جمعرات کے روزپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تماشہ لگا،سپیکر سردار ایاز صادق کو اجلاس ملتوی کرنے کی دھمکی دے کر شورشرابہ بند کرانا پڑا اور قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بار بار تحریک انصاف کے بائیکاٹ کا حوالہ دے کر حکومتی بنچوں کو ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کی۔ یہ دیکھ کر عمران خان کی طرف سے بائیکاٹ کا فیصلہ درست نظر آیا۔ کوئی مانے نہ مانے‘ مشترکہ اجلاس نے کل جماعتی کانفرنس کے ذریعے جنم لینے والے قومی اتحاد و اتفاق کے منظر کودھندلا دیا ہے ۔
اعتزاز احسن پر خالصتان تحریک میں پیش پیش، مزاحمت کاروں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کرنے اور جنرل (ر) پرویز مشرف سے ایل پی جی کا کوٹہ لینے کا الزام لگا کر ایک محب وطن اور جمہوریت پسند شخص کی امانت و دیانت اور حب الوطنی مشکوک ٹھہرانے والوں کے لیے عمران خان پر قومی اتحاد پارہ پارہ کرنے کی پھبتی کسنا مشکل ہے، نہ اسے کشمیری عوام سے بے وفائی کا مرتکب قرار دینا عجیب۔ سیاسی مخالفین کی کردار کشی اور حلیفوں پر نوازشات کا کلچر یہاں ہمیشہ مقبول رہا۔ اپنے ذاتی اور سیاسی مخالفین کو دشمن کا ایجنٹ اور قومی مفادات سے روگردانی کا مجرم قرار دینے میں ہمارے حکمران اور سیاستدان کبھی جھجکتے نہیں؛ البتہ حقیقی دشمنوں کے حوالے سے وہ خاصے فراخدل واقع ہوئے ہیں۔ اعتزاز احسن پربھارت کو سکھ حریت پسندوں کی فہرستیں فراہم کرنے کا محض الزام ہے مگر بھارت کا فرستادہ کلبھوشن یادیو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود ابھی تک حکمرانوں کی چاند ماری کا ہدف نہیں، حالانکہ اعتزاز احسن نے درست کہا کہ اگر ایسا ہی کوئی شخص بھارت کے ہاتھ لگتا تو نریندر مودی اسے پنجرے میں بند کرکے امریکہ، روس، بیجنگ، پیرس ، بون اور لندن لے جاتے، اس کی شکل دکھاکر وہاں کے حکمرانوں کو پاکستان کی دخل اندازی کا ثبوت پیش کرتے اور اقوام متحدہ سے پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کا مطالبہ ہوتا مگر پارلیمنٹ میں یہ ایشو کبھی زیر بحث نہیں آیا۔
پاکستان کی سلامتی کو سنجیدہ خطرات درپیش ہیں۔ نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت بھارت کو نہ مل سکی تو ہر محب وطن پاکستانی نے اسے حکومت کی سفارتی کدو کاوش کا نتیجہ قرار دیا۔ روسی فوجی دستے کی مشقوں کے لیے پاکستان آمد سے بھی یہی تاثر ابھرا مگر گزشتہ روز ایک اخباری رپورٹ پڑھ کر پتہ چلا کہ یہ ہماری خوش فہمی ہے۔ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے انکشاف کیا کہ دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے اوراگر ہم نے امریکہ اور بھارت کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو یہ سفارتی تنہائی ہمیں شدید مشکلات سے دوچار کردے گی۔ خفیہ اجلاس کی رپورٹ اس وقت منظر عام پر آئی جب واشنگٹن کے علاوہ عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی بھارت اور مارشل آئی لینڈز کی درخواستیں مسترد کیں۔ ایک زمانے میں اعلیٰ سطحی اجلاسوں کی کارروائی اس حد تک خفیہ رکھنے کا رواج تھا کہ شامل فرد کی شریک حیات کو بھی بھنک نہ پڑتی۔ مگر اب قومی سلامتی کے بارے میں خفیہ اجلاس کے حوالے سے جس میں معدودے چند اعلیٰ سول و فوجی عہدیدار شریک تھے، اخبار یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سیکرٹری خارجہ کی بریفنگ کے بعد وزیراعلیٰ نے آئی ایس آئی چیف کو بتایا کہ امریکہ اور بھارت کو مطلوب جہادی لیڈروں اور کالعدم جہادی تنظیموں کے خلاف سول حکومت جب کارروائی کا ارادہ کرتی ہے تو کوئی نہ کوئی بندئہ خاکی آڑے آتا ہے اور سارا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب اوروزیر اعظم ہائوس نے اخباری رپورٹ کی تردید کر دی ہے مگر اخبار اور Cyril Almaidaنے یہ سٹوری کن معلومات اور کس کی شہ پر لکھی؟ یہ جاننا ضروری ہے۔ خبر اب شائع ہوئی مگر ایک اور اجلاس کے حوالے سے ایسی باتیں میں ایک معتبر شخص سے چھ ماہ قبل سن چکا ہوں۔
یہ سٹوری سول ملٹری تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی تدبیر ہے یا امریکہ اور بھارت کی قیادت کو یہ باور کرانے کی کوشش کہ پاکستان کی سول قیادت حقانی نیٹ ورک کو ٹھکانے لگانا چاہتی ہے اور حافظ سعید و مولانا مسعود اظہر کو بھارت کے حوالے کرنے پر آمادہ ہے، مگر یہ نگوڑے فوجی قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالتے ہیںاور جب بھی کسی اجلاس میںیہ مسئلہ اٹھایا جاتاہے تو یہ کہنے لگتے ہیںکہ پہلے ہم پاکستان کے دشمنوں سے نمٹ لیں۔ ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی، کراچی کے ٹارگٹ کلرز، بلوچستان کے علیحدگی پسندوں اور بھارت کے تربیت یافتہ ''را‘‘ کے ایجنٹوں کا قلع قمع کرلیں پھر شوق سے سول حکومت ان گروہوںکو بھی امریکہ و بھارت کی خواہش کے مطابق کیفرکردار تک پہنچائے جو پاکستان کے کسی علاقے میں دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری میں ملوث ہیں نہ ریاست کے خلاف برسرپیکار۔
پاکستان اور امریکہ کے مابین چپقلش کا سبب صرف حقانی نیٹ ورک نہیں بھارت نے اپنی بندوق امریکہ کے کندھے پر رکھ دی ہے اور را طوطے کی طرح امریکہ بھارتی آموختہ دہرا رہا ہے۔ امریکہ اور بھارت کی خواہش کیا ہے؟ پاکستان آپریشن ضرب عضب کے ذریعے جن گروہوں کو نشانہ بنا رہا ہے وہ ہمارے ان دونوںمہربانوں میں سے کسی ایک یا بیک وقت دونوں کے چہیتے ہیں اور گریٹ گیم کا حصہ۔ اگر یہ غیر ملکی ایجنٹ فوج اور آئی ایس آئی کے ہاتھوں ملیامیٹ ہوگئے تو پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ رہے گی نہ بلوچستان اور فاٹا کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش کامیاب ہوگی اور نہ کراچی دوبارہ کبھی بند ہوگا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ پاکستان میں جاری شورش کے تمام فریق امریکہ، یورپ اور بھارت کے چہیتے ہیں اور امریکہ و بھارت جنہیں اپنے دشمنوں کی صف میں سرفہرست رکھتا ہے اور اپنی ناکامی کے بعد پاکستان کے ذریعے ختم کرنے کا خواہش مند ہے‘ وہ پاکستان کے خلاف کسی سازش، تخریب کاری اور ریشہ دوانی کا حصہ ہیں، نہ ریاستی اداروں اور کشمیری عوام کو ان سے شکایت ہے البتہ امریکہ و بھارت کے علاوہ پاکستان میں ان کے گماشتوں کی یہ چڑ بن چکے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین ان دنوں پاکستان کے خلاف سازشوں اور دہشت گردوں کی تربیت کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔یہ پاکستان کے دشمنوں کی پناہ گاہ ہے مگر ہم نے اسے پچاس کروڑ ڈالر کی امداد دی اور میاں نواز شریف نے اس کے دشمنوں کو پاکستان کا دشمن قراردیا پھربھی افغانستان خوش نہیں۔ وہ بھارت کی ہاں میںہاں ملا رہا ہے۔ امریکی اور بھارتی دبائو قبول کرکے اگر ہمارے قومی ادارے آپریشن ضرب عضب کی بساط لپیٹ کر ‘کراچی اور بلوچستان کو اپنے حال پر چھوڑ کر‘ حقانی نیٹ ورک، جماعت الدعوۃ اور جیش محمد کے خلاف کارروائی کریں‘ حافظ سعید اور مسعود اظہر بھارت کے حوالے کر دیئے جائیں، جموں و کشمیر میں عوامی جدوجہد کی پشتی بانی چھوڑ دیں تو اس امر کی ضمانت کون دے گا کہ ہماری سفارتی تنہائی دور ہو جائے گی اور بھارت بھی فاٹا سے بلوچستان اور کراچی تک پھیلے اپنے گماشتوں کو واپس بلا کر قیام امن میں پاکستان کی مدد کرے گا؟ جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے راجیو گاندھی کی فرمائش پوری کی تو جواباً کراچی میں بدامنی کے سوا کیا ملا؟ محترمہ نے راجیو کی وعدہ خلافی کا گِلہ قومی اسمبلی میں کیا۔
سفارتی تنہائی کا سبب ہماری ناکام خارجہ پالیسی، نااہل سفارتی ٹیم اور ناقص حکمت عملی ہے۔ کیا وزیراعظم نے عسکری دبائو پر وزیرخارجہ مقرر نہیں کیا ؟۔ ہر شاخ پر اُلّو بٹھانے کی روش کا ذمہ دار کون ہے؟ پنجاب اور کراچی میں بھارتی ایجنٹوں کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ کون ہے؟ چودھری نثار کو شکایت کس سے ہے ؟نائن زیرو کے قرب و جوار میں گولہ بارود ڈمپ کرنے والوں سے تعرض کون نہیں کرنا چاہتا؟ پاکستانی برآمدات میں اربوں ڈالر کی کمی کا سبب کیا ہے‘ پاکستانی سفارت خانوں میں تعینات کمرشل اتاشی کیا کر رہے ہیں اور ان کا تقرّر میرٹ پر ہوا یا سیاسی پسند ناپسند پر؟ان سوالات کے جواب پر پاکستان کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے۔ نریندر مودی کی جارحانہ سفارتی مہم کے جواب میںحکمرانوں نے کیا تگ و دو کی؟ توانائی کے منصوبوں کے سوا کس شعبے پر توجہ دی؟۔ کبھی پارلیمنٹ، گاہے کشمیر کی صورتحال اور عموماً عسکری اداروں کی آڑ لے کر اپنی ناقص کارگزاری اور نااہل ٹیم کو چھپانا دانشمندی نہیں۔ اپنوں سے بیگانگی اور بیگانوں کو خوش کرنے کے لیے قومی عزت اوروقارکو دائو پر لگانے کی پالیسی کبھی کامیاب ہوئی ہے نہ ہوسکتی ہے ؎
غیروں پہ کرم، اپنوں پہ ستم
اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر
کیا پارلیمنٹ کا اجلاس قومی یکجہتی کے اظہار کے لیے تھا یا ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لیے؟ اور قومی سلامتی کے بارے میں اجلاس سول ملٹری یگانگت میں اضافے کے لیے ہوتے ہیں یا جگ ہنسائی اور امریکہ و بھارت کی فرمائش پوری کرنے کے لیے؟؟ عمران خان کو یہ کہنے سے کون روک سکتا ہے کہ اس کا فیصلہ درست تھا۔