شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کا فیصلہ تو جو ہو سو ہو‘ حکمران خاندان کی ساکھ بحال نہیں ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے اخبار نویسوں کی ملاقات کے دوران قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے عمران خان کی جلد بازی کا ذکر کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر عمران خان کی خواہشات کے برعکس آیا تو اس سے نواز شریف کو فائدہ اور اپوزیشن کو نقصان ہو گا‘ عین ممکن ہے کلین چٹ ملنے کے بعد میاں نواز شریف‘ اگلے سال مئی ‘جون میں عام انتخابات کا اعلان کر دیں تو میں نے عرض کیا کہ پانامہ لیکس نے آزمائش میں شریف خاندان اور اعلیٰ عدلیہ کو ڈال دیا ہے اور آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ سیاسی نوعیت کے مقدمات میں عدالتی فیصلے سیاستدانوں نہیں‘ عدالتی نظام کی ساکھ پر تباہ کن اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے خلاف عدالتی فیصلہ کا حشر بھی آپ کے سامنے ہے اور گورنر جنرل غلام محمد اور سابق صدر جنرل ضیاء الحق‘ اسحق خان اور فاروق لغاری کی طرف سے آئینی و قانونی اختیار کے تحت اسمبلیاں توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دینے والے ججوں کا انجام بھی۔
ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر صاحب عموماً کہا کرتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ کو اجتہادی ادارے کے طور پر فیصلے قانونی موشگافیوں سے بالا تر ہو کر عدل و انصاف کی حقیقی روح کے مطابق کرنے چاہئیں۔ جو ادارہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین حتیٰ کہ آئینی ترمیم پر عدالتی نظرثانی کا اختیار رکھتا ہے ماتحت جوڈیشری کی طرح اس کے ہاتھ بندھے نظر نہیں آنے چاہئیں اور کسی طاقتور اور حکمران کے سامنے تو بالکل نہیں کہ یہ معاشرے کی آخری اُمید اور کمزور و مظلوم کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ تاہم بلاول بھٹو کی طرح سید خورشید شاہ کا موقف یہی ہے کہ عمران خان نے عوام اور پارلیمنٹ سے منہ موڑ کر اپنی منزل کھوٹی اور بالواسطہ طور پر حکمران خاندان کی مدد کی ہے۔ پیپلز پارٹی کی عدالتی نظام سے مایوسی کی وجوہات ہیں پاکستان کے نظام انصاف نے ہمیشہ شریف خاندان کی مدد کی حتیٰ کہ ایک جیسے مقدمات میں فیصلے مختلف اورمتضاد آئے اور فائدہ ہمیشہ بقول بلاول جی ٹی روڈ کی پارٹی کو پہنچا تاہم یہ پیپلز پارٹی کا موقف ہے جس سے اتفاق لازم نہ عدالتی نظام سے مایوسی واجب‘ تاہم عوامی دبائو سے آزاد ہونے والی عدلیہ نے اپنے دلیرانہ فیصلوں سے ماضی کا کفارہ ادا کیا ہے اور عام آدمی ایک بار پھر اُمید بھری نگاہوں سے آزاد عدلیہ کی طرف دیکھ رہا ہے۔
عوامی سطح پر اس وقت زیر بحث عدالتی نظام ہے نہ پانامہ کیس کا فیصلہ اور عمران خان کا مستقبل‘ عمران خاں نے اپنے حصے کا کام کر دیا اور حکمران خاندان کی اخلاقی ساکھ پر ایسے سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں جن کے جواب اس کے وکیل دے سکتے ہیں نہ ہر روز میڈیا پر مخالفین پر تبرا بھیجنے والے وزراء اور ارکان اسمبلی‘ برادرم ہارون الرشید نے اپنے کالم میں اس حوالے سے جو لکھا اس پر اضافہ ممکن ہے نہ ناقدانہ تبصرہ آسان‘ قطری شہزادوں کی آمد کا ذکر انہوں نے کیا‘ جو نئی بات ہے نہ کبھی عرب شہزادوں کی آمد اور تلورکے شکار پر تنازعہ کھڑا ہوا مگر اس بار وہ بھد اُڑی کہ الامان والحفیظ۔ اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں ایک شعبے کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے پر مخالفانہ تبصرہ آرائی بھی حکمرانوں کے بُرے دنوں کی نوید سناتی ہے ورنہ اسی نوازشریف نے جمعہ کی چھٹی ختم کی تو مذہبی جماعتوں تک نے خاموشی میں عافیت سمجھی۔یہ مقبولیت کی معراج تھی مگر اب کیا ہے؟ ڈاکٹر عبدالسلام کے مذہبی عقائد سے قطع نظر وہ پاکستانی ہیں جنہیں فزکس کے شعبے میں خدمات پر نوبل انعام ملا۔ جنرل ضیاء الحق اورپرویز مشرف کے دور میں ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان آئے تو انہیں سرکاری پروٹوکول ملا اور وہ مختلف مقامات پر لیکچر دیتے رہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے 1974ء میں پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے خلاف احتجاج کے طور پر وزیر اعظم کے مشیر کا منصب اور پاکستان چھوڑا ‘ اس کے باوجود پاکستانی قوم نے ان سے یا ان کی مذہبی کمیونٹی سے کبھی تعصب نہیں برتا۔ میاں نواز شریف نے اپنے مشیروں کے مشورہ پر قائد اعظم یونیورسٹی کے نیشنل سنٹر فار فزکس اور فیلو شپ کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کیا تو مخالفت شروع ہو گئی۔ مخالفت کی وجہ ڈاکٹر عبدالسلام ‘ کی شخصیت اور مذہبی وابستگی نہیں؛ ایک باعمل مسلمان سائنس دان ڈاکٹر ریاض الدین جو اس ادارے کے تخلیق کار ہیں سے بے اعتنائی ہے۔ یہ نیشنل سنٹر ڈاکٹر ریاض الدین سے منسوب تھا جسے اب ڈاکٹر سلام کے نام کر دیا گیا جبکہ تاثر یہ پھیلاہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ پاکستان میں سرگرم عمل فنڈ خور مافیا کو خوش کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ کوئی دوسرا ادارہ منسوب کیا جاتا تو شاید کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ اس فیصلے سے امریکہ و برطانیہ تو معلوم نہیں خوش ہوتے ہیں یا نہیںمگر عوام کو یہ پیغام ملا کہ اب میاں صاحب ملک کے سواد اعظم کے بجائے اقلیتوں اور غیر ملکی قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
قطری شہزادوں کی آمد پر تو سوشل میڈیا میں طوفان بدتمیزی برپا ہوا۔ سوال کیا گیا کہ آخر یہ شکار پاکستان‘ بنگلہ دیش اور بھارت میں کیوں کیا جاتا ہے ان سرد علاقوں میں کیوں نہیں جہاں سے تلور برصغیر کا رخ کرتا ہے۔ گوشت بھی ذائقے میں گوجرانوالہ کے چڑوں سے مختلف نہیں ہوتا اور شکار میں تھرلنگ کا پہلو کم ہے۔ گوشت کھانا مقصد ہو تو یہاں سے بآسانی منگوایا جا سکتا ہے پروپیگنڈا یہ کیا جا رہا ہے کہ یہ شہزادے چولستان‘ بھکر اور راجن پور میں ہوس کی آگ بجھانے ‘نوخیز کلیوں کو کچلنے اور غریب عوام کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے تشریف لاتے اور ہماری قومی بے حمیّتی پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ ان علاقوں کی ثقافت‘ تمدنی و تہذیبی روایات اور قبائلی رسم و رواج سے آگاہ ہر پاکستانی بخوبی جانتا ہے کہ اس منفی مہم کا ہدف صرف یہ علاقے ہی نہیں پاکستان کے دوست عرب ممالک ہیں وہ این جی اوز لازماً ملوث ہیں جو ہماری تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کے منفی پہلو تلاش کر کے مغربی ممالک سے مال بٹورتی اور مخصوص حلقے سے داد سمیٹتی ہیں۔ جن غریب علاقوں میں غیرت کے لیے لوگ کٹ مرتے ہیں وہاں یہ مکروہ کاروبار آسانی سے جاری رکھا جا سکتا ہے نہ چھپانا ممکن مگر چونکہ یہ عرب شہزادے ایک ایسی حکومت کے مہمان ہیں جس کا ہر فیصلہ اور اقدام لوگوں کو بُرالگنے لگا ہے لہٰذا کسی کی زبان بندی ممکن نہیں کہ موقع حکومت نے خود فراہم کیا ہے۔اچھے دنوں میں بھٹو صاحب نے کہا ''میں تھوڑی سی پیتا ہوں‘‘ تو لوگوں نے بھنگڑا ڈالا اور مخالفین انگشت بدنداں رہ گئے مگر دن پھرے‘ اور حالات نے مخالفانہ پلٹا کھایا تو جمعہ کی چھٹی اور شراب کی بندش ایسے مقبول اقدامات کو بھی عوام نے دبائو کا نتیجہ اور احتجاجی تحریک ناکام بنانے کی غیر سنجیدہ کوشش قرار دیا۔
یہ عوام کا بدلا ہوا موڈ ہے کہ جھنگ کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگی امیدوار ایک کالعدم مذہبی تنظیم کے امیدوار سے بُری طرح ہار گیا۔ مسلم لیگی امیدوار کو دھن دھونس‘ دھاندلی کا فائدہ ہوا نہ مسرور جھنگوی کے خلاف مخالفانہ پروپیگنڈے کا۔ عدالتی فیصلہ تو ظاہر ہے دستاویزی شواہد‘ وکلاء کے دلائل اور ملکی قوانین کی روشنی میں آئیگا مگر یہ حکمران خاندان کی ساکھ بحال کر سکتا ہے ہے نہ قومی اداروں پر اخلاقی برتری برقرار رکھنے میں مددگار۔ ع
اخلاقی ساکھ شیشے کی مانند ہے
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں‘ جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا۔ حق میں فیصلہ آنے کی صورت میں میاں صاحب نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا تو مخالفین کی مشکلات بڑھ جائیں گی کہ تیار وہ بھی نہیں۔عدالت عظمیٰ میں جماعت اسلامی کا جوڈیشل کمشن بنانے پر اصرار باعث حیرت ہے کہ اس سے سرکاری وکیل کے سوا کوئی متفق نہیں ؎
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زبان ہیں فقیہان شہر مرے خلاف

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں