پاکستان میں یہ اُمید تو کسی کو نہیں کہ ہمارے موجودہ حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کی طرح زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھ سکتے ہیں یا قیام پاکستان سے قبل متحدہ پنجاب کے وزیراعلیٰ خضرحیات خان ٹوانہ جیسی عزت نفس کا مظاہرہ کریں گے مگر یہ توقع بہرحال کی جا رہی تھی کہ پاناما لیکس کے بعد اپوزیشن کی اشک شوئی کے لیے کسی نہ قسم کی لولی لنگڑی تحقیقات کا ڈول ضرور ڈالیں گے تاکہ تحریک انصاف اور عمران خان کو ایک بار پھر سڑکوں پر نکل کر وزیراعظم کے خلاف ''غیر شریفانہ‘‘ زبان استعمال نہ کرنی پڑے۔ مگر ع
اے بسا آرزُو کہ خاک شدہ
احتجاجی تحریک چلی تو ابتدا میں عوامی جذبات و احساسات سے بے خبر ہمارے دیگر حکمرانوں کی طرح ایوب خان نے بھی لاٹھی گولی سے دبانے کی سعی کی۔ پھر اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر لا کر تحریک کو ٹھنڈا کرنا چاہا مگر بات بنی نہیں۔ بالآخر ایوب خان نے منصب صدارت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ کابینہ کا اجلاس ہوا تو چاپلوس وزیروں نے وہی دلائل دہرائے جو ہر دور میں دہرائے جاتے ہیں: ''آپ کو عوام نے پانچ سال کے لیے منتخب کیا ہے‘ ہر ضمنی انتخاب آپ کے امیدوار نے جیتا‘ مٹھی بھر اپوزیشن آپ کی کامیابیوں سے پریشان ہے‘ اُسے صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر کامیابیوں کا یہ سلسلہ چلتا رہا تو آپ اگلا الیکشن بھی بآسانی جیت لیں گے‘ وغیرہ وغیرہ‘‘ مگر ایوب خان کا دل موم نہ ہوا‘ پھر ایک وزیر نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ ریفرنڈم کرا لیں‘ لوگ ایک بار پھر آپ کے حق میں رائے دیں گے۔ ایوب خان نے یہ سُنا اور کہا: ''سڑکوں پر جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ ریفرنڈم نہیں‘‘۔ الطاف گوہر نے لکھا ہے کہ ایوب خان نے گھر میں اپنے پوتوں کو ایوب۔۔۔۔ ہائے ہائے کے نعرے لگاتے سُن کر یہ فیصلہ کیا۔
1946ء کے انتخابات کے بعد یونینسٹ پارٹی نے کانگریس سے مل کر پنجاب میں حکومت بنا لی جس کے خلاف مسلم لیگ نے تحریک سول نافرمانی کا اعلان کیا۔ لاہور کی مال روڈ پر خضر حیات مردہ باد کے نعرے گونج رہے تھے۔ وزیراعلیٰ کی والدہ کسی کام سے گاڑی پر سوار اسمبلی ہال کے سامنے آئی تو یہ نعرے سُن کر پریشان ہو گئی۔ ڈرائیور سے گاڑی واپس موڑنے کو کہا اور گھر آ کر با اختیار صاحبزادے کو طلب کیا۔ پوچھا، سیاست اور حکومت عزّت کے لیے کرتے ہو یا بے عزّتی کرانے کے لیے؟ جواب یہی تھا کہ عزّت کے لیے۔ ''تمہاری عزّت کا حال میں مال روڈ پر دیکھ آئی ہوں‘‘۔ خضر حیات نے ماں کی بات سنی‘ کسی توقف کے بغیر سٹڈی روم میں گئے‘ استعفیٰ لکھا اور قاصد کے ہاتھ گورنر ہائوس بھیج دیا ۔ یہ مگر گزرے دنوں کی باتیں ہیں جب سیاست لوگ عزت کمانے کے لیے کرتے تھے اور فوجی آمر بھی زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھتے تھے۔ اب حکمران لاکھوں افراد کے احتجاجی مجمع سے متاثر ہوتے ہیں نہ چور‘ ڈاکو‘ لٹیرے اور کرپٹ کے الفاظ سے بے مزہ۔ دولت و اقتدار اُن کا اوڑھنا بچھونا اور عزت و وقار کا پیمانہ ہے درباریوں کی قصیدہ خوانی، آب نشاط انگیز۔
عمران خان نے رائیونڈ کے پلاٹ اڈہ پر متاثر کن جلسہ کر کے میاں صاحب کے نورتنوں اور نادان دوستوں کے سارے اندازے غلط ثابت کر دیئے کہ تحریک انصاف کی تنظیمی حالت مخدوش ہے۔ لیڈروں کے باہمی اختلافات عروج پر ہیں‘ مقبولیت کم ہو رہی ہے اور بڑا مجمع اکٹھا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ رانا ثناء اللہ چالیس ہزار کا اعتراف کرنے کے بعد بیس ہزار پر کیوں آئے‘ باقی بیس ہزار افراد چند ساعتوں میں کہاں غائب ہو گئے‘ زمین نگل گئی یا آسمان نے اُچک لیا، سب جانتے ہیں۔ عمران خان نے ثابت کیا کہ پاناما لیکس کا ایشو نہ صرف زندہ ہے بلکہ اب بھی لوگ تحقیقات چاہتے ہیں۔ حکومت کے علاوہ فرینڈلی اپوزیشن کی اس ایشو کو سردخانے کی نذر کرنے کی کوششیں کامیاب ہوئیں نہ عمران خان کے خلاف سولو فلائٹ‘ شرفا کے گھر پر حملہ اور سرحدوں کی صورتحال میں بے وقت کی راگنی کا پروپیگنڈہ موثر ثابت ہوا۔ تدبیر کند بندہ، تقدیر زند خندہ! پوری اپوزیشن نے کرپشن کے خلاف جدوجہد اور رائیونڈ جلسے کا بائیکاٹ کر کے اپنے طور پر عمران خان اور تحریک انصاف کی مقبولیت اور انداز سیاست کو ایکسپوز کرنا چاہا۔ خیال یہی تھا کہ اپوزیشن کا مرغا اذان نہیں دے گا تو صبح نہیں ہو پائے گی مگر عوام کی بھرپور شرکت سے ثابت ہوا کہ اپوزیشن تحریک انصاف کا نام ہے اور میاں نوازشریف کا واحد مدمقابل عمران خان ہے جس کے کارکن موسم‘ اخراجات اور سفری صعوبتوں کی پروا کئے بغیر اس کی آواز پر لبیک کہتے اور پروانہ وار چلے آتے ہیں۔
سرحدی صورتحال نے جو رُخ اختیار کیا وہ عمران خان کے ساتھیوں کے لیے امتحان اور بعض لوگوں کا مشورہ التوا کے حق میں تھا۔ کوئی بھی دوسرا سیاستدان ہوتا تو ناکامی کے خوف سے جلسہ ملتوی کرتا اور دانیال عزیز‘ طلال چوہدری‘ رانا ثناء اللہ‘ محمد زبیر سے یہ طعنہ سنتا کہ لاہور اور پنجاب کے عوام کے مایوس کن رد عمل کی بنا پر وہ میدان سے بھاگ گیا۔ طعنہ زنی بھی بہت ہو رہی تھی کہ سرحدوں پر پاک‘ بھارت فوجیں آمنے سامنے صف آراء ہیں‘ بھارت نے پاکستان کو تنہا کرنے کی دھمکی دی اور عمران کو جلسے کی پڑی ہے۔ مگر کپتان نے نوازشریف اور نریندر مودی دونوں کو نشانے پر رکھ کر مخالفانہ پروپیگنڈے کو بے اثر کر دیا۔ 30 اکتوبر کی طرح اپنے کارکنوں کو نئے عزم‘ ولولے‘ حوصلے سے سرشار کر کے تحریک انصاف کے لیڈر نے اسلام آباد کی راہ دکھا دی جو حکومت کے لیے چشم کشا ہے۔ دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہٹ دھرمی اور ''میں نہ مانوں‘‘ کی روش ترک کر کے حکومت اپوزیشن کے طے کردہ ٹی او آرز کی روشنی میں جوڈیشل کمشن قائم کرے اور تحریک انصاف کے پرجوش کارکنوں کو اسلام آباد آنے سے روکے۔ باقی قومی ادارے بھی اپنا آزادانہ اور منصفانہ کردار ادا کریں اور معاملات سڑکوں کے بجائے آئین و قانون کے مطابق طے کرنے کی سعی کریں۔ مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والا کوئی دیانتدار اور باضمیر شخص بھی اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ پاناما لیکس کے انکشافات ہوشربا اور شفاف تحقیقات کے متقاضی ہیں۔ حکمران خاندان نے لندن کی جائیدادوں کے حوالے سے طوطا مینا کی جو کہانی ٹی وی چینلز اور دیگر فورمز پر سنائی وہ کسی کو ہضم نہیں ہوئی۔ ریمنڈ بیکر کی کتاب‘ بی بی سی کی ڈاکومنٹری‘ برطانوی اخبارات میں شریف خاندان کے بعض معتبر افراد کے بیانات سے جو تصویر بنتی ہے اُسے جھٹلانا آسان نہیں‘ البتہ اگر شفاف عدالتی تحقیقات میں کچھ ثابت نہیں ہوتا تو اس پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ فارسی میں کہتے ہیں۔۔۔ آں را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک۔ جس کا دامن صاف ہے اُسے احتساب سے ڈرنے کی ضرورت کیا ہے۔
سرحدوں کے علاوہ عالمی سطح پر بھارت کی پیدا کردہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ حکمران ذاتی مفادات‘ سیاسی مصلحتوں اور خاندانی وکاروباری معاملات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کا سوچیں۔ 2014ء میں دھرنا ثمربار نہ ہوا تو اس کی کچھ وجوہات تھیں اور تحریک انصاف کی حکمت عملی کے بعض نقائص۔ ہر بار قسمت مہربان ہوتی ہے نہ اپوزیشن کے علاوہ بعض اداروں کی قیادت شریف خاندان کی پشتی بان۔ کرپشن کا خاتمہ اس وقت قومی ترجیح ہے اور ایسے حکمران یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتے جو پاناما لیکس کی وجہ سے الزامات کی زد میں ہوں۔ نریندر مودی کی جارحانہ فوجی‘ سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کا مقابلہ بھی غیر متنازعہ قیادت کر سکتی ہے جسے ہر شعبہ زندگی کا اعتماد حاصل ہو۔ سی پی این ای کی تقریب میں سپیکر سردار ایاز صادق نے بتایا کہ ''اگر سی پیک پر سیاسی قیادت اور صوبوں کا اتفاق نہ رہا تو یہ منصوبہ پیک ہو سکتا ہے کہ چینی قیادت پریشان ہے‘‘۔ عمران خان نے رائیونڈ اجتماع سے نئی توانائی حاصل کی ہے‘ اس کا اعتماد دوران تقریر جھلک رہا تھا اور تحریک انصاف کی حکمت عملی کو غیر جانبدار حلقے کامیاب قرار دے رہے ہیں۔ ساتھ دینے والوں کا پچھتاوا بیانات سے عیاں ہے اور محاذ آرائی کے منفی نتائج نوشتہ دیوار۔ پرویز خٹک کی تقریر اُن لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ خیبر پختونخوا حکومت برقرار رکھنے کے لیے خان اور اس کے ساتھی ہر قربانی دے سکتے ہیں‘ حتیٰ کہ اپنے موقف کی قربانی بھی۔ محرم الحرام کے بعد سیاسی حالات بگڑے تو ذمہ دار صرف کپتان نہیں پاناما لیکس کو چھ ماہ تک لٹکانے اور تحقیقات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے ہوں گے۔ ایوب خان اور خضر حیات ٹوانہ ہوتے تو رائیونڈ اجتماع کی تقریریں سُن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے اور گھر کی راہ لیتے۔ مگر یہ گئے دنوں کی باتیں ہیں۔ اب سیاست عزت کے لیے نہیں مفادات کے لیے ہوتی ہے۔