"JDC" (space) message & send to 7575

دبئی چلو

ایک زمانہ ہوا ٹی وی پر علی اعجاز کا اسی عنوان سے مقبول ڈرامہ چلا تھا۔ دبئی جانے کا رجحان تب شروع ہوا تھا اور آج تک قائم ہے۔ آج کا دبئی تجارت اور سیاحت کا بھی مرکز ہے۔ 2020ء کی ورلڈ ایکسپو بھی یہیں سجے گی۔ یہ مقابلہ دبئی نے دنیا کے مانے ہوئے شہروں سے زیادہ ووٹ لے کر جیتا ہے۔ پاکستان سے آئی ایم ایف کے مذاکرات کا دور ہو تو فنڈ والے پاکستانی وزیر خزانہ کو کہتے ہیں کہ آپ دبئی آ جائیں‘ ہمیں پاکستان آنے سے ڈر لگتا ہے کہ امریکی حکومت کی ایڈوائزری بغیر ضرورت پاکستان کے سفر سے منع کر رہی ہے۔ تو دبئی میں ایسا کیا جادو ہے کہ ہر متمول پاکستانی وہاں گھر خرید چکا ہے یا خریدنے کی کوشش کر رہاہے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ تیل کی زیادہ تردولت دبئی کی بجائے ابو ظہبی کے پاس ہے ۔عرب امارات سات چھوٹی چھوٹی امارات پر مشتمل ہے۔ زیادہ رقبہ ریگستان پر مشتمل ہے۔ دبئی میں سال میں نو ماہ اچھی خاصی گرمی پڑتی ہے تو پھر کیا کشش ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا اپارٹمنٹ بھی وہاں ہے اور زرداری صاحب کا گھر بھی وہیں۔ سو سے زیادہ نیشنیلٹی کے لوگ وہاں رہتے ہیں۔ مسلمان‘ عیسائی‘ ہندو ‘ سکھ‘ بدھ مت سب ایک ساتھ رہتے ہیں اور اکٹھے کام کرتے ہیں۔اسلام آباد سے پی آئی اے کی فلائٹ دبئی پہنچی۔ یادش بخیر۔ یہ وہی پی آئی اے ہے جو کبھی پاکستان کا افتخار تھی۔ جب امارات نے اپنی ایئر لائن بنائی تو آغاز پی آئی اے کی تکنیکی مدد سے ہوا۔ امیگریشن ہال وسیع و عریض ہے۔ کوئی پانچ سو کے لگ بھگ لوگ لائنوں میں کھڑے ہیں۔ اکثریت پاکستانیوں کی ہے۔ لائنیں بالکل سیدھی ہیں۔ مکمل سناٹا ہے۔ ہر کوئی کمال صبر سے اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ اماراتی امیگریشن کے لوگ ہر پاسپورٹ کی خوب جانچ پڑتال کر رہے ہیں۔ میرے آگے شلوار قمیض میں ملبوس ایک پاکستانی کھڑا ہے۔ میں اسے مذاق سے پوچھتا ہوں کہ ہم ان کی سست روی پر شور کیوں نہیں مچاتے؟ جواب ملا ‘ سرجی اسی وقت ڈیپورٹ کردیئے جائیں گے۔حکومت کی رٹ ہر جگہ قائم ہے۔ میں متعدد بار دبئی جا چکا ہوں لیکن ہر دفعہ وہاں بہتری نظر آئی ہے ۔ہر مرتبہ کوئی نیا شاپنگ مال اور کبھی میٹرو ٹرین کا اضافہ دیکھا۔ دبئی پر سخت وقت بھی آئے۔ چند سال پہلے وہاں کی رئیل سٹیٹ مارکیٹ بہت گر گئی تھی۔ کئی لوگوں کو بہت نقصان ہوا لیکن اب قیمتیں پھر چڑھ رہی ہیں۔ عرب سپرنگ سے مصر اور شام کو بے حد نقصان ہوا لیکن وہاں سے بے تحاشا سرمایہ دبئی منتقل ہوا اور دبئی والوں کی چاندی ہو گئی۔ معیشت کو سہارا ملا۔ آج کل سنا ہے کہ متمول افغانی باشندے دھڑا دھڑا وہاں گھر خرید رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2015ء میں انہیں افغانستان میں امن نظر نہیں آتا۔ میں اپنی بیوی کے ساتھ میٹرو ٹرین میں بیٹھ کر دبئی مال جا رہا ہوں۔ ٹرین بے حد صاف ستھری ہے۔ گولڈ کلاس میں ہمارے ساتھ زیادہ تر گورے ہیں یا اماراتی۔ ٹرین میں رش ہے۔ بہت سے لوگ کھڑے ہیں۔ ایک اماراتی لڑکی میرے بیوی کو اپنی سیٹ پیش کرتی ہے جبکہ ایک اماراتی لڑکا مجھے کہتا ہے کہ آپ میری نشست پر بیٹھ جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ہمیں بالکل نہیں جانتے بس ہماری بزرگی کا احترام کر رہے ہیں۔ پتہ چلا کہ اس اسلامی ملک میں حفظ مراتب کی روایت ابھی زندہ ہے۔ دبئی مال میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں دکانیں ہیں۔ تین منزلہ مال میں کئی سینما ہیں اور درجنوں ریسٹورنٹ۔ دبئی جیسے سخت موسم میں اس قسم کے ایئر کنڈیشنڈ مال بڑی نعمت ہیں۔ شاپنگ تو خیر خواتین کا شعبہ ہے۔ مجھے تو دبئی کے مالز میں سیر کرنے کا لطف آتا ہے۔ سو رنگوں اور نقوش والے لوگ۔ کوئی چونے کی طرح گورا تو کوئی کوئلے کی طرح سیاہ‘ کوئی چپٹی ناک والا تو کوئی تیز نقوش والا۔ درمیان میں انڈین سرداروں کی رنگ برنگی پگڑیاں۔ ایک گورا مجنوں اپنی لیلیٰ سے سرعام محبت کا اظہار کر رہا ہے لیکن کوئی ان کو گھورتا تک نہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی دھن میں مست جا رہا ہے۔ یورپی خواتین سکرٹ اور نیکر میں پھر رہی ہیں جبکہ اماراتی خواتین نے پوراجسم سیاہ رنگ والے عبائیات سے ڈھانپا ہوا ہے۔ کوئی دوسرے پر اپنا لباس مسلط کرتا ہے نہ خیالات۔ 
پورے شہر میں مجھے کوڑے کرکٹ کا ایک ڈھیر بھی نظر نہیں آیا۔ نصف ایمان تو اسی ایک خاصیت سے پورا ہو جاتا ہے۔ مال سے واپسی کے وقت میری بیوی یاد دلاتی ہے کہ کچن کے لیے کچھ سودا سلف بھی لینا ہے ورنہ صبح ناشتہ نہیں ملے گا۔ ہم گرائونڈ فلور پر گراسری شاپ چلے جاتے ہیں۔ ویٹ روز نامی یہ گراسری میں نے انگلینڈ میں بھی دیکھی تھی۔ میری بیوی ڈبل روٹی اور انڈے خرید رہی ہے اور میں گراسری میں بھی بے مقصد سیر کر رہا ہوں۔ ہاں ایک مقصد ضرور ذہن میں ہے کہ کسی غیر معمولی چیز کا مشاہدہ کیا جائے۔ گوشت کے سیکشن میں لحم خنزیر کا ایک علیٰحدہ سیکشن ہے جہاں بورڈ آویزاں ہے '' غیر مسلموں کے لیے‘‘ گورے اس سیکشن میں گوشت خرید رہے ہیں‘ کوئی مسلمان انہیں نہیں روکتا۔ اماراتیوں نے اپنے کام سے کام رکھنے کا فن سیکھ لیا ہے۔ وہ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
میرے لاہور کے ایک دوست نے اپنے بھانجے عمران شفیق کو میرے آنے کی پیشگی اطلاع کردی تھی۔ عمران کے گھر کھانے کے لیے گئے تو ان کی بیگم کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ اس جوڑے کا تعلق لاہور کے متمول گھرانوں سے ہے۔ مسز آمنہ شفیق کنیئرڈ کالج لاہور سے پڑھی ہوئی ہیں۔ میرا اندازہ تھا کہ یہ بہت ماڈرن خاتون ہوں گی۔ گھر پہنچے تو حجاب میں ملبوس پایا۔ دبئی کے اسلامک سنٹر میں تین سال عربی پڑھی‘ پھر تجوید کے ساتھ قرآن پڑھا۔ آج کل تفسیر کے ساتھ فرقان الحمید کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ مجھے بتانے لگیں کہ یہ سب تعلیم انہوں نے ایک پرآسائش سنٹر کے ماحول میں بہترین اساتذہ سے حاصل کی اور بغیر کسی فیس کے۔
پرانے دوست مراد صدیقی صاحب نے لنچ کے لیے دبئی انٹرنیشنل فنانشل سنٹر بلایا ہوا تھا۔ یہاں کے ریسٹورنٹ یورپ کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ غیر مسلموں کے تمام ماکولات اور مشروبات مینیو میں درج ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کم از کم امارات میں اسلام اور ماڈرن ازم میں کوئی تصادم نہیں ہے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ مغربی تعلیمی اداروں نے اپنے کیمپس یہاں بنا لیے ہیں۔ گورے یہاں خوش ہیں کہ بڑی بڑی ٹیکس فری تنخواہیں لیتے ہیں اور مغربی طرز حیات بھی اپنائے ہوئے ہیں۔
دبئی کے حاکم شیخ محمد بن راشد آل مکتوم زبردست ویژن کے مالک ہیں۔ کوئی بارہ سال پہلے دبئی میں قانون بنا کہ جو غیر ملکی مکان خریدے گا اسے رہائشی ویزہ ملے گا۔ لوگوں نے اربوں کی پراپرٹی دبئی میں خریدی اور پراپرٹی بوم کا آغاز ہوا۔ 1988ء میں دبئی کے پہلے گالف کورس کا افتتاح جنرل ضیاء الحق مرحوم سے کرایا گیا۔ آج وہاں چودہ گالف کورس ہیں اورکھیلنے کے لیے کئی روز پہلے ریزرویشن کروانی پڑتی ہے۔
اس وقت دنیا کی سب سے بلند عمارت برج الخلیفہ دبئی میں ہے۔ شیخ زائد روڈ پر چالیس اور پچاس منزلہ عمارتیں عام اور ان میں اضافہ ہو رہاہے۔ آدھا دبئی آسمان کے بالکل قریب رہتا ہے۔ رات کو روشنیوں کے رنگ و نور سے دن کا سماں ہوتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ لوڈشیڈنگ کا نام و نشاں نہیں۔ سب کی جان و مال محفوظ ہے۔ جرائم ضرور ہوتے ہیں لیکن پولیس مستعد ہے۔ مجرموں کو بھاگنے نہیں دیتی۔
آخری شام ہم ڈیزرٹ سفاری کے لیے صحرا میں گئے۔ سیاح زیادہ تر انڈین ہیں یا مغربی ممالک کے۔ لبنانی بیلے ڈانسر اپنے فن کا مظاہرہ کر تی رہی ۔کچھ لوگ مخصوص مشروبات سے لطف اندوز ہو تے رہے لیکن کوئی غل غپاڑہ نہیں مچا۔ کتنی برداشت ہے اس معاشرے میں اور کتنا ڈسپلن ہے ان لوگوں میں۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دبئی کی روز افزوں خوشحالی کا راز دراصل گڈ گورننس میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں