانہ بلکہ احمقانہ تھا۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے علاوہ سپیکر سندھ اسمبلی کو یہ علم نہیں کہ کسی رکن اسمبلی کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس اہلکار پیشگی اجازت کے پابند نہیں۔ اس بے خبری پر کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔ لاعلمی ہرگز عیب نہیں مگر قانونی ماہرین سے مشورہ کیے بغیر بیان بازی اور فیصلہ سازی صرف عیب ہی نہیں قانون شکنی اور ڈھٹائی ہے۔ ایم کیو ایم کا فاروق ستارگروپ زبانی کلامی دعوئوں کے باوجود ابھی تک الطاف حسین اور لندن سیکرٹریٹ سے کامل لاتعلقی ثابت نہیں کر پا رہا۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران فاروق ستار ایک بار پھر دل کی بات زبان پر لے آئے کہ ''معاملہ ایم کیو ایم کو لندن سے چلانے کا نہیں‘ پاکستان مخالف نعرے لگانے کا نہیں ‘بلکہ مہاجر دشمنی کا ہے ‘پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بتائے آخر وہ کیا چاہتی ہے‘‘۔ اس موقع پر 22اگست کی طرح پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے جس کو فاروق ستار نے سیٹی مار کر روکا ضرور مگر نعرہ لگانے والے کارکنوں کی سرزنش کی نہ ان سے اظہار برأت کیا ۔یہ ایم کیو ایم کی پاکستانی قیادت کے دعوئوں کی نفی ہے۔مگر میڈیا ناظرین کو کچھ اور دکھاتا اورسناتا رہا۔خواجہ کی گرفتاری پر سیخ پا وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ نے ان مکروہ نعروں کا نوٹس لیا نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی۔
خواجہ اظہار الحسن کو تو ایس ایس پی نے سانحہ بارہ مئی اور چند روز قبل گاڑیاں جلانے کے الزام میں پکڑا جس کی قانون میں گنجائش ہے مگر اس ملک میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ مولانا عبدالستار خان نیازی کو فوجی عدالت نے سزا ئے موت سنائی تھی‘ ایئر مارشل اصغر خان ‘ نوابزادہ نصراللہ خان اور دیگر رہنما برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے‘ بھٹو دور میں سیاسی لیڈروں سے ناشائستہ سلوک ہوا اور جنرل ضیاء الحق نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور لیڈروں کو کوڑے مروائے‘ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیںمگر پاکستان کے خلاف نعرہ کسی نے نہیں لگایا۔الطاف حسین اور ان کے ساتھی شائدبرتر مخلوق ہیں‘ برطانوی صحافی اوون برنینٹ کے بقول ''الطاف حسین برطانیہ کے لاڈلے ہیں ‘‘ ان کے پاکستانی ساتھی ہماری حکمران اشرافیہ کے چہیتے کہ وہ اپنے کارکنوں کو بھارت سے تربیت دلوائیں‘ شہر میں ہزاروں بے گناہوں کے قتل میں ملوث ہوں‘ سانحہ بلدیہ ٹائون میں اڑھائی سو زندہ انسانوں کو جلا دیں‘ بارہ مئی کو کراچی میں سرعام لاشیں گرائیں اور پاکستان کے خلاف نعرے لگائیں ‘انہیں ناقابل وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود کوئی گرفتار نہیں کر سکتا‘ کرے تو رائو انوار کی طرح فوراً معطل ہو جاتا ہے بلکہ اس سے ملاقات کرنے والا ڈی آئی جی بھی صوبہ بدر جبکہ ملزم سرکاری پروٹوکول کے ساتھ رہا۔ یہ کراچی آپریشن کو کامیاب کرنے کی حکمت عملی ہے یا اسے ناکامی سے دوچار کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ؟ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ کسی دانا کا قول ہے کہ جب کسی طاقتور کو اپنے جرم کی سزا نہیں ملتی تو وہ سزا پورے سماج کو بھگتنی پڑتی ہے۔ کراچی بلکہ پاکستان کے عوام اسی جرم کی سزا بھگت رہے ہیں‘ بے وقوف بھیڑوں کی طرح جو جرمن محاورے کے مطابق اپنے قصاب خود چنتی ہیں۔
رائو انوار کی معطلی سے وفاقی اور صوبائی حکومت نے فورسز کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ اگر انہوں نے قانون کو مطلوب طاقتوروں ‘ ''را‘‘ کے ایجنٹوں اور پاکستان کے دشمنوں پر ہاتھ ڈالا تو ان کا انجام رائو سے مختلف نہیں ہو گا۔ خواجہ اظہار الحسن کو یہ رعایت منتخب عوامی نمائندہ ہونے کی بنا پر مل رہی ہے لیکن 22اگست کی شام جب خواجہ صاحب کو اپنے لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار کے ہمراہ رینجرز نے تحویل میں لیا تو وزیر اعلیٰ‘ وزیر اعظم اور ان کے اہالیوں‘ موالیوں میں سے کسی کو آئین یاد رہا نہ قانون‘ کسی کی رگ جمہوریت پھڑکی نہ سیاسی غیرت نے جوش مارا‘ سب اپنے بچائو کی تدبیر کرتے رہے۔ یہ جمہوریت اور قانون کی بالادستی کا اہتمام ہے نہ رائو انوار کے ملازمتی حدود سے تجاوز کی سزا‘ یہ جمہوریت کے نام پر وجودمیں آنے والے کرپٹ‘ قبضہ گیر‘ بھتہ خور اور وسائل چور مافیا کا گٹھ جوڑ ہے ‘یہ جتھے بندی کے ذریعے یہاں دہشت گردی اور کرپشن کا میل ملاپ برقرار رکھنے اور سہولت کاروں کا تحفظ کرنے کی تدبیر ہے تاکہ آئندہ کوئی پولیس افسر کسی مجرم پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرے اور رائو انوار کا حشر یاد رکھے۔
دھن‘ دھونس‘ دھاندلی اور اسلحے کے زور پر عوامی مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد اگر ہر جرم کی اجازت مل جاتی ہے تو مُلاّ فضل اللہ نے غلطی کی‘ وہ بھی اپنے مسلح جنگجوئوں کے ذریعے سوات اور گردو نواح کے عوام کو یرغمال بنا کر بآسانی اسمبلی میں پہنچ سکتا تھا‘پھر کوئی ریاستی ادارہ اس پر ہاتھ ڈالتا تو سیاستدان‘ صحافی اور انسانی حقوق کے علمبردار آسمان سر پر اٹھا لیتے اور کسی کو دہشت گردی کی کارروائیاں یاد رہتیں نہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں سے گٹھ جوڑ اور نہ پاکستان دشمنی پر مبنی عزائم۔ 
کوئی نہیں چاہتا کہ آئین ‘ قانون‘ جمہوری روایات اور قومی مفادات کو پس پُشت ڈال کر ریاستی ادارے اور پولیس و رینجرز کے افسران من مانی کرتے پھریں۔ منتخب عوامی نمائندوں کی تذلیل کریں اور ایم کیو ایم کو دیوار سے لگائیں ۔قانون سے ریاستی اداروں کی طرح مگر ایم کیو ایم بھی بالاتر نہیں اور حکمران بھی سیاسی جھتے بندی سے یہ تاثر پیدا نہ کریں کہ انہیں ریاست سے زیادہ سیاست عزیز ہے اور قانون صرف ایک برتر مخلوق کا تحفظ کرتا ہے ۔عام شہریوں کو جوتے پڑیں یا وہ زندگی بھر جیلوں گلتے سڑتے رہیں جمہوریت کو پروا ہے نہ سلطانی جمہور کے علمبرداروں کو۔12مئی اور سانحہ بلدیہ ٹائون میں جان کی بازی ہارنے والوں کا خون بھی سرخ تھا اور ان کے بھی کچھ حقوق تھے مگر آواز صرف قاتلوں کے حق میں بلند ہورہی ہے۔ رائو انوار نے 30اپریل 2015ء میں ایم کیو ایم پر جو الزام لگایا ‘22اگست 2016ء کو درست ثابت ہوا مگر تب بھی وہ معطل ہوا اب بھی معطل ہے ؎
ہے اہل دل کے لیے یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقیّد ہیں اور سگ آزاد
(فیض)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں