قطر کے سابق وزیر اعظم اور وزیر خارجہ پرنس حمد بن جاسم کے خط سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کو ریلیف ملتا ہے یا نہیں؟ عدالتی فیصلے پر منحصر ہے‘ مگر اس خط نے کئی سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ اگر عدالت عظمیٰ نے نازک مزاج‘ قابلِ احترام شہزادے کو طلب کر لیا اور کسی منجھے ہوئے فوجداری وکیل نے سوالات کی بوچھاڑ کی‘ تو شہزادے کو عرب ریاستوں کے محکوم اور پاکستان کے آزاد عدالتی نظام میں فرق معلوم ہو جائے گا۔ خط پیش کرکے لندن فلیٹس کی خریداری‘ رقوم کی منتقلی اور ملکیتی دستاویزات کو جائز اور قانونی ثابت کرنا اب شریف خاندان کی ذمہ داری ہے۔ ان فلیٹس کی خریداری‘ ملکیت اور رقوم کی منتقلی کے حوالے سے میاں نواز شریف‘ بیگم کلثوم نواز شریف‘ مریم نواز‘ حسین نواز اور حسن نواز کے بیانات میں اس قدر تضاد ہے کہ ان میں مطابقت پیدا کرنے کے لیے افلاطون کی دانش درکار ہو گی۔ حسین نواز نے دو ٹی وی انٹرویوز میں لندن فلیٹس کی خریداری جدہ کی عزیزیہ سٹیل مل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے بتائی‘ میاں صاحب نے پارلیمنٹ کے سامنے اس کا ناتہ گلف سٹیل مل سے جوڑا‘ اور محترمہ مریم نواز نے بیرون ملک اپنے یا اپنے بھائیوں کے مکانات کی موجودگی سے انکار کیا‘ مگر اب اچانک قطری شہزادے کو ملوث کرکے کہانی کو نیا موڑ دے دیا گیا‘ اپنے ہی بیانات کی تردید کر دی گئی۔
تحفظ پاکستان ایکٹ کی منظوری سے قبل‘ آڈیو اور ویڈیو بیانات کو عدالتیں ٹھوس ثبوت کے طور پر تسلیم نہیں کرتی تھیں‘ مگر اب یہ آئینی اور قانونی طور پر مسلّمہ ثبوت ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں بھی مصدَّقہ ہونے کی صورت میں عالمی سطح پر ثبوت کا درجہ رکھتی ہیں۔ امریکہ کے ذہین اور صاحب مطالعہ صدر رچرڈ نکسن نے ایک اخباری رپورٹ پر اپنا منصب چھوڑا۔ باب وڈورڈز کی اخباری خبر کے سامنے صدر کے بیان کو عوام نے اہمیت دی‘ نہ کانگریس نے اور نہ عدالت عظمیٰ نے۔ پاکستان میں کرسٹائن کیلر کے حوالے سے شائع ہونے والی خبروں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکمرانی کو زک پہنچائی‘ جبکہ خان عبدالولی خان‘ عطاء اللہ مینگل‘ غوث بخش بزنجو جیسے نامور سیاست دانوں کے خلاف مقدمۂِ بغاوت میں ایک اخبار کی مختصر خبر بطور ثبوت پیش ہوئی۔ مکمل تفصیل بزرگ صحافی بشیر ریاض صاحب بیان کر سکتے ہیں جو ٹربیونل کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ اعلیٰ عدالتیں سوئوموٹو نوٹس اخباری تراشوں پر لیتی ہیں اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس حوالے سے ریکارڈ قائم کیے۔ پاناما پیپرز کی صداقت کو پاکستان کے سوا کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔ شریف خاندان نے بھی دعووں کے باوجود متذکرہ ادارے کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی۔ آئس لینڈ اور برطانیہ کے وزیر اعظم نے بھی پاناما پیپرز کو اخباری تراشے قرار دے کر مسترد کرنے کے بجائے اپنی صفائی پیش کی جبکہ اوّل الذکر کو بالآخر مستعفی ہونا پڑا۔ دانیال عزیز‘ محمد زبیر اور طلال چوہدری سمیت وزیر اعظم کا دفاع کرنے والوں کو شاید یاد نہیں کہ سرے محل‘ سوئس اکائونٹس کا علم بھی عوام کو اخباری خبروں سے ہوا‘ اور میاں صاحب پارلیمنٹ کے علاوہ میڈیا کے سامنے اخبارات ہی لہرایا کرتے تھے‘ جسے اب اُن کے متوالے کچرے کا ڈھیر قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی اخلاقیات نام کی کوئی چیز ہوتی تو وزیر اعظم عدالت عظمیٰ کے سامنے الزامات کا دفاع کرنے کے بجائے باوقار طرز عمل اختیار کرتے‘ مگر یہاں ورد جمہوریت اور جمہوری روایات کا کیا جاتا ہے‘ لیکن چھوٹا موٹا منصب بھی اس وقت تک کوئی نہیں چھوڑتا جب تک اسے گھسیٹ کر باہر نہ نکال دیا جائے۔ جس مقدمے میں حکمران خاندان کو اپنی آمدنی اور اس سے خریداری کو جائز ثابت کرنے کے لیے دوست ملک کے مقتدر خاندان کی مدد حاصل کرنی پڑے‘ اس پر آدمی کیا کہہ سکتا ہے؟ لندن فلیٹس کے حوالے سے مقدمہ کے مُدَّعیان سے ثبوت طلب کرنے والوں پر حیرت ہے۔ کیا سراج الحق‘ عمران خان کے فلیٹس پر قبضہ ہوا‘ یا ان کے بینک اکائونٹس سے رقم نکالی گئی کہ وہ ثبوت فراہم کریں؟ الزام یہ ہے کہ قومی وسائل لوٹے گئے‘ ریاستی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی اور ملک کی شہرت کو نقصان پہنچا۔ تفتیش‘ اور ثبوت اکٹھے کرنا نیب‘ ایف آئی اے اور دیگر اداروں کی ذمہ داری ہے جو قومی خزانے پر پلتے ہیں۔ یہ کسی کام کے نہیں تو انہیں بند کیوں نہیں کیا جاتا؟ کچھ تو بچت ہو گی۔ اس خط کا مگر ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ قطر سے ایل این جی کی درآمد اور قیمتیں خفیہ رکھنے کا معمّہ حل ہو گیا۔ قطر میں پاکستانی سفیر شہزاد احمد کا تقرُّر‘ سیف الرحمن کا شہزادہ حمد بن جاسم سے کاروباری تعلق اور معاہدہ کرانے میں دلچسپی اور یہ خط؟ تو کیا ایل این جی کا معاہدہ دو ریاستوں یا دو ممالک کی آزاد و خود مختار کمپنیوں کے بجائے دو خاندانوں اور اُن کی کمپنیوں میں بندر بانٹ ہے۔
شہزادہ حمد بن جاسم کے خط نے لندن فلیٹس کے علاوہ قطر سے گیس کی درآمد کو بھی مشکوک بنا دیا ہے‘ جبکہ دیگر کسی دستاویز اور وکیل کے دلائل کے بجائے صرف شریف خاندان کے بیانات اور اس خط میں پائے جانے والے تضادات کا ہی باریک بینی سے جائزہ لے لیا جائے تو شیخ رشید احمد کو آئین کے آرٹیکل 62,63 کے اطلاق کے لیے مزید تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ پرنس حمد بن جاسم نے جرسی فنانشل سروسز کمشن سے جان چھڑانے کے لیے چھ ملین پائونڈ کی قربانی دی تھی‘ جس کے نتیجے میں ہتھیاروں کی خریداری کے معاہدے کے بعد قائم ہونے والے ٹرسٹ کے منجمد فنڈز بحال اور مقدمہ خارج ہو گیا۔ 2013ء میں حمد وزارت عظمیٰ کے منصب سے کیوں الگ ہوئے؟ یہ ایک الگ کہانی ہے اور پاناما پیپرز میں ان کا نام انہیں ہمارے حکمرانوں کا پیٹی بند بھائی ثابت کرتا ہے۔ ''خواجے دا گواہ ڈڈّو!‘‘
عدالت میں زیر سماعت مقدمہ پر تبصرہ مناسب ہے‘ نہ قانونی ماہرین کے سوا کوئی اس خط کی افادیت اور عدم افادیت واضح کر سکتا ہے؛ تاہم حکمران خاندان نے اپنے خلاف مقدمے کو نیا موڑ دے کر اپنا بھلا کیا‘ نہ سیاسی فوائد سمیٹے‘ اُلٹا اپنے خاندانی کاروبار کو مزید مشکوک اور عرب ریاستوں سے تعلقات کو متنازعہ بنا لیا۔ ظاہر ہے اب پاکستان میں عرب شہزادوں کو شکار گاہوں کی الاٹمنٹ‘ کاروباری سہولتوں اور معاہدوں کے علاوہ غیرمعمولی آئو بھگت پر بھی سوالات اٹھیں گے اور خاندانی مفادات کے تناظر میں دیکھا جائے گا‘ جو نیک فال نہیں۔ پاکستان میں ایک حلقہ ہمیشہ عرب ریاستوں سے غیر معمولی تعلقات کا ناقد رہا ہے‘ عوام نے اسے کبھی اہمیت نہیں دی مگر اب وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ دنیائے اسلام کی واحد نیوکلیئر ریاست کے وسائل‘ جغرافیائی اہمیت اور قوت کو ایک دو خاندانوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا‘ ان کے بیرون ملک اثاثوں اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا مگر پاکستان کے ہاتھ کیا آیا؟ مہنگی گیس اور جگ ہنسائی۔ اگر تحریک انصاف کے وکیل، شہزادے کو عدالت میں بلا کر اس انداز میں جرح کرتے ہیں جو پاکستانی وکالت کا طرّہِ امتیاز ہے اور جس سے شریف لوگ پناہ مانگتے ہیں تو اس سے پاکستان کی کس قدر نیک نامی ہو گی اور دو طرفہ تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟ یا یہ قربانی بھی اپوزیشن کو دینی ہو گی کہ ملک و قوم کو بدنامی اور قطر سے دیرینہ برادرانہ تعلقات کو بچانے کے لیے وہ خط پر کوئی اعتراض نہ کرے اور حکمرانوں کی چالاکی کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔
نقوش کے مدیر محمد طفیل مرحوم کی تازہ کتاب شائع ہوئی تو انہوں نے احترام سے ہمدم دیرینہ میرزا ادیب (مرحوم) کو پیش کی‘ مرزا صاحب نے کتاب الٹ پلٹ کر دیکھی‘ فہرست مضامین پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور ایک طرف رکھ دی۔ طفیل صاحب نے پوچھا: مرزا صاحب کتاب کیسی لگی؟ بولے ''کتاب کا سرورق اور جلد خوب ہے‘‘۔ طفیل صاحب کو طنزیہ تبصرہ گراں گزرا‘ مگر کیا کر سکتے تھے۔ مرزا صاحب کے مزاج سے واقف تھے اور تعلقات عزیز۔ چند سال بعد مرزا صاحب کی کتاب اشاعت پذیر ہوئی تو انہوں نے طفیل صاحب کو پیش کی۔ طفیل صاحب نے دیکھے بغیر بے اعتنائی سے رکھ دی۔ مرزا نے پوچھا: ''آپ نے کتاب دیکھی تک نہیں‘‘۔ طفیل صاحب بولے‘ مرزا صاحب کیا دیکھوں؟ اس کا تو سرورق اور جلد بھی ردی ہے۔ تحریک انصاف کی پیش کردہ دستاویزات اخباری تراشوں کا پلندہ ہیں‘ اور بجا کہ اخبارات میں پکوڑے بکتے ہیں مگر پرنس حمد کا خط؟ یہ تو پکوڑا فروشوں کے کام کا بھی نہیں۔ تضادات کا مجموعہ اور غیر قانونی مالیاتی ترسیل کی پردہ پوشی کا پروانہ‘ جو پکوڑوں کا ذائقہ خراب کر دے۔