"JDC" (space) message & send to 7575

کوٹہ سسٹم

وفاقی کابینہ نے چند روز پہلے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ ملازمتوں میں رائج کوٹہ سسٹم کو مزید بیس سال کی توسیع دی جائے۔ کابینہ کا یہ فیصلہ میرٹ کا مزید بیس سال گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ مجھے حیرانگی اس بات پر بھی ہوئی کہ قوم نے تو خاندان شریفاں کو پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے لیکن ارباب بست و کشاد فیصلے بیس سال کے لیے کررہے ہیں۔ کوٹہ سسٹم جس فلسفے پر قائم ہوا تھا اس کے دوپہلو تھے۔ پہلا پہلو یہ تھا کہ تعلیمی طورپر پس ماندہ علاقوں کو ایک مخصوص عرصے کے لیے ملازمتوں میں علیحدہ سے حصہ دیا جائے تاکہ ان کا احساس محرومی کم ہوجائے دوسرا رخ اس پالیسی کا یہ تھا کہ چند سالوں میں پس ماندہ علاقوں میں معیار تعلیم اس قدربہتر کردیا جائے کہ انہیں کوٹہ سسٹم کی بیساکھیوں کی ضرورت ہی نہ رہے۔ ہم نے اس پالیسی کے صرف ایک حصے پر عمل کیا ہے اور دوسرے حصے پر عمل درآمد کرانے کے لیے کسی غیبی قوت کی مدد کے انتظار میں ہیں لیکن ہم شاید یہ بھول گئے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کی ہی مدد فرماتے ہیں جو اپنی مدد خود کرتے ہیں۔ یوں تو پاکستان میں کوٹہ سسٹم 1949ء سے رائج ہے جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کا سرکاری ملازمتوں میں برابر حصہ ہوگا۔ سوچ یہ تھی کہ اس طرح بنگالی بھائیوں میں احساس محرومی کم ہوگا۔ 1973ء میں کوٹہ سسٹم کو آئینی تحفظ ملا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ یہ رعایت صرف دس سال کے لیے ہے۔ مگر آج میرٹ کے قاتل اس سسٹم کو چالیس سال ہوگئے اور یہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اور اب اس کی عمر مزید بیس سال بڑھا دی گئی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ فیصلے سے پہلے نہ کوئی ریسرچ ہوئی نہ کوئی کمیشن بیٹھا بس چشم زدن میں فیصلہ ہوگیا۔ شاید ’’بادشاہتوں ‘‘میں فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کوٹہ سسٹم میرٹ کو کیسے قتل کرتا ہے اس کے لیے میں اپنی ذاتی مثال دوں گا میں نے 1971ء میں سی ایس ایس کا امتحان دیا اور میری پورے پاکستان میں چودھویں پوزیشن آئی ،والدین بڑے خوش تھے کہ بیٹا ڈپٹی کمشنر بنے گا۔ سول سروس کی اس سال دس اسامیاں تھیں۔ ان میں سے دو آل پاکستان میرٹ کے لیے مختص تھیں باقی ماندہ آٹھ اسامیوں میں سے چار پنجاب کے حصے میں آئیں اور چار باقی صوبوں کے۔ مجھے سول سروس نہیں مل سکی لیکن مجھ سے کم نمبر لینے والے امیدواروں کو مل گئی کیونکہ ان کا تعلق پنجاب سے نہیں تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ پنجاب میں پیدا ہونے کے نقصانات بھی ہوسکتے ہیں۔ ایک اور تناقض (Contradiction)یہ سامنے آیا کہ چھوٹے صوبوں کے ڈومیسائل کا فائدہ اٹھانے والوں میں سے بھی اکثر وبیشتر نے تعلیم لاہور اور کراچی کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پائی تھی یعنی ان کا تعلق کسی طرح بھی پس ماندہ طبقے سے نہیں تھا۔ کوٹہ سسٹم کی کرامات کی بدولت اچھی پوزیشن لینے کے باوجود مجھے فارن سروس ہی مل سکی۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ دیار غیر میں سبزہلالی پرچم لہرانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ فیصلہ صادر کرتے وقت وفاقی کابینہ نے دلیل یہ دی ہے کہ کوٹہ سسٹم کی مدت میں توسیع سے قومی یکجہتی میں اضافہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پچھلے چالیس سال میں کوٹہ سسٹم کی بدولت قوم شیروشکر ہوگئی ہے۔ چھوٹے صوبوں میں بڑے بھائی کی عزت واحترام بڑھا ہے۔ کراچی اور نواب شاہ کے درمیان محبت کا رشتہ بے حد مضبوط ہوا ہے۔ زمینی حقائق دیکھیں تو یہ دلیل بے حد بودی اور کھوکھلی معلوم ہوتی ہے۔ دیہی اور شہری سندھ کے کوٹہ سسٹم نے صوبے کو ذہنی طورپر تقسیم کیا ہے۔ اب حکومت سندھ کو ضرورت ہی نہیں کہ لاڑکانہ اور سانگھڑ کے تعلیمی اداروں کو کراچی اور حیدرآباد کی سطح پر لانے اور ان کا معیار بلند کرے۔ بھٹو صاحب نے دیہی سندھ کا کوٹہ مقرر کیا تو جنر ل ضیاء الحق کیوں پیچھے رہتے۔ جنرل صاحب نے افواج پاکستان کا دس فیصد کوٹہ مقرر کردیا۔ ہر کوئی اپنے حلقہ ٔ انتخاب کو خوش رکھنا چاہتا ہے۔ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ کوٹہ سسٹم کا اصل مقصد محروم طبقوں کی معاونت ہوتا ہے ۔ کیا افواج پاکستان محروم طبقے سے تعلق رکھتی ہیں جواب میں آپ کی صوابدید پر چھوڑتا ہوں۔ اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ فوجی افسر سول ملازمتوں میں اپنے محکمانہ امتحان کے ذریعے آتے ہیں وہ سی ایس ایس کے مقابلے کے امتحان میں نہیں بیٹھتے دوسرے لفظوں میں وہ سول سروس میں عقبی دروازے سے داخل ہوتے ہیں۔ کوٹہ سسٹم کا واضح نقصان یہ ہوا ہے کہ لائق طالب علم اب مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کی بجائے یا بیرون ملک چلے جانے میں یاپرائیویٹ سیکٹر میں سروس کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا ہماری بیوروکریسی کی کوالٹی تیزی سے گری ہے۔ اب کوئی ظفر الاحسن یا روئیداد خان یا اجلال حیدر زیدی یا کنورادریس بیوروکریسی میں داخل نہیں ہورہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو باصلاحیت تھے اور ان کی وجہ سے پاکستان نے ایوب خان کے زمانے میں تیزی سے ترقی کی اور ایشیائی ممالک کے لیے ماڈل بن گیا۔ آج ہماری بیوروکریسی کمزور ہے اور اس کی بڑی وجہ کوٹہ سسٹم ہے۔ لہٰذا پاکستان آج ایشیا کا مرد بیمار بن چکا ہے۔ یہاں یہ بات بھی محل نظر رہے کہ ہمسایہ ملک ہندوستان میں مرکزی ملازمتوں میں کوئی صوبائی کوٹہ سسٹم نہیں ہے۔ وہاں کچھ حصہ نچلی ذاتوں مثلاً اچھوت شودر اور دالیت کے لیے ضرور مختص کیا گیا ہے لیکن بیشتر ملازمتیں صرف اور صرف میرٹ پر دی جاتی ہیں نتیجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان کے بیوروکریٹ کی صلاحیت اپنے پاکستانی ہم منصب سے بہتر ہے۔ تیس چالیس سال پہلے ہمارے بیوروکریٹ اگر ان سے بہتر نہیں تو ہم پلہ ضرور تھے۔ لیکن اس ستم ظریفی کا کیا کیا جائے کہ ہم اپنا حلیہ خود ہی بگاڑنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس دلدل سے کیسے نکلا جائے۔ اس کے لیے تجاویز مندرجہ ذیل ہیں۔ اولاً تمام مرکزی ملازمتوں کا اسی فیصد اوپن میرٹ کے ذریعے دیا جائے۔ اس سے امیدواروں میں صحت مند مقابلے کا رجحان بڑھے گا۔ بہتر لوگ بیوروکریسی میں آئیں گے۔ ہمارا طرز حکومت بہتری کی طرف گامزن ہوگا۔ دوئم یہ کہ افواج پاکستان کا دس فیصد کوٹہ ختم کیا جائے یہ جنرل ضیاء الحق کی باقیات میں ہے۔ البتہ فوجی افسر اگر سی ایس ایس کا امتحان دینا چاہیں تو انہیں اس کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ سوئم یہ کہ باقی ماندہ بیس فیصد کوٹہ کے ذریعہ دیہی سندھ، بلوچستان اور قبائلی علاقوں کو دیا جائے۔ اس میں دس فیصد حصہ دیہی سندھ کا ہو، پانچ فیصد بلوچستان کا اور پانچ فیصد قبائلی علاقوں کا۔ چہارم یہ کہ اس رعایت کی مدت صرف دس سال ہو اور اس دوران دیہی سندھ ،بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں معیار تعلیم بلند کرنے پر پوری توجہ مرکوز کی جائے۔ گر قبول افتد زہے عزو شرف

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں