مہاراج شماکیجئے

نریندر مودی نے کیرالہ میں تقریر سروسز چیفس سے تفصیلی ملاقات کے بعد کی اور پاکستان کو للکارنے، طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کے بعد چیلنج یہ دیا کہ ''میدان جنگ میں نہیں اقتصادو معیشت کے شعبے میں بھارت سے مقابلہ کرلو۔ غربت، بے روزگاری، جہالت‘ کرپشن اوردہشت گردی ختم کرنے میں ہمارے مدمقابل آئو، جیت بھارت کی ہوگی‘‘۔
کیرالہ کی تقریر سے بظاہر دونوں ممالک کے مابین تصادم اور محاذ آرائی کی فضا کو ڈی فیوز کرنے کا تاثرملتا ہے اور جنگی جنون سے بھارتی معیشت بالخصوص غیر ملکی سرمایہ کاری پر مرتب ہونے والے منفی اثرات پر قابو پانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ مگر پنجابی محاورے کے مطابق یہ بنیے کی ''سجی‘‘ دکھا کر ''کھبی‘‘ مارنے کی مکارانہ چال ہوسکتی ہے اور جنگ کا جواز ڈھونڈنے کے لیے مہلت حاصل کرنے کی تدبیر بھی۔ افضل خان اور شیواجی کی داستان تاریخ کا حصہ ہے کہ کیسے سفارت کاری کے بعد طے پانے والی دو طرفہ ملاقات کو شیواجی نے اپنے مدمقابل کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے لیے استعمال کیا۔'' بغل میں چھری ‘منہ میں رام رام‘‘ کا محاورہ افضل خان اور شیوا جی کے بغل گیر ہونے کی یادگار ہے۔ 
پچھلے سال میاں نواز شریف کی سالگرہ اور مریم نواز کی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر نریندر مودی کی جاتی امرا یاترا اس سلسلے کی کڑی تھی۔ نریندر مودی نے ایک محفل میں خود بتایا کہ یاترا کا مقصد سول ملٹری تعلقات میں دراڑیں ڈالنا اور اپنی قوم کے سامنے میاں نواز شریف کی ساکھ خراب کرنا تھا۔کیرالہ کے جلسے میں نریندرمودی نے بھٹو سے لے کر نواز شریف تک مقبول اور منتخب قائدین کا نام لیے بغیر مذاق اُڑایا۔ نواز شریف کو تو بھارتی وزیراعظم نے دہشت گردوں کے سرپرست اور آقا کی لکھی ہوئی تقریر پڑھنے کا مجرم ٹھہرایا ۔یہ شائد حلف برداری کے موقع پر میاں صاحب کی بھارت یاترا اور جاتی امرا میں مودی کی غیر معمولی آئو بھگت کا بدلہ تھا جو توہین آمیز انداز میں اتارا گیا۔
جنگ کے لیے حالات سازگار ہیں نہ بھارت جنگ سے پاکستان کے علاوہ اپنے آپ کو تباہ کرنے کے سوا کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ اُڑی واقعہ کے بعد بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کار پریشان اور دلبرداشتہ ہیں، مودی کی انتخابی مہم میں اربوں روپے خرچ کرنے والے بھارتی تاجر، صنعتکار اور سرمایہ کار بھی حیران ہیں کہ شائننگ انڈیا تباہی و بربادی کے راستے پر کیوں گامزن ہے ۔پاکستان کو تنہا کرنے کے دعوئوں کی قلعی نیوکلیئر سپلائر گروپ میں شرکت کے لیے بھارتی کوششوں کی ناکامی اور پاک روس مشترکہ مشقوں کے علاوہ چین، ترکی اور او آئی سی کے دو ٹوک بیانات نے کھول دی ہے جبکہ امریکہ بھی بھارتی موقف کی تائید کرنے کے بجائے مذاکرات پر زور دے رہا ہے۔ یہی بات پاکستان کہہ رہا ہے۔ دوطرفہ مذاکرات ‘ اور کشمیری عوام پر ظلم و ستم کا خاتمہ مسئلہ کشمیر کا حل ۔
بھارت پاکستان میں نسلی، لسانی، مسلکی اور علاقائی فتنوں کو ہوا دے رہا ہے، دیتا رہے گا۔ فاٹا، کراچی اور بلوچستان میں اس نے بھاری سرمایہ کاری کی جو رائیگاں گئی‘ مگر اس نے ہمت نہیں ہاری حالانکہ اس کے گماشتے ہمت ہار چکے ہیں اور پسپائی کے سوا کوئی راستہ نظر نہیںآتا۔ اور تو اور ہر معاملے میں پاکستان کومطعون کرنے اور بھارت کی زبان بولنے والے دانشور بھی مہر بلب ہیں۔ چوری کھانے والے یہ مجنوں اس کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔ حکمران انہیں ڈھیل نہ دیں تو یہ اتنے جری نہیں کہ پاکستان میں بیٹھ کر بھارت کی نام نہاد ترقی، خوشحالی، دفاعی برتری اور سیکولرزم کے گیت گا سکیں۔
پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی لاف زنی کے سوا کچھ نہیں۔ پانی کی قلت پاکستان کے لیے نقصان دہ مگر پانی کی کثرت بھارت کے لیے مفید کیسے؟ بھارت کتنی دیرتک پاکستان کے حصے کا پانی روک سکتا ہے؟ ماہرین نے مودی کو یقینا بتایا ہوگا۔ کیا ضرورت سے زائد پانی سے وہ اپنے شہر و دیہات میں سیلاب لائے گا یا وولر ڈیم، بگلیہار ڈیم اور متنازع کشن گنگا ڈیم کی صلاحیت اس قدر بڑھا چکا ہے کہ ان میں پاکستان کے حصے کا لاکھوں کیوسک پانی سٹور کرے۔ پاکستان خود کو صحرا میں بدلنے دیگا؟ ورلڈ بنک خاموش رہے گا؟ اور عالمی برادری محض تماشائی؟یہ مودی کی ناپختہ سوچ ہے اور پاکستان کو اپنے حصے کا پانی حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام پر مجبور کرنے کی احمقانہ پالیسی۔ گجرات کے قصاب کونتائج وعواقب کا علم نہیں یا اس کے دماغ کا ناریل چٹخ چکا ہے کہ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
سرجیکل سٹرائیکس، اندرون پاکستان دہشت گردی اور پانی کی بندش‘ یہ تینوں آپشن کھلے ہیں مگر تینوں پاکستان کے علاوہ بھارت کے لیے بھی تباہ کن ہیں۔ پانی کی طویل عرصہ تک بندش تو مضحکہ خیز۔ مودی نے پاکستان کو غربت، بے روزگاری، جہالت کے خاتمے کا جو چیلنج دیا ہے وہ خطرناک ہے اور موجودہ حالات میں ہمارے لیے پریشان کن۔ پاکستان کی اشرافیہ کو یہاں کے ''باشعور‘‘ عوام تو اب تک سمجھ نہیںپائے مگر مودی جان گئے ہیں کہ یہ اپنے ملک سے ان سماجی اور معاشی برائیوں کو ختم کرنے کی خواہش مند ہے نہ اہل۔ اس سفاک اشرافیہ کے بارے میں امریکی جریدہ فوربس میگزین نے اپنی تازہ اشاعت میں لکھا ہے ''پاکستانی امراء کو اپنے شہروں کے بجائے دبئی، لندن اور نیویارک سے پیار ہے‘‘۔
پاکستان میں کئی سال تک خدمات انجام دینے والے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے ڈائریکٹر مارک اینڈرے نے بھی وقت رخصت کہا تھا: ''پاکستانیوں جیسے امرا دنیا میں نہیں ملیں گے۔ یہ پیسے پاکستان میں بناتے ہیں، پارٹی دینے کے لیے لندن کا انتخاب کرتے ہیں، خریداری دبئی سے کی جاتی ہے اور کاروبار دبئی، لندن، سپین اور نیویارک میں ہے‘‘۔ سنگدلی کا ایک مظہر تھر، چولستان اور دیگر کئی علاقوں میں بھوک، پیاس اور بیماریوں سے بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کے علاوہ جانوروں کی اموات اور ملیریا، تپدق اور پولیو جیسی بیماریوں کی موجودگی ہے جنہیں غریب افریقی ممالک بھی خیرباد کہہ رہے ہیں۔ بھارت پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے مگر ہم سوناکشی سہنا‘ دیپکا پڈکون اور رنبیر کپور کی فلمیں دیکھنے میں محو ہیں۔اپنے کاشتکاروں اور چھوٹے زمینداروں کو بھوکا مار کر سبزیاں، پھل اور گوشت بھارت سے درآمد کر رہے ہیں۔ پانی کی کمی ہے اور بھارت باقی ماندہ پانی روکنے کی سوچ رہا ہے۔ مگر ہمارے ہاں شوگر ملیں دھڑا دھڑ لگ رہی ہیں اور حکمران خاندان انہیں چلانے کے لیے بھارتی ہنرمندوںکا محتاج ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان سے چار ارب ڈالر بھارت منتقل ہوا ہے اور برآمدات میں کمی کا انکشاف وزیرتجارت کر چکے ہیں۔ چند شہروںکے نمائشی منصوبوں پر کھربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں مگر دیہی علاقوں میں غربت و افلاس، پسماندگی، جہالت، بے روزگاری اور امراض کا بسیرا ہے۔ سرائیکی وسیب میں بے روزگاری کے ساتھ ہیپاٹائٹس سی کا راج ہے اور احساس محرومی کا شکار نوجوان نسل دہشت گردوں کے علاوہ بھارت کی وظیفہ خوار این جی اوز کی طرف متوجہ ہو رہی ہے مگر کسی کو فکر ہے نہ ادراک۔ اس میدان میں ہم بھارت سے پہلے مقابلہ کرسکے ہیں نہ اب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کرپشن اور غریبی مٹائو مہم ہماری اشرافیہ کو پسند ہی نہیں۔ پسند ہوتی تو عمران خان یوں سولوفلائٹ پر مجبورنہ ہوتا۔ کرپشن اور دہشت گردی کا آپس میں تعلق ہے جسے اشرافیہ تسلیم نہیں کرتی مگر غربت کے ساتھ اس کے تعلق کا تو اشرافیہ کا کوئی سنگدل اور بے حیا رکن بھی انکار نہیں کرسکتا۔ باقی سارے میدانوںمیں ہم بھارت کا ڈٹ کرمقابلہ کرسکتے ہیں، کرتے رہے ہیں‘ جذبہ جہاد سے سرشار فوج جنگ لڑ سکتی ہے ‘پانی روکنے کی اجازت یہ نہیں دے گی اور اندرونی دہشت گردی کا مقابلہ بھی یہ دلیری سے کر رہی ہے۔ مگر کرپشن، غریبی، جہالت اور بے روزگاری ختم کرنا ہماری اشرافیہ کے بس میں نہیںکیونکہ اس کے گلشن کا سارا کاروبار ان سماجی و معاشی برائیوں کے بل بوتے پر چل رہا ہے۔
ہماری اشرافیہ اپنے پُرکھوں کی اس نصیحت پر عمل پیرا ہے کہ عام آدمی کا پیٹ بھر گیا، بچہ پڑھ گیا اور نوجوان کا روزگار لگ گیا تو وہ کسی جاگیردار اور وڈیرے کی مانے گا نہ سرمایہ دار اور تاجر کی سنے گا۔ سکول آباد ہوگئے تو یہ تمندار‘ چودھری اور خان اپنے جانورکہاں باندھیں گے اورنوجوان پڑھ کر برسرروزگار ہوگئے توان لٹیروں کو ووٹ کون دیگا۔ پرچی پر ٹھپہ کون لگائے گا۔ اس میدان میں مقابلہ ہمارے بس میں نہیںمہاراج شما کیجئے۔ آخر میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا ایک جملہ: ''کرکٹ ٹیم کی طرح ہندوستانی فوج نے بھی سکیورٹی خدشات کی بنا پر پاکستان جانے سے انکار کر دیا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں