"JDC" (space) message & send to 7575

کراچی اور بیروت

بیروت 1975ء تک صحیح معنوں میں عروس البلاد تھا۔ ہمارا کراچی 1980ء کی دہائی تک روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ پاکستان کے کونے کونے سے لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں کراچی جاتے تھے کہ صنعت اور تجارت ترقی کی طرف گامزن تھیں۔ بیروت اور کراچی دونوں سمندر کے کنارے واقع ہیں۔ بیروت عرب میڈیا کا ہیڈ کوارٹر ہوا کرتا تھا۔ بڑے بڑے عرب بنک اور مالی ادارے بیروت میں تھے۔ ایک زمانے میں تمام بڑی بڑی ہوائی کمپنیوں کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ کراچی اور بیروت سے ضرور گزریں۔ میں جب 1972ء میں پاکستان فارن سروس میں سیلیکٹ ہوا تو دیکھا کہ کئی ہم کاروں میں بیروت کی پوسٹنگ لینے کی قوی خواہش ہے ۔ لہٰذا بیروت کی پوسٹنگ لینے کے لئے سفارش کرانا یا کوشش کرنا عام سی چیز تھی۔ بیروت کئی لحاظ سے بہت منفرد شہر تھا۔ یہاں کی امریکن یونیورسٹی میں پڑھنے کے لئے دنیا جہان سے لوگ آتے تھے ۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد بلاد شام کے چار ٹکڑے ہوئے اور لبنان فرانس کے حصے میں آیا۔ فرانس نے مارونی عیسائیوں کے غلبے کو دستوری شکل دلوا دی۔آج بھی لبنان کا صدر صرف مارونی عیسائی ہی بن سکتا ہے ،اگرچہ آبادی کی ہیئت ترکیبی خاصی بدل گئی ہے ۔ کراچی میں 1947ء میں لاکھوں مہاجرین آ کر آباد ہوئے جبکہ بیروت میں لاکھوں فلسطینی مہاجر 1948ء میں آ کر خیمہ بستیوں میں رہنے لگے ۔ جب آبادی کی ہیئت ترکیبی بدل جائے اور اسے سیاسی طور پر قبول نہ کیا جائے تو نتائج منفی نکلنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ 1970ء میں فلسطینی تنظیم پی ایل او کو اردن سے نکالا گیا تو اسے بیروت کی آغوش میں پناہ ملی۔ ساتھ ہی کافی اسلحہ بھی لبنان میں آ گیا۔ کراچی میں یہی صورتحال قبائلی علاقوں میں ہونے والے آپریشن کے بعد نظر آئی۔ فرق اتنا ہے کہ قبائلی سو فیصد پاکستانی ہیں جبکہ بیروت کے کیمپوں میں رہنے والے فلسطینی لبنانی شہری نہیں ہیں۔ ہجرت کی وجہ سے آبادی میں بے پناہ اضافے نے دونوں شہروں کے حْسن اور امن وامان پر منفی اثرات مرتب کئے۔ لبنان جیسا خوبصورت ملک ،جو سیاحت اور سرمایہ کاری کے لئے بے حد پرکشش تھا ،اپنی اہمیت کھونے لگا ۔کراچی سے بھی کچھ ملٹی نیشنل کمپنیاں دبئی منتقل ہونے کا سوچ رہی ہیں۔ سیاح اور سرمایہ صرف وہاں جاتے ہیں جہاں مکمل تحفظ حاصل ہو۔بیروت کا موسم کراچی کی طرح معتدل ہے۔ لیکن اگر جون جولائی میں گرمی زیادہ بڑھ جائے تو ایک گھنٹے میں قریبی پہاڑوں پر پہنچا جا سکتا ہے جہاں درجۂ حرارت بیروت سے بہت کم ہوتا ہے۔ بیروت کے اکثر متمول لوگوں کے پاس دوہری شہریت ہے اور میری اطلاع کے مطابق کراچی کے کئی امیر گھرانے بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ 1975ء میں جب لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو میں دمشق میں تھا۔ لبنان اور شام میں محبت اور اور نفرت کا عجیب سا تعلق تھا۔ شام آبادی کے لحاظ سے اور فوجی قوت میں بڑا تھا جبکہ لبنان ثقافت اور تعلیم میں آگے تھے۔ لیکن جب باہمی تصادم حد سے بڑھ جائے تو تعلیم کے فوائد ماند پڑنے لگتے ہیں ۔ کراچی میں شرح خواندگی باقی ملک سے زیادہ ہے لیکن پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد بیرون ملک ہجرت کرنے میں آگے آگے ہیں۔ فرانس ،امریکہ ،کینیڈا اور برازیل میں آپ کو ہر جگہ لبنانی ملیں گے۔ کراچی سے بھی کافی لوگ نقل مکانی کر کے امریکہ او ر کینیڈا میں آباد ہیں۔ مشہور شاعر اور ادیب خلیل جبران لبنانی تھا لیکن عمر کا زیادہ حصہ اس نے امریکہ میں گزارا۔ 1975ء میں سول وار شروع ہوئی اور بیروت دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ مشرقی حصے پر عیسائیوں کا غلبہ تھا جبکہ مغربی حصے میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ 1976ء میں لبنان کے صدر سلیمان فربخیہ کی درخواست پر شامی فوجیں لبنان میں داخل ہوئیں اور تیس سال وہاں رہیں ۔لبنانیوں نے بڑی مشکل سے شامی فوج سے چھٹکارا پایا۔ سول وار پندرہ سال تک چلی۔ پندرہ لاکھ لبنانی مارے گئے۔ پچیس لاکھ ہمیشہ کے لئے ملک چھوڑ گئے۔ 1990ء میں جب عرب لیگ نے معاہدہ طائف کے تحت لبنانی دھڑوں کی صلح کرائی تو میں سعودی عرب میں تھا۔ مسلمانوں کی اشک شوئی کرنے کے لئے پارلیمینٹ کی نشستوں میں تھوڑا سا ردوبدل ضرورہوا لیکن طاقت کا توازن وہی رہا جو عشروں پہلے فرانس کے زیر نگرانی بنا تھا۔ گویا پرنالہ وہیں پر رہا۔ بیروت میں تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے عسکری ونگ تھے۔ یہی صورت حال کراچی میں نظر آتی ہے۔ جب ریاست کمزور ہونے لگتی ہے تو نان سٹیٹ ایکٹرز خلا کو پورا کرتے ہیں۔ سول وار کے زمانہ میں بڑے بڑے عسکری ملیشیا حرکت میں آئے۔ عیسائی ملیشیا کو کتائب کہتے تھے۔ دروز لیڈر کمال جنبلاط کا اپنا عسکری ونگ تھا۔ فلسطینی خود ایک بڑی عسکری قوت تھے۔ ذاتی ملیشیا ہو یا سیاسی پارٹی کا عسکری ونگ، ان کو چلانے کے لئے مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ چنانچہ بیروت کی بھتہ خوری میں سیاسی جماعتیں اور بااثر افراد سب شریک تھے۔ فلسطینی ملیشیا مسلمانوں کا ساتھ دے رہا تھا۔ جیسے ہی مسلمانوں کا پلڑا بھاری ہوا تو 1982ء میں بین الاقوامی قوتیں لبنان میں کود پڑیں۔ اسرائیلی فوج نے باقاعدہ فلسطینی کیمپوں پر حملہ کیا۔ یاسر عرفات کو بیروت چھوڑنا پڑا۔ میں 1977ء میں فیملی سمیت بیروت گیا۔ وہاں طالب خورشید میر سفارت خانہ میں فرسٹ سیکرٹری تھے۔ ان کے ہاں قیام کیا ۔خواتین نے حسب عادت شاپنگ کا پروگرام بنا لیا۔ میں انہیں پانی کار میں بازار لے گیا۔ شاپنگ جاری تھی کہ آس پاس سے گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں چنانچہ فیصلہ کیا کہ شاپنگ چھوڑ کر فوراً واپس گھر چلیں ۔ دکاندار بڑے تحمل سے بولا ’’یہ لڑائی پچھلی گلی میں ہو رہی ہے آپ آرام سے شاپنگ کریں۔ ‘‘کچھ ایسی ہی صورتحال کراچی کی ہے۔ لیاری میدان جنگ بنا ہوا ہو تو کلفٹن والوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ پچھلے دنوں اخبار میں پڑھا کہ لبنانی حکومت بیروت کے ہوائی اڈے کو شفٹ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔وجہ یہ بتائی گئی کہ ائیر پورٹ کو جانے والی سڑک کے اردگرد حزب اللہ ملیشیا کے حامی موجود ہیں ،لہٰذا راستہ غیر محفوظ ہے۔ فوراً دل سے دعا نکلی کہ اے اللہ میرے کراچی کا بھی وہی حال نہ ہو جو بیروت کا ہوا ہے۔ بیروت میں 1991ء کے بعد سے نسبتاً امن ہے لیکن شہر کے زخم ابھی بھرے نہیں۔ 1975ء سے پہلے والے بیروت کی واپسی نہیں ہو سکی۔ لوگ اب بیروت پوسٹنگ کے لئے سفارش نہیں کراتے ۔ 1991ء میں لبنان میں پرائیویٹ ملیشیا ختم کر دیئے گئے ، لیکن حزب اللہ کو اس عمل سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ کراچی میں اگر دائمی امن قائم کرنا ہے تو کسی بھی شخص یا جماعت کو قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہئے۔ سب قانون کا یکساں احترام کریں گے تو قانون کی عمل داری ہو گی۔ اور یہ تب ممکن ہو گا جب پولیس میں نیک نیتی ہو گی اور جرائم ختم کرنے کا قوی ارادہ بھی۔ رینجرز کا وجود کراچی کے مسئلہ کا دائمی حل نہیں۔ کراچی کو عسکری ونگوں سے پاک کرنا ضروری ہے اور اس عمل کا آغاز ہو چْکا ہے لیکن کراچی کو،بلکہ سارے ملک کو اسلحہ سے پاک کرنا ضروری ہے۔ اسلحہ صرف فوج اور پولیس کے پاس ہونا چاہیے۔ امید ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے کراچی کی نمائندہ سیاسی جماعتوں کو ایک نیا رول ملے گا اور حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ ہم کراچی کو بیروت بننے سے اب بھی روک سکتے ہیں ۔ ہمارا کراچی دوبارہ روشنیوں کا شہر بن سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں