"JDC" (space) message & send to 7575

ہندوستانی مسلمان

میں جب بھی ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار دیکھتا ہوں میرے دل سے بے ساختہ قائداعظم کے لیے دعا نکلتی ہے اور دل خراب بھی ہوتا ہے کہ قدرت کے عظیم تحفہ یعنی پاکستان کا ہم نے کیا حشر کردیا۔ ناقدری کی انتہا کردی۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے اس لیے کہ پاکستان نہ ہوتا تو میں یقینا کسی ہندو بنیے کا منشی منیم ہوتا اور سفیر کبھی نہ بن پاتا۔ ان تمام حقائق کے باوجود میرا ذہن ہندوستان کے بارے میں بھی کشادہ ہے۔ میرے اب بھی کئی ہندوستانی دوست ہیں۔ ہندوستان ہمارا ہمسایہ ہے او رہمسایوں سے امن اور آشتی پر مبنی تعلقات ہماری یقینی خواہش ہیں۔ لیکن میرے یہ ہندوستانی دوست‘ جن میں اکثریت غیرمسلموں کی ہے‘ کئی مرتبہ میرے ذہن میں سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ مثلاً چند ماہ قبل جب افضل گرو کو پھانسی ہوئی تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ افضل گرو بذاتِ خود 2001ء والے انڈین پارلیمنٹ پر حملے میں موجود نہ تھا۔ البتہ حملے میں مارے جانے والے ایک شخص کی جیب سے افضل گرو کا ٹیلیفون نمبر برآمد ہوا؛ چنانچہ یہ فرض کرلیا گیا کہ حملے کا ماسٹر مائنڈ گروہی ہے۔ ایک پکی روایت ہے کہ پھانسی سے پہلے مجرم سے اس کی آخری خواہش دریافت کی جاتی ہے۔ افضل گروکی آخری خواہش یہ تھی کہ اسے اپنے بیوی بچوں سے ملنے دیا جائے لیکن سنگدلی کی انتہا دیکھیے کہ یہ خواہش پوری نہ ہوسکی بلکہ شہید کا جسد خاکی بھی تدفین کے لیے ورثا کے حوالے نہ کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راجیو گاندھی پر حملے کا ماسٹر مائنڈ پھانسی کی سزا سن چکا ہے لیکن آج بھی جیل میں زندہ ہے۔ افضل گرو کا جرم یہ تھا کہ وہ کشمیری تھا اور مسلمان بھی۔ آپ کو علم ہوگا کہ ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے بارے میں وہاں کی وزارتِ داخلہ کے ایک سینئر ریٹائرڈ افسر کا حال ہی میں بیان آیا ہے کہ یہ ڈرامہ تھا جسے رچانے کا مقصد دہشت گردی کے خلاف قوانین کو سخت بنانا اور پاکستان کو بدنام کرنا تھا۔ جب یہ واقعہ ہوا میں یونان میں تھا۔ ہندوستان نے پوری دنیا میں واویلا مچایا کہ دہشت گردوں کا ہدف صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ ہندوستان بھی ہے۔ اس وقت 9/11کا واقعہ ذہنوں میں بہت ہی تازہ تھا۔ ہندوستان مغربی ممالک کی کشتی میں سوار ہورہا تھا؛ چنانچہ شور یہ مچایا گیا کہ مغربی ممالک بھی مظلوم ہیں اور ہندوستان بھی مظلوم ہے اور دونوں طرف ظلم کرنے والے دہشت گرد مسلمان ہیں۔ بات ذرا اصل موضوع سے ہٹ رہی ہے۔ اس کالم کو لکھنے سے پہلے میں نے ضروری سمجھا کہ ہندوستانی اور مغربی حوالے تلاش کیے جائیں تاکہ یہ تاثر نہ ابھرے کہ کالم متعصب نگاہ سے لکھا گیا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے بارے سب سے معتبر حوالہ سچار کمشن کی رپورٹ ہے جو2006ء میں وزیراعظم من موہن سنگھ کی خواہش پر تیار کی گئی۔ کمشن کے سربراہ نئی دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب راجندر سچار تھے۔ کمشن کے اراکین نے ہندوستان کے تمام صوبوں میں مسلمانوں کی حالت کو غور سے دیکھا۔ انٹرویو کیے۔ بحث مباحثہ ہوا کہ کمشن میں مسلمان رکن بھی تھے اور پھر بہت محنت کے بعد اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی۔ کمشن نے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے ۔ 1: ہندوستان کے مسلمانوں کی حالت نیچ ذات کے ہندوئوں سے بدتر ہے۔ 2:مسلمان ہندوستان کی آبادی میں 14فیصد سے زیادہ ہیں لیکن بیوروکریسی میں ان کی تعداد 25%یعنی ڈھائی فیصد ہے۔ 3: ہندوستان کے مسلمانوں میں شرح خواندگی عام آبادی سے کم ہے اور یہ تفاوت شہروں میں اور بھی نمایاں ہے۔ 4: ہندوستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایم اے۔ ایم ایس سی۔ ایم کام اور ایم بی اے میں مسلمان طالب علم 2%ہیں۔ 5: فوج اور پولیس میں مسلمانوں کی تعداد آبادی کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ ہندوستان میں کسی بھی تخریبی کارروائی کے بعد مسلمانوں کی گرفتاری معمول کی بات ہے۔ 2007ء کی بات ہے کہ حیدر آباد دکن میں مکی مسجد کے باہر بم دھماکے ہوئے اور کئی مسلمان گرفتار کرلیے گئے۔ ان میں سے چند ایک کوسزا بھی ہوئی۔ اور اس سال کے آغاز میں اسی شہر میں پھردھماکے ہوئے۔ اس دفعہ کچھ ہندو اور مسلمان گرفتار ہوئے۔ جیل پہنچ کرایک ہندو انتہا پسند کا ضمیر اسے سخت ملامت کرنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ 2007ء کے دھماکوں میں سزایافتہ مسلمان بھی اسی جیل میں تھے جبکہ چھ سال پہلے مکی مسجد کے باہر دھماکے دراصل اس ہندو انتہا پسند نے کیے تھے۔ وہ ان مسلمانوں کے پاس گیا جو ناکردہ گناہوں کی سزابھگت رہے تھے۔ اپنے جرم کا برملا اقرار کیا اور یوں ان مسلمانوں کی جیل سے رہائی ہوئی اس واقعے کا ذکر مشہور ہندوستانی مصنف پنکج مشرا نے اپنے حالیہ مضمون میں کیا ہے۔ پوری دنیا میں ہندوستان یہ ڈھنڈوراپیٹتا ہے کہ کہ وہاں مسلمان جمہوریت کے طفیل قومی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں لہٰذا ایک بھی ہندی مسلمان القاعدہ میں شامل نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی ہندی مسلمان افغانستان میں طالبان کی مدد کے لیے گیا ہے اور افغانستان کی حدتک یہ بات درست بھی ہے لیکن اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندرونی مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ وہ پرائے مسائل کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ پچھلے سال یعنی 2012ء میں امریکہ میں ایک کتاب چھپی‘ جس کا نام ہے: Muslims in Indian Cities Trajectories of Marginalisationاس کتاب میں بھی لکھا گیا ہے کہ معاشی اور معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کی حالت اچھوتوں اور قبائلی لوگوں سے بدتر ہے۔ دہلی، علی گڑھ اور کلکتہ میں مسلمان اپنی حفاظت کی غرض سے علیحدہ محلوں میں رہتے ہیں۔ پنکچ مشرا کے مطابق مسلمان اس وقت کل ہندی آبادی کا 15فیصد ہیں لیکن پارلیمنٹ میں مسلمانوں کا حصہ صرف 5.5%یعنی ساڑھے پانچ فیصد ہے۔ ہندوستان میں جب بھی مسلمان مطالبہ کرتے ہیں کہ فوج پولیس اور سول بیوروکریسی میں انہیں آبادی کے مطابق کوٹہ دیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ ہندوستان سیکولر ملک ہے‘ لہٰذا نوکریاں مذہب کی بنیاد پر نہیں دی جاسکتیں۔ سٹینلے والپرٹ نے اپنی کتاب Jinnah of pakistan میں لکھا ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمان اس ہڈی کی مانند تھے جو گلے میں پھنس جاتی ہے اور اب بھی صورت حال کم وبیش ویسی ہی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے ہندوستان کا دورہ کیا تھااور ہندوستانی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مسلم اقلیت کے ساتھ معاملات درست کرے کیونکہ کروڑوں پر محیط اقلیت ایک وزن رکھتی ہے ۔ پنکج مشرا کو بھی ادراک ہے کہ ناراض مسلمان بھارت کے لیے خطرے کاسبب بن سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں