"JDC" (space) message & send to 7575

لالچ کی بجلی

کیا آپ کو علم ہے کہ دنیا بھر کے دریافت شدہ تیل کے ذخائر صرف ساٹھ سال کے لیے ہی کافی ہیں۔ تیل کی طلب میں ہر سال دو فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ تیل کے ایک تہائی عالمی ذخائر مشرق وسطیٰ میں ہیں اور وہاں کے کنوئیں خاصے پرانے ہوگئے ہیں۔ نئے ذخائر اب بہت کم دریافت ہورہے ہیں۔ تیل کی موجودہ عالمی پیداوار تقریباً نوے ملین بیرل یومیہ ہے اور یومیہ طلب تقریباً چھیاسی ملین بیرل ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے تین چار سال میں تیل کی درآمدی قیمت دوگنی ہو جائے گی یعنی دوسو ڈالر فی بیرل کو کراس کرجائے گی۔پچھلے چند سالوں میں فرنس آئل کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا وافر حصہ فرنس آئل سے ہی بنتا ہے۔ اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان کی تیل کی درآمدات سو ارب ڈالر سالانہ ہوجائیں گی۔ تیل درآمد کرنے کے لیے اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا۔ ہماری برآمدات تو اس رقم کا عشرعشیر بھی نہیں اور ہم ڈالر چھاپنے سے بھی رہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنے دریائوں سے ضرورت کی بجلی آسانی سے پیدا کرسکتا ہے۔ یہ بجلی سستی بھی ہوگی اور ماحول دوست بھی۔ لیکن ہم نے تربیلا اور منگلا کے بعد کوئی بڑا ڈیم بنایا ہی نہیں۔ ہر ذی شعور پاکستانی کی طرح توانائی کے شعبے میں مجھے بھی دلچسپی ہے اس لیے کہ سستی اور وافر توانائی کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔ واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک صاحب کا تعلق نوشہرہ سے ہے۔ خیبر پختونخوا میں کالاباغ ڈیم کے خلاف یہ دلیل دی گئی کہ اس منصوبے سے نوشہرہ زیر آب آجائے گا۔ شمس الملک بارہا کہہ چکے ہیں کہ نوشہرہ میرا اپنا شہر ہے اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ لیکن سیاست دان کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرکے اپنی دکان چمکاتے رہے ۔ایک نشست میں شمس الملک صاحب نے دلچسپ کہانی سنائی۔ کہنے لگے کہ کالاباغ ڈیم سے بلوچستان کو زیرو فیصد نقصان بھی نہیں اس لیے کہ اس کا فائدہ یا نقصان صرف تین صوبوں کو ہوگا مگر بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے بھی اس اہم پراجیکٹ کے خلاف قرار داد پاس کردی۔ جب شمس صاحب نے بلوچی بھائیوں سے استفسار کیا تو پتہ چلا کہ یہ قرار داد ایک سندھی نیشنلسٹ سیاست دان کے کہنے پر پاس کی گئی۔ کیا آپ کو علم ہے کہ دنیا بھر میں کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے پہلے نمبر پر امریکہ ہے اور دوسرے نمبر پر وطن عزیز پاکستان ۔ یہ ذخائر 1988ء میں دریافت ہوئے اور ہم آج تک تھر کے ذخائر سے قابل ذکر بجلی نہ بناسکے ۔ ملک کے نامور سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے تھرکول سے زیر زمین گیس بنانے کا منصوبہ بنایا لیکن نتیجہ کیا نکلا۔ اس منصوبے پر کتنا خرچ آیا یہ عوام کو معلوم نہیں حالانکہ اس بے سود پراجیکٹ پر پیسہ عوام کا ہی لگا۔بجلی کے معاملے میں ہمارا رویہ خاصا غیر سنجیدہ رہا ہے۔ غالباً 2005ء کی بات ہے جنرل مشرف کا زمانہ تھا اور واپڈا کے چیئرمین بھی ایک جرنیل تھے۔ موصوف نے بھارت کو باقاعدہ پاکستان سے بجلی برآمد کرنے کی پیشکش کردی۔ جرنیل صاحب کو یہ علم نہ تھا کہ دو سال بعد پاکستان خود اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔تیل کے محدود عالمی وسائل کا پڑھ کر آپ کو یہ خیال ضرور آیا ہوگا کہ آپ کی اگلی نسلیں شاید کاریں نہ چلاسکیں یا اس صدی کے آخری تک دنیا کے تمام کارخانے بند ہوجائیں۔ اس بات کا احتمال بہت کم ہے اس لیے کہ کوئلے کے دریافت شدہ عالمی ذخائر دو سو سال تک ہماری انرجی کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں اور پھر شمسی توانائی‘ ہوائی توانائی اور آبی توانائی تو نہ ختم ہونے والے وسائل ہیں جو قدرت نے ہمیں دیے ہیں پچھلے دنوں میری ایک مانے ہوئے پاکستانی انرجی ایکسپرٹ سے ملاقات ہوئی۔ مجھے وہ خاصے پریشان نظر آئے‘ سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ پاکستان انرجی کے وسائل سے مالامال ہے لیکن ملک میں غربت کا راج ہے۔ پاکستان میں کوئلے کے علاوہ شیل گیس کے بھی بڑے ذخائر ہیں لیکن ان سے استفادہ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی صرف امریکہ کے پاس ہے۔ اسی طرح سمندر سے تیل نکالنے کی کامیاب ٹیکنالوجی بھی مغربی ممالک کے پاس ہے۔ پاکستان غیر ملکی ٹیکنیکل امداد کے بغیر تھرکول سے بھی مستفید نہیں ہوسکتا۔ اس صورتحال میں جب ہمیں ٹیکنالوجی ترقی یافتہ ممالک سے درکار ہے‘ ملک تنہائی کی طرف جارہا ہے۔ سیاسی لیڈر عوام سے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے خلاف نعرے لگاکر ثواب دارین حاصل کریں۔
اقتصادی پالیسیوں پر جب سیاست غالب آجائے تو گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ جب خیرہ کرنے والے بیانات صرف سیاسی اغراض کے لیے دیے جائیں تو قوم کو تو نقصان ہوتا ہی ہے بیان دینے والے کی اپنی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ یادش بخیر آپ کو راجہ پرویز اشرف کے لوڈشیڈنگ کو ختم کرنے سے متعلق بیان یاد ہوں گے۔ راجہ صاحب قصہ پارینہ ہوچکے مگر 
لوڈشیڈنگ کی صورت میں عوام پر بجلی روزانہ گرتی ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہی لے لیجیے۔ ایران پر سخت پابندیاں عائد تھیں حکومت پاکستان نوٹ چھاپ کر اپنے اخراجات پورے کررہی تھی۔ پاکستان کے پاس بین الاقوامی معیار کے مطابق ساٹھ انچ قطر والی پائپ لائن بچھانے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال دگرگو ں تھی۔ کوئی ملٹی نیشنل انرجی کمپنی امریکہ کے ڈر سے پائپ لائن میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہ تھی۔ لیکن الیکشن قریب تھے ۔ پاکستانی سادہ لوح عوام کو یہ باور کرانا تھا کہ حکومت وقت کو انرجی وسائل کی بہت فکر ہے چنانچہ بہت ہی عجلت میں ایران کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے گئے اور اس معاہدے میں یہ شق بھی شامل ہے کہ اگر پاکستان نے اپنے حصے کی پائپ لائن بنانے میں تاخیر کی تو اسے بھاری ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں یہ ہرجانہ ان لیڈروں سے وصول کرنا چاہیے جنہوں نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
عثمان امین الدین عالمی سطح پر مانے ہوئے انرجی ایکسپرٹ ہیں۔ جنرل مشرف کے زمانے میں پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیر تھے۔ عثمان صاحب اس بات کا برملا اقرار کرتے ہیں کہ سی این جی گیس ٹرانسپورٹ کو دینے کا فیصلہ انہی کے زمانے میں ہوا تھا۔ مگر یہ گیس صرف پبلک ٹرانسپورٹ یعنی بسوں ، ٹرکوں اور ٹیکسیوں تک محدود رہنی تھی۔ لیکن عثمان صاحب کے جانے کے بعد پرائیویٹ کاروں کو سی این جی دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اصل پالیسی کا مقصد پبلک ٹرانسپورٹ کو سستا بنانا تھا لیکن بعد میں پالیسی کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ گزشتہ چند سالوں میں بے شمار سی این جی سٹیشن منظور کیے گئے جبکہ ملک میں گیس کی شدید قلت تھی۔ اوگرا نے ان حالات میں نئے گیس سٹیشن لگانے کی منظوری کیوں دی۔ ہمارے آشیاں پر لالچ کی کتنی بجلی گری‘ یہ باتیں شاید توقیر صادق کو معلوم ہوں۔ وہ اگر بے قصور ہیں تو انہیں رہا کیاجائے بصورت دیگر قرار واقعی سزا ملے اور اس ڈرامے کے تمام کردار بے نقاب کیے جائیں۔ کوئلہ سے بنائی گئی بجلی کا ایک یونٹ تقریباً پانچ روپے میں پڑتا ہے جبکہ وہی بجلی فرنس آئل سے بنائی جائے تو لاگت تین گنا یعنی پندرہ روپے ہوتی ہے۔ ملک کا واحد کوئلہ سے چلنے والا پاور پلانٹ لاکھڑا میں لگایا گیا تھا۔ تیل اور گیس کی درآمد اور تجارت سے وابستہ لابی بہت ہی مضبوط اور توانا ہے۔ لاکھڑا کو دریائے سندھ سے پانی ملنے کا مسئلہ التو میں پڑا رہا۔ رہی سہی کسر مقدمے بازی نے پوری کردی۔ یاد رہے کہ ہندوستان میں 53فیصد بجلی کوئلہ سے پیدا ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں کوئلہ سے پیدا ہونے والی بجلی نہ ہونے کے برابر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تیل کی تجارت سے وابستہ لابی سستی بجلی کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ کچھ سال ہوئے چین کی شنوا الیکٹرک کمپنی پاکستان میں کوئلے سے بجلی بنانا چاہتی تھی۔ اس کمپنی کے حکومت پاکستان سے مذاکرات ہوئے اور پھر اچانک شنوا نے فیصلہ کیا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کی جائے ۔ باخبر ذرائع بتاتے ہیں کہ شنوا سے بھاری رقم بطور کمشن مانگی گئی۔ دروغ برگردن راوی! 
اس ملک کے پس ماندہ رہنے کے اسباب جب ایمانداری سے لکھے جائیں گے تو ان میں لالچ سرفہرست ہوگا۔ کرپشن نے ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹا ہے۔ ہمارے آشیاں پر ہمارے ہی لالچ کی بجلی گری ہے۔ اگر ہمیں ملک و قوم کا درد ہوتا تو آج ہمارا ملک روشن ہوتا، ترقی یافتہ ہوتا! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں