زندہ تاریخ

مخدوم جاوید ہاشمی کی تازہ کتاب ''زندہ تاریخ‘‘ ملی تو سوچا آپ کو بھی شریک مطالعہ کروں۔ یہ کوٹ لکھپت جیل میں لکھی گئی ڈائری ہے۔ آزاد عدلیہ ‘ مسلم لیگ اور میاں صاحب کے حوالے سے ہاشمی صاحب کے جذبات کے عکاس چند اقتباسات پیش خدمت ہیں :
''ڈیڑھ سال قبل میری درخواست (کئی مرتبہ) شنوائی کے لیے پیش ہوئی‘ مگر عدالت کے پاس سماعت کا وقت نہیں تھا۔ میمونہ بار بار عدالتوں میں گھنٹوں اس انتظار میں بیٹھی رہتی مگر آخر میں جب وقت ختم ہونے کا اعلان ہوتا تو وہ مایوس ہو کر اٹھ آتی‘ اس کے ذہن میں انصاف کے ایوانوں کا یہ تصور نہیں تھا۔ وہ مایوس ہو گئی اور پھر ڈپریشن کا شکار ہو گئی وہ سپریم کورٹ کے جج حضرات کو اللہ تعالی کے بعد انصاف دہندہ کے طور پر دیکھتی تھی اسے زمینی حقائق کا سامنا کرنا پڑا تو بکھر گئی جس کا مجھے دکھ ہے۔‘‘
''ایک مرتبہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چوہدری افتخار محمد نے انصاف میں تاخیر کو انصاف نہ دینے کے برابر قرار دیا۔ میرے وکیل نے میرے مقدمے پر ان کی توجہ مبذول کرائی کہنے لگے! باری آنے پر انصاف کیا جائے گا‘ حالانکہ مجھ سے بعد میں دائر ہونے والی درخواستوں کی سماعت ہو چکی ہے۔ میری باری کیسے آئے گی یہ بات پوچھنے کی جرأت کون کر سکتا ہے؟‘‘
''جلسے میں میمونہ بی بی کو سٹیج پر بیٹھنے کی جگہ بھی جاوید لطیف کی کوششوں کے بعد مل سکی۔ سٹیج تک پہنچنے سے پہلے اسے دھکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میمونہ کے سٹیج پر پہنچتے ہی لوگ میری رہائی کے لیے نعرے بلند کرنے لگے۔ سردار ذوالفقار علی کھوسہ اپنی تقریر میں لوگوں کو جھڑکتے رہتے ہیں کہ وہ صرف ایک لیڈر کے حق میں نعرہ لگایا کریں۔ پنجاب بھر میں پارٹی کے جلسوں میں کارکن جیل میں بیٹھے ہوئے ساتھی کا بلند آواز سے ذکر کرتے ہیں۔ پارٹی کی پنجاب قیادت میمونہ کی جلسوں میں شرکت کو ناپسند کرتی ہے۔‘‘
''اکرم شیخ ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کی طرف سے میری ضمانت رد کرنے کے بارے میں تفصیلی بات کی۔ وہ چاہتے تھے کہ دوبارہ نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ میں جانا چاہیے میں نے معاملہ اُن پر چھوڑ دیا۔ انہوں نے مجھے مزید غور و خوض کرنے کا کہا۔ جس رات نیب نے مجھے گرفتار کیا تھا اس سے ایک دن پہلے میں پشاور میں اپنی پارٹی کنونشن میں تھا کہ وہاں اکرم شیخ کا فون آیا انہوں نے کہا کہ میں آپ کی ضمانت کے سلسلے میں چیف جسٹس شیخ ریاض احمد کی عدالت میں تھا کہ چیف جسٹس نے کہا کہ آ پ کو اور ضمانت نامے تیار کرنا پڑیں گے ۔شام کو کسی سفارتی تقریب میں چیف جسٹس سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ جاوید ہاشمی کی گرفتاری کا فیصلہ ہو چکا ہے آپ انہیں بتا دیں جو شیخ صاحب نے کہا وہی ہوا میں دوسرے دن جیل میں تھا۔ ‘‘
'' سپرنٹنڈنٹ نے بتایا سابق گورنر سندھ ممنون حسین صاحب 11 اور 12 بجے کے درمیان ملنے کے لیے آئیں گے۔ میں تیار ہو گیا۔ مطالعہ سے فارغ ہوا تو ممنون صاحب کے آنے کی اطلاع ملی‘ ان سے طویل گفتگو ہوئی۔ ممنون صاحب جیسے نیک نام لوگ جو کراچی کے چھوٹے تاجر ہیں‘ سیاست میں بہت کم ملتے ہیں۔ وہ بہت محبت کرنے والے شخص ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور پھر ان کا چہرہ آنسوئوں سے تر ہو گیا۔ میں نے انہیں دلاسہ دیا۔ وہ میری قید کے دوران دو تین مرتبہ سے زیادہ ملنے نہیں آئے۔ کہنے لگے سچ پوچھیں تو میرے معاشی حالات ایسے ہیں کہ میں نہیں آ سکتا‘ ورنہ میں بار بار آنا چاہتا ہوں۔ میں نے انہیں کہا میں آپ کے حالات سے واقف ہوں۔‘‘
''رات کو ''تنہائی‘‘ کی محفل سج گئی۔ گزشتہ پانچ سال کا ایک ایک لمحہ اپنی داستان سنا رہا تھا جب غوث علی شاہ ملک سے باہر چلے گئے تو اس مرحلے پر میں نے ممنون حسین کو سندھ کی قائم مقام صدارت کے لیے راضی کیا۔ جب میں نے اس فیصلے سے میاں نوازشریف کو مطلع کیا تو انہیں یہ فیصلہ پسند نہ آیا۔ انہوں نے کہا میجر مستجاب کو اس عہدے پر لگانا بہتر ہو گا۔ میں نے میاں صاحب سے کہا کہ میجر مستجاب صاحب عرصہ دراز سے مسلم لیگ نون کو چھوڑ کر مشرف حکومت میں شامل ہو چکے ہیں۔ میاں صاحب خاموش ہو گئے اور ممنون حسین صاحب اپنا کام آج تک کر رہے ہیں اسی طرح میاں صاحب نے کہا کہ مشاہد اللہ خان کو سیکرٹری اطلاعات سے ہٹا دیا جائے اور صدیق الفاروق کو ان کی جگہ پر سیکرٹری اطلاعات کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ میں نے میاں صاحب سے کہا کہ 12 اکتوبر کو مشاہد اللہ خان تنہا کراچی کی سڑکوں پر سراپا احتجاج تھا۔ اسے ہٹانے سے پہلے کسی اور عہدے پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ میاں صاحب نے اس بات کو بھی میری گستاخی سمجھا۔ سعد رفیق کو پنجاب کی جنرل سیکرٹری شپ سے ہٹانے کا کہا گیا۔ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سرانجام خان نے پارٹی کو بچانے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ ان کے ہٹائے جانے پر مجھے قلق ہوا۔ مگر میں نے سرانجام خان کو سینئر وائس پریذیڈنٹ شپ قبول کرنے پر آمادہ کیا۔ سرانجام خان نے کہا کہ آپ کی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے چار سینئر نائب صدور کے عہدے گھڑے گئے ہیں جس سے میں اس سازش کا حصہ نہیں بن سکتا۔ میں نے انہیں کہا کہ پارٹی بچانے کا مرحلہ ہے‘ میری سیاسی حیثیت کی اس کے سامنے کوئی اہمیت نہیں۔ رات پھر میری نوازشریف صاحب سے بات ہو گئی میں نے انہیں کہا کہ میاں صاحب! آپ نے مجھے پاکستان کا صدر بنایا ہے مجلس عاملہ کے ارکان کے علاوہ تمام عہدیداروں کو تبدیل کرنے کا اختیار مجھے حاصل ہے مگر میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ آپ کے احکامات کے علاوہ عہدے داروں کی اکھاڑ پچھاڑ میں ملوث ہوں۔ میں دیئے ہوئے اختیارات کا امین ہوں اور امانت میں خیانت کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔‘‘
'' اطلاع ملی کہ چوہدری نثار علی ملاقات کے لیے جیل کے باہر پہنچ چکے ہیں۔ چوہدری نثار کی تصویر میرے سامنے ہے وہ کہہ رہے تھے کہ ان کے گائوں کے لوگ ان کے والد صاحب سے کہا کرتے تھے کہ آپ کا بیٹا فوجی بننے کے قابل تھا آپ نے اس کو سیاست میں کیوں ڈال دیا ہے۔ میرا ان کی اس رائے سے اختلاف ہے چوہدری نثار علی خان ایک زیرک ذہین اور موقع شناس سیاسی کردار ہیں۔ اپنے ہوں یا پرائے انہیں اپنی راہ میں حائل ہوتے نظر آئیں تو انہیں راستے سے ہٹانے کے لیے گر آزمانے کا فن جانتے ہیں۔ 12 اکتوبر سے تین سال تک سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو گئے۔ کہا گیا کہ انہیں گھر میں نظربند کر دیا گیا تھا۔ اپنی رہائی کے لیے انہوں نے تگ و دو نہیں کی نہ ہی کسی فورم پر اپیل دائر کی۔ پھر وہ جدہ اور لندن چلے گئے۔ جونہی انتخاب کے انعقاد کا اعلان ہوا وہ واپس آ گئے۔ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بننا چاہتے تھے میری بدقسمتی کہ مجھے وہ اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھے۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ میں تو اسی دن جھاگ کی طرح بیٹھ جائوں گا جب نوازشریف پاکستان میں پہنچیں گے میں سیاسی کارکن ہوں اور اپنی جدوجہد کو مارشل لاء کے خاتمے تک جاری رکھوں گا۔ میں نے کبھی نہ وزیر بننے کا سوچا ہے نہ وزیراعظم کا اور نہ صدر پاکستان کا۔ میری جدوجہد کا ثمر نوازشریف کی پاکستان آمد اور جمہوریت کا ارتقاء ہے۔ میں کسی کی راہ میں روڑے کیسے اٹکا سکتا ہوں۔‘‘
''میاں نوازشریف اور شہبازشریف کی سیاست میں میری کوئی حیثیت نہیں تھی۔ چوہدری نثار علی کا دعوی تھا کہ میاں برادران کو فوجی اور غیر فوجی حلقوں میں متعارف کرانے کا سہرا ان کے سر ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ نثار علی کی صلاحتیں میاں صاحبان کے لیے وقف تھیں اور میاں صاحبان چوہدری نثار کی جائز اور ناجائز خواہشات کے آگے خاموش تھے۔ یہاں چونکہ منظر بدلا ہوا تھا مسلم لیگ ایک جدوجہد کرنے والی پارٹی بن چکی ہے۔ چوہدری نثار نے اپنے ''رابطوں‘‘ کا فائدہ اٹھایا اور چند دنوں کے اندر مسلم لیگ پر ان کے لندن گروپ کا مکمل کنٹرول تھا۔ میں زبان بھی نہیں کھول سکتا تھا کہ ہماری جدوجہد منزل کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اپنے زخموں کو سہلاتا رہتا ہوں۔‘‘
''میں نے میاں نوازشریف سے بارہا کہا کہ چوہدری نثار علی صاحب جیل میں ملنے نہیں آتے۔ اس سے پارٹی کے اندر اختلافات کی خبریں اڑتی رہتی ہیں آپ چوہدری صاحب کو حکم کریں کہ وہ مجھے مل جائیں۔ چوہدری نثار نے مجھ پر الزام لگایا ہے کہ میرے گھر کا خرچہ میاں نوازشریف ادا کرتے ہیں۔ میں نے میاں نوازشریف سے کہا کہ وہ چوہدری نثار کو صورتحال کی وضاحت کر دیں۔ آپ جانتے ہیں کہ معاہدے کی وجہ سے پارٹی کے اخراجات بھی آپ ادا نہیں کر رہے اور میرے ذاتی اخراجات کے لیے میرے وسائل کافی ہیں۔ بلکہ چوہدری نثار کو بتا دیں کہ پارٹی کے اخراجات بھی چھ سال سے اپنی پارٹی کے تعاون سے ہم ادا کر رہے ہیں۔ میں چوہدری نثار کا جیل میں کئی دن سے انتظار کر رہا تھا۔ چوہدری نثار علی نے چھوٹتے ہی کہا کہ میں تو ملنے کے لیے نہیں آ رہا تھا میاں صاحب نے مجھے مجبور کیا تو میں آ گیا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔قومی اسمبلی میں میری رہائی کا مسئلہ قاضی حسین احمد نے اٹھایا۔ مخدوم امین فہیم‘ مولانا فضل الرحمن‘ اسفندیار ولی اور دوسری تمام پارٹیوں نے ان کی تائید میں تقریریں کیں صرف میری جماعت خاموش تھی۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں