سنیٹر پرویز رشید کی قربانی سے سول ملٹری تعلقات ہموار ہو گئے؟ حکومت قومی سلامتی کے ذمہ داروں کا غصہ ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہو گئی؟ یہ سوال ہر شہری کی زبان پر ہیں اور رائے عامہ تقسیم ہے۔ چودھری نثار علی خان نے پرویز رشید سے وزارت اطلاعات واپس لینے کا جو جواز پیش کیا وہ جواز کم‘ چارج شیٹ زیادہ ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ وزارت اطلاعات‘ حکومت اور میڈیا کے مابین بہتر تعلقات اور حکومتی کارگزاری کی تشہیر کے علاوہ خبریں رکوانے کا کام کرتی ہے۔ وزیر اطلاعات سے سیرل المیڈا نے ملاقات کی‘ تبادلہ خیال ہوا مگر یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ صحافی کے پاس خطرناک سٹوری ہے‘ جو نہ صرف سول ملٹری تعلقات میں دراڑیں ڈال سکتی ہے بلکہ دشمن کے بیانیے کی تصدیق اور پاک فوج و آئی ایس آئی کو عالمی سطح پر کٹہرے میں کھڑا کرنے کے مترادف بھی ہے‘ اسے روکنا تو درکنار‘ سنجیدگی سے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
پرویز رشید سے اختلاف اپنی جگہ مگر وہ ایک مستعد اور متحرک آدمی ہے۔ اگر حکومت یا شریف خاندان کے خلاف کسی سٹوری کی اُسے ادھر اُدھر سے سن گن ملتی تو وہ رکوانے کے لیے جان لڑا دیتا۔ سیرل المیڈا کو روکنے کے بجائے اُس نے ہومیوپیتھک تردید پر اکتفا کیا‘ تو اس سے دو ہی نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ اُس نے سٹوری کو درست جانا‘ یا پھر سٹوری فیڈ اور پلانٹ کرنے والوںکے بارے میں اسے یقین تھا کہ میری تگ و دو سے یہ رکنے والی نہیں‘ الٹا بھاگ دوڑ میرے گلے پڑ سکتی ہے۔ سیرل المیڈا سے وہ یہ سوال کر ہی سکتا تھا کہ رپورٹر نہ ہونے کے باوجود آپ ایک بے بنیاد‘ ملک کے لیے نقصان دہ اور سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے سمّ قاتل سٹوری فائل کرنے پر کیوں تلے ہیں اور اس سے ملک یا حکومت اور فوج تو چھوڑیں‘ اخبار اور آپ کی اپنی نیک نامی میں کتنا اضافہ ہو گا؟
موجودہ حکمرانوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ قومی اداروں کو جُل دینے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ حکومت کے حامی توقع یہی کر رہے ہیں کہ جس طرح مشاہداللہ خان سے وزارت واپس لینے سے معاملہ رفع دفع ہو گیا تھا‘ اب پرویز رشید کی قربانی سے یہ بحران بھی ٹل جائے گا اور میاں نواز شریف مرضی کا آرمی چیف نامزد کرنے کے بعد اگلا ڈیڑھ سال چین کی بنسری بجائیں گے۔ سٹوری شائع ہونے کے بعد تین ہفتے انہوں نے نکال لیے‘ مزید تین ہفتے اعلیٰ سطحی کمیٹی کو تحقیقات کی بھول بھلیّوں میں گھما پھرا کر گزار لیے جائیںگے۔ مگر میرا خیال ہے کہ مقابلہ اتنا سادہ ہے‘ نہ فوج بحیثیت ادارہ قومی سلامتی کے منافی اس حرکت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے پر آمادہ‘ کیونکہ فوج اور آئی ایس آئی کے لیے اب قومی سلامتی سے جڑے معاملات ان لوگوں سے شیئر کرنا مشکل ہو گیا ہے‘ جو پیٹ کے ہلکے اور ذاتی و سیاسی مفاد کو قومی مفاد و سلامتی پر ترجیح دینے کے عادی ہیں۔ اس ضمن میں چودھری نثار علی خاں کی فائر فائٹنگ بھی شاید کام نہ آئے‘ کیونکہ انہوں نے پرویز رشید کی صفائی پیش کرکے اپنی ساکھ مجروح کی ہے۔
اتوار کے روز انگریزی اخبار میں سیرل کا کالم پڑھ کر کوئی بھی منصف مزاج شخص نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک غیر جانبدار اور پیشہ ور صحافی کی تحریر ہے۔ عمران خان کو غُرّانے والا سیاستدان اور حکومت کے غیر سیاسی غیر جمہوری‘ غیر قانونی طرز عمل کے علاوہ کرپشن بچائو اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے والے کارکنوں کو ''احتجاجی کُتّے‘‘ قرار دے کر صحافی اور اخبار‘ دونوں نے اپنی پیشہ ورانہ ساکھ پر بٹہ لگایا ہے اور فوج پر موجودہ بحران کی پشت پناہی کا الزام لگا کر سیرل المیڈا کی سٹوری کے پس پردہ مقاصد اور کرداروں کی نشاندہی کی ہے۔ اے پی این ایس اور سی پی این ای کے جن قابل احترام رہنمائوں نے آزادیء صحافت کے نام پر سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل سے نکلوایا‘ اُسے امریکہ جانے کا موقع فراہم کیا‘ انہیں یہ کالم پڑھ کر سوچنا ضرور چاہیے کہ کوئلوں کی دلالی سے انہوں نے کیا کمایا۔
سیرل المیڈا جیسے مداحوں اور طلال چودھری‘ دانیال عزیز ایسے مشیروں نے حکومت کو موجودہ صورتحال سے دوچار کیا ہے۔ عمران خان کی کال پر 2 نومبر کو کتنے لوگ جمع ہوتے اور کیا کرتے؟ یہ تو ظن و تخمین کی بات ہے مگر 27 اکتوبر سے راولپنڈی‘ اسلام آباد اور پنجاب کے کئی اضلاع کو پولیس سٹیٹ میں تبدیل کرکے حکومت نے خود ہی عمران خان کا کام آسان کر دیا۔ عمران خان عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ قومی سلامتی کا معاملہ ہو‘ بھارتی اہلکار کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کا ایشو یا بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی اور بے گناہ شہریوں کی شہادت کا سلسلہ‘ حکومت خواب خرگوش کے مزے لیتی رہتی ہے‘ مگر پاناما لیکس پر جواب دہی کا مرحلہ آئے اور اپوزیشن پُرامن احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے‘ تو اس کی پھرتیاں دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ ریاست کے سارے وسائل‘ ادارے اور کارندے حکمران خاندان کے تحفظ کے لیے دستیاب ہوتے ہیں اور جمہوری و سیاسی روایات پامال ہوتی رہتی ہیں۔ موٹر وے اور جی ٹی روڈ کی بندش‘ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے قافلے پر شیلنگ‘ بنی گالہ کے ارد گرد آہنی حصار اور اسلام آباد میں کنٹینروں کی بہار دیکھ کر وہی شخص موجودہ جمہوریت اور اس کی دلدادہ حکومت کے گن گا سکتا ہے‘ جسے قدرت نے ڈھٹائی کی دولت سے مالامال کیا ہو۔ ایک ہفتے میں جمہوریت کے منہ سے نقاب اُتر گیا‘ فرینڈلی اپوزیشن کی ملی بھگت واشگاف ہوئی اور سیاسی مخالفین سے سیاسی انداز میں نمٹنے کے دعوے اپنی موت آپ مر گئے۔ حکومت تحریکِ انصاف کا مقابلہ سرکاری وسائل‘ انتظامی اختیارات اور پولیس و ایف سی کے ساتھ کرنے کی جس روش پر گامزن ہے‘ وہ ماضی کا شرمناک ورثہ ہے۔
حکومت نے عمران خان کے دھرنے‘ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور ڈان لیکس پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کو ایک دوسرے سے جڑے معاملات ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا‘ پروپیگنڈا مہم چلائی اور اپنی معصومیت و مظلومیت کا تاثر اجاگر کیا‘ مگر بات بنی نہیں۔ عمران خان کی احتجاجی تحریک کو لاٹھی‘ آنسو گیس اور کنٹینروں سے دبانے کی حکمت عملی کس حد تک مفید ہے؟ چند روز میں پتہ چل جائے گا‘ مگر سول بالادستی پر اصرار‘ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ڈٹے رہنے کا تاثر پرویز رشید کی برطرفی نے برباد کر دیا۔ ڈان لیکس میں پرویز رشید کا کردار ثانوی تھا‘ شاہ کے وفادار کو سزا مگر آغاز ہی میں مل گئی‘ جس سے میاں صاحب کی دلیری‘ ثابت قدمی اور سول بالادستی پر اصرار کی قلعی کھل گئی۔
پرویز رشید سے زیادتی ہوئی‘ اسے ناکردہ گناہ کی سزا ملی‘ مگر پرویز رشید سے ہمدردی کی آڑ میں ہمارے جو صحافی دوست سیرل المیڈا کی سٹوری کو درست‘ بے ضرر اور معمول کی صحافتی سرگرمی قرار دینے پر مُصر ہیں انہیں‘ الزام‘ تاثر اور سرکاری طور پر پلانٹڈ اور آئین کے تحت رازداری کا حلف اٹھانے والے افراد کی طرف سے من پسند معلومات توڑ مروڑ کر افشا اور اخبار کی طرف سے طے شدہ مقاصد کے تحت شائع کرنے میں فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔ حکومت کے اعلامیہ میں بھی پرویز رشید کے خلاف چارج شیٹ میں وہی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں در ج تھے‘ جس کا مطلب ہے کہ حکومت بھی اسے قومی سلامتی کا معاملہ سمجھتی ہے‘ مگر قومی سلامتی کے منافی سرگرمی اور اعتماد و رازداری کے بحران کو وہ اہمیت دینے پر آمادہ نہیں‘ جس کا یہ متقاضی ہے۔ حکمران اشرافیہ کی دیانت و امانت کی قلعی پاناما لیکس نے کھولی‘ نام نہاد جمہوریت کا پردہ لاٹھی چارج‘ آنسو گیس اور کنٹینرز پالیسی نے چاک کر دیا‘ سول ملٹری تعلقات کا بھرم پرویز رشید کی برطرفی اور تحقیقاتی کمیٹی سے کھل گیا۔ اس رختِ سفر کے ساتھ میر کارواں کا زیادہ عرصہ چلنا مشکل ہے۔ اگر اس بار بھی میرِ کارواں جُل دینے میں کامیاب رہا تو ہماری آپ کی قسمت۔ محترمہ بینظیر بھٹو یاد آئے گی‘ جس نے کہا تھا کہ چھوٹے صوبوں کی قیادت کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی اور پنجاب کے سپوتوں کے ساتھ سگی ماں کا سلوک ہوتا ہے۔ میں نے کبھی اس پر یقین کیا‘ نہ کرتا ہوں مگر موجودہ حکمرانوں کی خوش قسمتی پر ناز کرنا پڑے گا‘ جن کا پاناما لیکس سے کچھ بگڑتا ہے‘ نہ ڈان لیکس سے اور نہ کسی پُرجوش عوامی تحریک سے۔
عدلیہ تحریک میں لانگ مارچ گوجرانوالہ پہنچنے سے قبل کامیاب و کامران ٹھہرا‘ آرمی چیف کی مداخلت بھی روا تھی مگر اب یہ ریاست کے ساتھ بغاوت ہے‘ اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ‘ ارکان اسمبلی اور عوام کے لیے اسلام آباد کا داخلہ ممنوع۔
1993ء میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے نواز حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا فیصلہ کیا‘ تو آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ آگے بڑھے اور تصادم روکا۔ صورتحال پھر 1993ء سے مشابہ ہے مگر وحید کاکڑ فارمولا کی بات کرو تو جمہوریت دشمنی کا طعنہ ملتا ہے‘ حالات کا رخ کوئی نہیں دیکھتا۔