برصغیر کے دبنگ صحافی دیوان سنگھ مفتون کی کتاب''ناقابل فراموش‘‘ دلچسپ اور سبق آموز تاریخی واقعات کا مجموعہ ہے ۔شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کی سادہ طبیعت اور ہر ایک کی بات مان لینے کی عادت کا ذکر کرتے ہوئے دیوان سنگھ مفتون نے لکھا:
''1947ء میں امن و امان کی صورتحال خراب تھی۔ ایک دوست جوش صاحب کے پاس آئے اورفرمائش کی کہ آپ اپنے مداح چیف کمشنر مسٹر شنکر پرشاد سے کہہ کر مجھے پستول کا لائسنس دلا دیں۔ جوش صاحب دوست کو لے کر شنکرپرشاد سے ملے۔ دوست کے تعارف اوررسمی کلمات کے بعد شنکر پرشاد نے پوچھا:''فرمائیے کیا ارشاد ہے‘‘۔جوش صاحب: ''یہ میرے دوست ہیں‘ ان کو پستول کالائسنس درکار ہے‘‘۔ شنکر پرشاد: ''اب تو فسادات ختم ہو چکے‘ ان کو پستول رکھنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ جوش صاحب: ''ہاں پستول کی ضرورت تو نہیں‘‘۔دوست: ''جوش صاحب! آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں‘ میں رات کو بارہ بجے گھر آتا ہوں ‘راستہ خطرناک ہے ‘مجھے پستول کی ضرورت ہے‘‘۔جوش صاحب: ''ہاں پستول کی ضرورت تو ہے‘‘۔ شنکر پرشاد: ''رات کو تمام سڑکوں پر پولیس کا پہرہ ہوتا ہے۔ کیا ضرورت ہے؟‘‘جوش صاحب:''پھر کیا ضرورت ہے؟‘‘ دوست: ''جوش صاحب مجھے پستول کی ضرورت ہے کیونکہ مجھے رات کو آنا پڑتا ہے اور میں آپ کو اس غرض کے لیے یہاں لایا ہوں‘‘۔ جوش صاحب: ''آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ‘پستول کی ضرورت تو ہے‘‘۔
پاکستان کے حکمرانوں ‘وزارت خارجہ کے بزرجمہروں اور مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے لیے باہر جانے والے ارکان اسمبلی کے بارے میں یہ کہنا تو زیادتی ہے کہ یہ سادہ لوح اور کانوں کے کچے ہیں اپنے ذاتی‘ خاندانی اور سیاسی مفادات کے باب میں یہ حد درجہ کایاں اورگانٹھ کے پکے ہیں مگر جہاں قومی مفادات کا معاملہ ہو یہ جوش ملیح آبادی بن جاتے ہیں۔ خارجہ امور کی پارلیمانی کمیٹی میں ایک رکن نے حافظ سعید کے حوالے سے جو باتیں کیں وہ نئی نہیں۔ حافظ سعید اور مسعود اظہر کے علاوہ ان کی تنظیموں کے بارے میں بھارت کی سوچ کیا ہے؟ اور اس کی جارحانہ سفارت کاری کے سبب وزیر اعظم کے پیام رساں ارکان پارلیمنٹ کو مختلف دارالحکومتوں میں جا کر کس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا؟ اس پر بحث ہونی چاہیے ۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کی سفارتی مہم کا توڑ کرنے کے لیے ہماری وزارت خارجہ اور حکومت نے اب تک کیا کیا؟ تین ماہ قبل مشیر خارجہ سرتاج عزیز صاحب نے طارق فاطمی ‘ اعزاز چودھری اور پرویز رشید کی موجودگی میں ملک بھر کے سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان پر سفارتی تنہائی کا الزام غلط ہے اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی بات زیادہ توجہ اور ہمدردی سے سنی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے پٹھانکوٹ کا واقعہ ہو چکا تھا اور برہان مظفر وانی شہید کی شہادت کے سبب مسئلہ کشمیر میں شدت نہیں آئی تھی۔
عیدالفطر کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا جو نیا ریکارڈ قائم کیا‘ سینکڑوں نوجوان شہید اور پیلٹ گن سے زخمی ہوئے‘ بچوں اور خواتین کو فوجی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اورمسلسل کرفیو سے انسانی المیہ رونما ہوا ۔ توقع یہ تھی کہ پاکستان‘ بھارت کے خلاف مزید سفارتی پیش قدمی کی پوزیشن میں ہے اورکلبھوشن یادیو نیٹ ورک کا انکشاف بھارت کے لیے عالمی سطح پر رسوائی کا باعث بن رہا ہے مگر قومی سلامتی کے حوالے سے ایک خصوصی اجلاس میں سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری اور امور خارجہ کمیٹی کی میٹنگ میں رکن اسمبلی کی گفتگو سے پتا چلا کہ پاکستان بدترین سفارتی تنہائی کا شکار ہے اوراس حوالے سے نریندر مودی کی بھاگ دوڑ رنگ لا چکی ہے جبکہ ہماری کوششیں جنگ کے بعد یاد آنے والا مُکا ہے جسے اپنی ناک پر مارنا چاہیے۔ بلاشبہ حافظ سعید انڈے نہیں دیتے کہ ہم انہیں پال رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے انڈے دینے والی مرغیاں کلبھوشن یادیو‘ الطاف حسین‘محمود اچکزئی اور ان کے چیلے چانٹے ہیں جن کا منفی انداز میں ذکر کرتے ہوئے حکومتی بنچوں کے ارکان شرماتے ہیں اور بلاول بھٹو انکل الطاف حسین کو یہ یقین دہانی کراتے ہیں کہ انہوں نے کبھی انہیں غدار نہیں کہا۔گویا سندھ اسمبلی کی قرارداد محض ڈرامہ تھی۔
ارکان پارلیمنٹ کو اہم دارالحکومتوں میں بھیج کر انہیں ممکنہ اعتراضات اور ان کے جوابات سے آگاہ کرنا وزارت خارجہ کی ذمہ داری تھی۔ ارکان اسمبلی کی اکثریت الا ماشاء اللہ مطالعہ کی عادی ہے نہ اہم قومی اموران کی دلچسپی کا موضوع ہیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرمناک حد تک کم حاضری سے اندازہ ہو گیا کہ انہیں کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے کتنا لگائو ہے۔ یہ ویسے بھی گنگا گئے تو گنگا رام ‘ جمنا گئے تو جمنا داس مزاج کے لوگ ہیں۔1985ء سے اب تک منتخب ہونے والے سیاستدانوں نے جس تیزی سے وفاداریاں بدلیں وہ ریکارڈ ہے ۔جنرل ضیاء الحق ‘ بے نظیر بھٹو‘ میاں نواز شریف‘ پرویز مشرف اور چودھری برادران سے وفاداری نبھاناان کا کمال ہے۔ایسے لوگوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ واشنگٹن‘ پیرس‘ لندن میں علم‘ دلیل اور منطق سے اپنی بات منوائیں گے اور مد مقابل کے اعتراضات سے متاثر نہیں ہوں گے‘بھیجنے والوں کی زیادتی تھی مگر بھیجنے والے وزارت خارجہ کے عہدیدار خود کون سا کم ہیں ؟پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اور سفیر کے طور پر کام کرنے والے کتنے لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور دیگر ممالک میں رہائش پذیر ہیں ؟جن کی اپنی دلچسپی پاکستان سے ملازمت کی حد تک ہو وہ پاکستان کا مقدمہ کتنی جرات‘ استدلال اور جذبے کے ساتھ لڑ سکتے ہیں ۔
ٹیکنو کریٹس ہمارے ہاں ویسے بھی اپنی رائے‘ موقف اور وفاداری بدلنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ بھٹو اور ضیاء الحق کے علاوہ محترمہ بے نظیر بھٹو اورمیاں نواز شریف کی ایک دوسرے سے متضاد و متصادم شخصیات اورپالیسیوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے جس لچکیلی کمر اور فدویانہ مزاج کی ضرورت ہے اس سے یہ جنس مالا مال ہے ۔ان سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ بھارت کی سفارتی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ بیرون ملک وفود پاکستان کا موقف منوانے کے لیے بھیجے گئے تھے اور پاکستانی سفیروں کی بنیادی ذمہ داری بھی یہی ہے مگر یوں محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ و بھارت کی شرائط مانے بغیر ہم سفارتی تنہائی سے نکل سکتے ہیں نہ عالمی برادری کے کندھے سے کندھا ملا کرکھڑا ہونے کے قابل ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ ان دونوں حافظ سعید اور مسعود اظہر کی گرفتاری‘ ان کے پیروکاروں کی سرکوبی اور کشمیر و افغانستان میں اپنی آزادی کے لیے برسر پیکار عناصر سے کامل بیگانگی کے بعد بھی ہمارے دونوں مہربان راضی نہ ہوئے‘ آئی ایس آئی اور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بھی ایسی ہی شرائط سامنے آئیں اور بلیک میلنگ جاری رہی تو ہم پھر کیا کریں گے؟ بھارت کا مطالبہ تو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو ٹھپ کرنے کا بھی ہے‘ کیا ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے اور روس و چین سے ہمارے بڑھتے ہوئے سیاسی‘ سفارتی اوردفاعی تعلقات امریکہ کو کھٹکتے ہیں‘ کیا ہم دستبردار ہوجائیں ؟کیا ہم اس کے بعد عزت و وقار سے اپنی زندگی گزار سکتے ہیں یا ہمیں عراق اور لیبیا کے انجام سے دوچار کرنے کے لیے یہ ساری تگ و دو ہو رہی ہے۔
قرآن مجید میں مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے عزائم کے بارے میں یوں آگاہ کیا گیا : ''یہود ونصاریٰ آپ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کی اتباع پر تیار نہ ہوں‘‘۔ امریکہ و بھارت کا تابع مہمل بنے بغیر ہم انہیں راضی کرسکتے ہیں نہ ان کے اتحادیوں کو ۔البتہ اپنے عدل و انصاف پر مبنی موقف اور قومی امنگوں و مفادات سے ہم آہنگ پالیسیوں پر کاربند رہ کر ان ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے جو ہمارے خلاف مشرق و مغرب میں جاری ہیں۔ اگر ہمارے حکمران اس مخمصے کا شکار رہے کہ کس کی مانوں کس کی نہ مانوں اور بیرونی دارالحکومتوں میں کچھ‘ اندرون اجلاسوں میں کچھ اور قوم کے سامنے کچھ اور کہنے کی روش پر قائم رہے تو اس دلدل سے نکل نہیں پائیں گے جس میں پرویز مشرف نے نیمے دروں‘ نیمے بروں پالیسی اپنا کر ملک و قوم پھنسا دیا۔ حافظ سعید اور مسعود اظہر کو سیاست کے قومی دھارے اور رفاہی و تعلیمی شعبے میں لا کر دیکھ لیں امریکہ و بھارت کا دبائو اورپروپیگنڈا ختم نہ ہو گا کیونکہ یہ محض بہانہ ‘ فوج‘ آئی ایس آئی اور ایٹمی پروگرام اصل نشانہ ہے۔
میں دست شناسی‘ علم نجوم اور زائچے وغیرہ پر یقین نہیں رکھتا کہ یہ فنی علوم ہیں اور غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے مگر ایک دوست نے آسٹرلوجسٹ فضل کریم کی پیش گوئی ارسال کی ہے کہ اسلامی سال کا سورج کشمیر اور جنرل راحیل شریف کے لیے خوش بختی کی علامت ہے جبکہ بھارت چھ حصوں میں تقسیم اور دلبرداشتہ ہو کر نریندرمودی خودکشی پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔