"JDC" (space) message & send to 7575

ایرانی عبوری معاہدہ

ایرانی جوہری پروگرام اور اقتصادی پابندیوں کے بارے میں جنیوا میں طے پانے والا معاہدہ میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔حیرت اس لیے ہوئی کہ ابھی چند ہفتے پہلے مذاکرات کا ایک دور ناکام ہوچکاتھا۔یہ مذاکرات کافی عرصے سے ایران اور چھ اہم ممالک کے درمیان چل رہے تھے۔ ان چھ ممالک میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی شامل ہیں۔ایران جوہری افزودگی کا حق بیس فیصد تک رکھنا چاہتا تھا لیکن مغربی ممالک عمومی طور پر اور فرانس خصوصی طور پر ایران کو یہ حق دینے کو تیار نہ تھے۔میری حیرت خوشگوار اس لیے ہے کہ ایران پاکستان کا بے حد اہم ہمسایہ ہے۔ایران اور امریکہ کی کشیدگی پاکستان کے لیے ہمیشہ باعث تشویش رہی ہے اور اب امید ہوچکی ہے کہ ایران اور امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی روابط بہتری کی طرف جائیں گے اور اگر یہ صورت حال قائم رہی تو عین ممکن ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔
آئیے ان اسباب کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے یہ عبوری معاہدہ ممکن ہوسکا۔ایران کے بارے میں صدر اوباما،جارج بش کے مقابلے میں اعتدال پسند ہیں۔اوباما نے اسرائیل کی شدید خواہش کے باوجود ایران پر حملہ نہیں کیا۔ادھر ایران میں صدر حسن روحانی کے آنے کے بعد ایک خوشگوار تبدیلی آئی ہے۔ صدر احمدی نژاد مغرب کے بارے میں بہت سخت اور دوٹوک رویہ رکھتے تھے جبکہ حسن روحانی کے لیے ایران کی سیاسی تنہائی کو ختم کرنا اہم ہے۔ انہیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ اقتصادی پابندیوں سے ایران کی معیشت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ ایران کی تیل کی برآمدات کم ہوئی ہیں۔نوجوانوں میں بے روزگاری پچاس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ایرانی ریال کی قیمت خاصی گرگئی ہے۔ایران کے اپنے اربوں ڈالر مغربی مالی اداروں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔یہ پابندیاں اتنی شدید تھیں کہ ایرانی والدین کے لیے اپنے بچوں کی بیرون ملک فیس بھیجنا دشوار ہوگیا تھا۔ ان اقتصادی مشکلات سے نکلنے کے لیے ازبس ضروری تھا کہ ایران پر عائد پابندیوں سے نکلاجائے اور جوہری پروگرام کے حوالے سے کوئی ایسا حل نکالا جائے جو ایرانی عوام کے لیے بھی قابل قبول ہو اور مغربی ممالک کے لیے بھی۔
ایران آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے سپر پاورز میں شمار ہوتا تھا۔اسی وجہ سے ایران کی قومی انا بہت بڑی ہے۔ ایٹمی پروگرام ایران کو پھر سے طاقت بنانے کی نیت سے شروع کیاگیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایران کاا یٹمی پروگرام شاہ کے زمانے میں امریکی سپورٹ سے شروع ہوا۔1979ء کے انقلاب کے بعد پروگرام کو بند کردیاگیا۔جب اسرائیل نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تو ایرانی لیڈروں کو یہ پروگرام دوبارہ شروع کرنے کا خیال آیا۔1998ء میں بھارت اور پاکستان دونوں نے کامیاب ایٹمی تجربے کیے۔عالمی مسابقت ایران کی قومی نفسیات کا حصہ ہے اور یہ سوچ کچھ اس طرح ہے کہ ہم کسی سے کم نہیں ہیں۔چنانچہ ایران نے روٹس کی مدد سے خفیہ طور پر ایٹمی پروگرام کو تیز کیا۔ لیکن امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو خبر ہوگئی۔آپ کو یاد ہوگا کہ آج سے تقریباً دس سال پہلے عالمی ادارے IAEA نے ایرانی خفیہ ایٹمی پروگرام کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا تھا۔چند سال پہلے جب بوشہر میں واقع ساڑھے تین سو میگا واٹ کے ایٹمی پاور پلانٹ نے کام شروع کردیا تو اسرائیل اور خلیجی ممالک میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ایٹمی پروگرام ایران کی مغربی ممالک کے
سامنے ڈٹ جانے کی پالیسی کا مظہر بن گیا۔اس پروگرام کو ایرانی قوم کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ جنیوا میں ہونے والے عبوری معاہدے کے اہم نکات کیا ہیں۔ یہ معاہدہ عبوری اس لیے ہے کہ اس کی مدت چھ ماہ ہے۔ لیکن آئندہ یہی معاہدہ ایران اور مغربی ممالک کے تعلقات کو بہتری کی طرف لے جاسکتا ہے۔معاہدے کی رو سے ایران نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس عرصہ میں پانچ فیصد سے زیادہ یورینیم کی افزودگی نہیں کرے گا۔ یہ یاد رہے کہ اس سے پہلے ایران بیس فیصد تک افزودگی کرچکا ہے۔ اب اس افزودہ یورینیم کو کیمیائی عمل سے ایسی دھات میں تبدیل کردیاجائے گا جو افزودگی کے قابل نہ ہو۔ایران نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ نئے سینٹری فیوج نہیں لگائے گا۔اراک کے مقام پر واقع جوہری پلانٹ جو تعمیر کے مراحل میں ہے وہاں کام روک دیاجائے گا۔ اراک میں نہ بھاری پانی بنے گا اور نہ ہی پلوٹونیم تیار ہوگی۔اور اب یہ دیکھتے ہیں کہ ایران کو اس '' اچھے کردار‘‘ کے عوض کیا ملے گا۔ اولاً اقتصادی پابندیوں میں قدر ے کمی کردی گئی ہے۔ ایران کو اپنی تیل کی برآمدات کے عوض چار اعشاریہ دوبلین ڈالر ملیں گے۔چھ ماہ تک ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد نہیں ہوں گی۔ بشرطیکہ ایران اس عبوری معاہدے کی پاسداری کرے۔
امریکی حکومت نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ معاہدہ سب کی جیت ہے۔ایرانی چونکہ ہزار ہا سالوں سے سفارت کاری کررہے ہیں لہٰذا وہ بلی اور چوہے کے کھیل سے بخوبی واقف ہیں۔ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے مذاکرات برسوں سے چل رہے ہیں۔امریکہ کو یہ خدشہ تھا کہ مذاکرات کو طوالت دیتے دیتے ایران ایٹمی ہتھیار بنالے گا۔ اب صدر اوباما خوش ہیں کہ کم از کم آئندہ چھ ماہ تک ایسا نہیں ہوسکے گا۔
اسرائیل نے عبوری معاہدے کو '' تاریخی غلطی ‘‘ قرار دیا ہے۔ خلیجی ممالک پہلے امریکہ کی شام کے حوالے سے بدلتی ہوئی پالیسی پر نالاں تھے اب اس عبوری معاہدے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے لیکن سب سے دلچسپ پوزیشن فرانس کی رہی۔یورینیم کی افزودگی کی شرح کو پانچ فیصد تک لانے میں فرانس کا اہم رول ہے۔ فرانس اس بات پر بھی بضد تھا کہ اراک کے مقام پر واقع ایٹمی تنصیبات کو سرے سے ختم کردیاجائے۔ مندرجہ ذیل سطور میں فرانس کے اس سخت رویے کی وجوہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیان شام اور لبنان فرانس کے قبضے میں رہے۔1970ء کی دہائی میں جب میں دمشق میں تھا تو وہاں پڑھے لکھے شامی سب فرانسیسی جانتے تھے۔ فرانس کا الجزائر ، مراکش ، تیونس ، شام اور لبنان میں خاصا اثرونفوذتھا۔ پچھلے دو عشروں میں شام اور لبنان میں ایران کا اثرورسوخ بڑھا ہے۔ فرانس کی وہاں وہ بات نہیں رہی ۔ لبنان میں حزب اللہ ایران کی حامی ہے۔دمشق کے علوی حکمران بھی ایران کے خاصے قریب ہیں اور ایک عرصے سے ہیں۔فرانس اسلحہ کا بڑا ایکسپورٹر ہے اور اسلحہ امپورٹ کرنے والے ملک اب سعودی عرب اور امارات ہیں کیونکہ مصر اور شام میں اب اسلحہ امپورٹ کرنے کی مالی سکت نہیں رہی۔ خلیجی ممالک میں اثرورسوخ بڑھانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایران کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیاجائے۔دوسری وجہ جو نظر آتی ہے وہ فرانس کے وزیر خارجہ لوران فابیوس ہیں جو مذہب کے اعتبار سے یہودی ہیں اور اپنے ملک میں ایک عرصے سے بہت بااثر سیاسی شخصیت ہیں۔
ایرانی قیادت اپنے عوام کو یہ باور کرارہی ہے کہ عبوری معاہدہ ایران کی اصولی فتح ہے ۔دلیل یہ ہے کہ پُرامن مقاصد کے لیے ایران کے ایٹمی موقف کو مان لیاگیا ہے۔ایران کو یہ حق حاصل رہے گا کہ وہ اپنی سرزمین پر ایک حد کے اندر افزودگی کے عمل کو جاری رکھے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ کافی عرصہ تک بین الاقوامی تجویز یہ تھی کہ ایران کی یورینیم کو کسی دوسرے ملک میں بین الاقوامی نگہداشت کے تحت افزودہ کیا جائے اور روس اپنی سرزمین پر یہ عمل کرنے کو تیار تھا۔
امریکہ اور یورپی یونین کے اہم ممالک اس بات پر خوش ہیں کہ سخت قسم کی اقتصادی پابندیاں سود مند رہی ہیں اور ایران اپنی پوزیشن تبدیل کرنے پر مجبور ہوا ہے۔حکومت پاکستان نے عبوری معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ میری رائے میں اس معاہدے سے بین الاقوامی کشیدگی کم ہوگی جو کہ خوش آئند ہے۔معاہدے پر دستخط ہوتے ہی عالمی منڈی میں تیل کی قیمت قدرے گری ہے اور یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ ایرانی قیادت نے جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیا ہے۔ پاکستانی قیادت کو بھی چاہیے کہ ایرانی سفارت کاری سے کچھ سبق سیکھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں