"JDC" (space) message & send to 7575

کیا مصر پاکستان بن رہا ہے؟

مصر کے آرمی چیف جنرل عبدالفتاح السیس نے کہاہے کہ اگر عوام نے اصرار کیا تو وہ صدارتی انتخاب میں امیدوار ہوں گے۔ یہ بیان پڑھا تو مجھے پاکستان کے خود ساختہ فیلڈ مارشل بہت یاد آئے۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ریفرنڈم بھی نظر میں گھوم گئے۔ جنرل ضیاء والے ریفرنڈم کے بارے میں حبیب جالب نے کہا تھا ؎
شہر میں ہُو کا عالم تھا
جِن تھا یا ریفرنڈم تھا
میں نے یہ کالم لکھنا شروع کیا۔ تو مصر میں نئے آئین پر ریفرنڈم ہو رہا تھا۔ قاہرہ کی سڑکوں پر بکتر بند گاڑیاں پھر رہی تھیں۔ اخوان نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا ہے۔ قاہرہ کی ہوا میں آنسو گیس کے سفید گولے نظر آئے۔ خلائی اقمار نے واقعی دنیا کو ایک چھوٹا سا گائوں بنا دیا ہے۔ یہ کالم ختم کرنے سے پہلے میں اپنے مصری دوستوں سے فیس بُک پر بات ضرور کروں گا تاکہ صحیح صورتِ حال کا علم ہو سکے۔
مصریوں کو ریفرنڈم پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور میڈیا کو دستور کی شِقوں پر بحث کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ آپ اس بات پر شُکر ادا کریں کہ پاکستان میں آزادیِ رائے عرب ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ مصر کے نئے آئین میں مذہبی جماعتوں کو سیاست کی اجازت نہیں ہو گی۔ مجھے پھر ایوب خان کا زمانہ یاد آیا کہ جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کی بات پوری سنجیدگی سے زیر غور تھی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ازھر شریف کے سرکاری عالم حکومت کے ساتھ ہیں۔ عدلیہ بھی فوج کی حمائت کر رہی ہے۔ یقینا پاکستان اب مصر سے آگے نکل چُکا ہے۔ ہمارے بھی ریفرنڈم بغیر کسی بحث مباحثہ کے ہوا کرتے تھے لیکن وہ زمانہ قصۂ پارینہ ہو چُکا ہے ۔
مجھے پچھلے دو تین سالوں میں کئی ایک مصری مبصّروں سے یہ سننے کا اتفاق ہوا کہ خدا کرے مصر کہیں پاکستان نہ بن جائے۔ بلکہ قاہرہ سے ایک دوست نے حال ہی میں مجھے کہا کہ جنرل ضیاء الحق کو پاکستانی مذہبی جماعتوں کی حمائت حاصل تھی جبکہ الازہر کے علماء بھی واضح طور پر حکومت وقت کے ساتھ ہیں لیکن ایک واضح فرق یہ ضرور ہے کہ مصر میں اخوان مضبوط اپوزیشن کے طور پر ابھرے ہیں۔ البتہ سلفی افکار رکھنے والی النور پارٹی حکومت کے ساتھ ہے۔ لہٰذا اسلامی سیاسی قوتیں واضح طور پر انتشار کا شکار ہیں۔
مصر مکمل طور پر بٹا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ریفرنڈم کے دوران مصری ٹی وی پر بار بار دکھایا گیا کہ عوام فوجیوں کو پھول دے رہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ اخوان ووٹ دینے والوں کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں۔ یہ تو آپ کو علم ہو گا کہ اخوان کو دہشت گرد پارٹی قرار دیا جا چُکا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب کسی سیاسی قوت پر سیاست اور پارلیمنٹ کے دروازے بند کر دیے جائیں تو وہ انتہا پسندی کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ الجزائر میں ہم نے یہ دیکھا ہے جہاں انتخابات کے نتائج تسلیم نہیں کیے گئے۔ یہی صورت حال فلسطین میں حماس کے باب میں نظر آتی ہے۔ مصر میں بھی اخوان کی سیاسی قوت کو غیر سیاسی طریقوں سے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس پالیسی کے نتائج لامحالہ منفی نکلیں گے۔
مصر کا نیا دستور پچاس نامزد لوگوں نے بنایا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پاکستان کا 1962ء کا آئین بھی معدودے چند لوگوں نے لکھا تھا جن میں وزیر قانون منظور قادر نمایاں تھے۔ مصر کا نیا دستور دراصل فوج کی سیاسی قوت کا ضامن ہے۔ مثلاً یہ بات صراحت سے لکھی گئی ہے کہ وزیر دفاع فوجی ہو گا۔ ملک میں ایک مقتدر اور باصلاحیت نیشنل دفاعی کونسل ہو گی جس کے چودہ ممبران میں سے نو باوردی ہونگے۔ آزادی رائے کے حق کو خاصا محدود کر دیا گیا ہے۔ دستور کا اصل مقصد فوج کی اعلیٰ اور برتر پوزیشن کو تحفظ دینا ہے۔فرعونوں کی سرزمین میں جمہوری روایت خاصی کمزور ہے۔ اور مصریوں کی کل تعداد کا ایک اچھا خاصا حصّہ آج بھی ایک طاقتور حکمران کی تلاش میں ہے جو ملک کو استحکام دے۔ آہنی ہاتھ سے مصر میں امن و امان قائم کرے اور حکومت کی رٹ کو بحال کرے۔ اور اس ہدف کے حصول کے لیے نئے آئین میں یہ شِق بھی شامل ہے کہ عام شہری پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانا ممکن ہو گا۔ ظاہر ہے کہ نیا آئین ایک مخصوص قسم کی محدود جمہوریت لے کر آئے گا جِس میں فوج کا واضح کردار ہو گا۔
میں نے ایک مصری دوست، جو اسلام آباد میں رہتا ہے، سے پوچھا کہ تم دو تین سال سے جو کہہ رہے ہو کہ خُدا کرے کہ مصر پاکستان نہ بن جائے تو تمہارا اصل مقصد کیا تھا۔ یہ سوال اس لیے بھی ضروری تھا کہ یہ مصری دوست مُرسی کے جانے کے بعد خوش نظر آتا ہے۔ شروع میں مجھے اُس کے اس جُملے سے یہ سمجھ آیا کہ وُہ اس خوف کا اظہار کرتا ہے کہ ملک پر پھر فوج حاوی نہ ہو جائے لیکن معاملہ الٹا نکلا، وہ تو فوج کے غلبے سے بہت خوش ہے۔
اور آئیے اب لوٹتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف کہ کیا مصر پاکستان بن رہا ہے۔ مجھے اگلے چار پانچ سال مصر میں عدم استحکام کی کیفیت نظر آ رہی ہے۔ لیکن مصر میں حالات اتنے بے قابو نہیں ہوں گے جتنے پاکستان میں ہو گئے ہیں۔ اُس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ مصر کی قومی شناخت صدیوں سے ہے۔ مصر فرعونوں کے زمانے میں بھی ایک ملک تھا، لہٰذا مصر کو کسی علیحدگی پسند رجحان سے خطرہ نہیں ہے۔ نسلی اور لسانی لحاظ سے بھی مصر ایک ہی اکائی ہے جبکہ پاکستان لسانی نقطہ نظر سے خاصا متنوع ہے۔ دوسرے مصر کا کوئی بھارت جیسا بڑا ہمسایہ نہیں ہے جس سے اُس کی مخاصمت ہو۔ مصر کا کوئی افغانستان جیسا ہمسایہ بھی نہیں ہے جہاں سے انتہا پسندی سرایت کر سکے۔
مصر میں سیاسی قوتوں پر فوج کا غلبہ اور میڈیا پر قدغن قطعاً مثبت پیش رفت نہیں۔ مصر نے عرب بہار کے تمام ثمرات تقریباً کھو دیے ہیں۔ دو سال پہلے میدان تحریر میں جنم لینے والے خواب بھی پورے نہیں ہوئے۔ لیکن نئے دستور کی رو سے اگلا صدر مطلق العنان نہیں ہو گا۔ اگلی حکومت تقریباً سول اور فوج کی جوائنٹ وینچر ہو گی۔ لہٰذا جمہوری سوچ اور اقدار کے حوالے سے مصر پاکستان سے بہت پیچھے ہو گا۔
انتہاپسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے مصری فوج بہت واضح سوچ رکھتی ہے جبکہ پاکستان اس مسئلے میں ابہام کا شکار رہا۔ خبریں یہ ہیں کہ سینا کے علاقے میں کچھ نان سٹیٹ ایکٹرز آزادیٔ فلسطین کا بہانہ بنا کر دہشت گردی کر رہے ہیں۔ یہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل قریب میں مصری سکیورٹی دستے ایسے عناصر کا قلع قمع کر دیں گے۔
چونکہ میں نے دریائے نیل کا پانی پیا ہوا ہے، لہٰذا میری یہ دعا ہے کہ مصر کے حالات پاکستان کی طرح دگرگوں نہ ہوں لیکن اخوان پر پابندی کے میں خلاف ہوں کیونکہ یہ غیر جمہوری فیصلہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں