"JDC" (space) message & send to 7575

شرق و غرب

مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب۔ دونوں کبھی یکجا نہیں ہو سکتے۔ یہ الفاظ رُڈیارڈ کپلنگ کے ہیں جس کا بچپن بمبئی میں اور جوانی لاہور میں گزری۔ 1907ء میں ادب کے نوبل انعام کا حق دار ٹھہرا۔یہ بات کہتے ہوئے کپلنگ کا اشارہ جغرافیائی حقیقتوں سے زیادہ زندگی کے رویّوں کی طرف ہے۔مندرجہ ذیل سطور لکھنے کا میرا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ مشرق یا مغرب دونوں میں سے ایک کی برتری ثابت کروں بلکہ مجھے غرض صرف اس بات سے ہے کہ دونوں کے مابین فرق کو واضح کر سکوں اس لیے کہ کپلنگ کی طرح مجھے بھی مشرق اور مغرب دونوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔میری نظر میں مغربی طرز حیات کی امتیازی خصوصیت فرد کی آزادی اور حقِ انتخاب ہے۔مغرب میں بچے زیادہ سے زیادہ اٹھارہ سال کی عمر میں والدین سے علیحدہ رہائش اختیار کر لیتے ہیں۔ جو اٹھارہ سال کے بعد بھی والدین کے ساتھ رہیں اُن کے دوست اُن پر پھبتیاں کستے ہیں۔ پیشے کا انتخاب فرد کی اپنی صوابدید پر ہے۔ والدین پیشے کے انتخاب میں بچوں کی رہنمائی ضرور کرتے ہیں لیکن اپنی خواہشات اُن پر مسلط نہیں کرتے۔یہی صورتحال شریک حیات کے انتخاب کے بارے میں نظر آتی ہے۔ مذہب کے بارے میں بھی فرد کو مکمل آزادی ہے وہ چرچ جائے یا نہ جائے کوئی اُسے مجبور نہیں کر سکتا۔یہی صورتحال انتخابات میں نظر آتی ہے خاوند ایک پارٹی کو ووٹ دے رہا ہے تو عین ممکن ہے کہ زوجہ محترمہ دوسری پارٹی کی حمایت کر رہی ہوں اور دونوں ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہیں۔
مشرق میں بہت سارے فیصلے کرنے کا حق اب بھی والدین کے پاس ہے یا یہ فیصلے قبیلہ کرتا ہے۔ پس ماندہ علاقوں میں لڑکا لڑکی پسند کی شادی کر لیں تو قتل بھی ہوسکتے ہیں۔پیشے کا انتخاب بھی والدین کے صلاح و مشورے سے ہوتا ہے۔والدین مذہبی ہیں تو بچوں کی دینی تعلیم گھر ہی میں لازمی ہو جاتی ہے یعنی حافظ صاحب یا قاری صاحب گھر آتے ہیں۔ کم استطاعت والے مذہبی گھرانے اپنے مسلک کے مطابق بچوں کو مسجد یا مدرسہ بھیج دیتے ہیں۔ لیکن اب شہروں کی حد تک یہ رویے بدل رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 1970ء کے الیکشن میں میرے پورے خاندان نے مسلم لیگ کو ووٹ دیا تھا اور میرا اکلوتا ووٹ پیپلز پارٹی کو ملا تھا۔ اس دفعہ بھی کئی والدین نے مسلم لیگ کو ووٹ دیا اور ان کے بچوں نے تحریک انصاف کو ۔شہروں میں لڑکے لڑکیاں پسند کی شادیاں بھی کر رہے ہیں۔مختلف قبائل اور ذاتوں کی آپس میں شادیاں ہو رہی ہیں‘ اس سے شہروں کی حد تک قبائلی تعصب کم ہوا ہے۔ اسی طرح سے وہ پروفیشن (پیشہ) کے انتخاب میں بھی خود کفیل ہیں۔ وہ میڈیا اور انٹرنیٹ سے بہت کُچھ سیکھ لیتے ہیں اور کئی باتوں میں اُن کی سوچ اور معلومات والدین سے کہیں آگے ہیں۔ اب مشرق میں بھی فرد کا حق انتخاب مانا جانے لگا ہے اس لیے کہ دنیا ایک بڑا گائوں بن گئی ہے۔ سکائپ اور فیس ٹائم نے فاصلے ختم کر دیئے ہیں۔گائوں میں میرے کزن کی بیوی جس نے کبھی لاہوربھی نہیں دیکھا آج کل اپنی بیٹی کے پاس لندن گئی ہوئی ہے اور روزانہ سکائپ پر اہل خانہ سے گائوں میں بات کرتی ہے۔ 
اب ذکر ہو جائے چند دلچسپ واقعات کا‘ جن کا میں عینی شاہد ہوں۔ اس سے دو مختلف ثقافتوں میں سوچ کا فرق عیاں ہو جائے گا۔ مسلم معاشرے میں کوئی عورت نامحرم یا اجنبی مرد کے ساتھ رقص کرنے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتی۔ جبکہ مغربی معاشرے میں کسی بھی خاتون کو رقص کی دعوت باعث تکریم سمجھی جاتی ہے۔1998ء کی بات ہے میں رنگون میں سفیر تھا۔ اس سے پہلے دوشنبے میں‘ میں نے روسی زبان کے چند جُملے سیکھ لیے تھے۔ مسٹر گلیب روس کے نئے سفیر رنگون آئے تو میری اُن سے جلد ہی دوستی ہو گئی۔ دوسری زبانوں کا معمولی سا علم بھی خاصا مفید رہتا ہے۔سردیوں کے دن تھے مسٹر گلیب نے اپنے گھر پر کرسمس کی بہت بڑی پارٹی کی۔یاد رہے کہ روسی کرسمس جنوری میں مناتے ہیں۔ساتھ ہی گلیب صاحب نے اپنی شادی کی سالگرہ کو بھی ملا لیا۔ یہ رقص و سرود کی شاندار محفل تھی۔ روسی پینے پلانے کے رسیا ہوتے ہیں۔ کھانے بہت انواع و اقسام کے تھے ۔ مغربی دُھنوں پر کئی جوڑے کھانے سے فارغ ہو کر رقص کرنے لگے۔میں اور میری بیوی آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ مسٹر گلیب نے دیکھا کہ یہ جوڑا کُچھ بور ہو رہا ہے؛ چنانچہ میری بیوی کے پاس آئے اور اُسے اپنے ساتھ رقص کرنے کی دعوت دی۔ظاہر ہے کہ ان کے کلچر کے مطابق یہ بالکل معیوب نہ تھا بلکہ وہ اچھے میزبان کی حیثیت سے ایک مہمان خاتون کی تکریم کر رہے تھے۔میری بیوی نے کہا کہ آج میری طبیعت کُچھ ناساز ہے۔سفارت کار انکار بھی طریقے سلیقے سے کرتے ہیں۔ بعد میں‘ میں نے مسٹر گلیب کو ساری بات سمجھائی کہ آ پ آئندہ بھی 
کسی مسلم خاتون کو رقص کی دعوت دیں گے تو وہ آپ کی بات ٹال جائے گی۔مشرق اور مغرب میں ایک اور فرق بزرگوں کے بارے میں مختلف اور متفاوت روّیے ہیں۔مشرق میں بڑے بوڑھوں کا خیال رکھنا بیٹوں اور بیٹیوں کا کام ہے جبکہ مغرب میں یہی کام حکومت کرتی ہے یا پرائیویٹ سیکٹر۔ وہاں اولڈ ایج ہوم عام ہیں۔ویسے ہمارے ہاں بھی اب جوائنٹ فیملی سسٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور چند رفاہی اداروں نے بزرگوں کے لیے ٹھکانے بنائے ہیں۔سعودی عرب میں ایک پاکستانی ڈاکٹر میرے دوست تھے۔ وہ لاہور سے ایم بی بی ایس کر کے سیدھے انگلینڈ گئے اور وہاں سے جلد ہی سعودی عرب آ گئے۔ میں نے سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ کرسمس کے دنوں میں گورے ڈاکٹر اکثر چھٹی پر ہوتے تھے۔چنانچہ میری ایمرجنسی ڈیوٹی بھی تھی اور قریب المرگ بوڑھے مریضوں کی دیکھ بھال بھی میں ہی کر رہا تھا۔ایک رات ایک بزرگ کا انتقال ہو گیا میں نے نرس سے اُس کے بیٹے کا فون نمبر لیا اور اُسے یہ صدمے والی خبر سنائی۔ بیٹے نے روایتی افسوس کے ایک دو جُملے بولے اور کہا کہ میں تو کرسمس کی چھٹی منانے فرانس جا رہا ہوں۔فلاں فیونرل ہوم کو ادائیگی بھی کر دی گئی ہے اور ضروری ہدایات بھی دے دی گئی ہیں۔ آپ اُن سے رابطہ کریں۔پاکستانی ڈاکٹر کہنے لگے کہ میں نے تب ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ اس مغربی معاشرے میں میرا گزارا ممکن نہیں لہٰذا میں سعودی عرب چلا آیا۔ میں نے دو مغربی ممالک میں کام کیا ہے اور وہ ہیں کینیڈا اور یونان۔کینیڈا میں ڈھائی سال رہا۔ چونکہ 
گھروں کا کرایہ سرکار دیتی ہے لہٰذا سفارت کار اکثر اچھے علاقوں میں مکان لیتے ہیں۔ اوٹاوہ میں‘ میں ایک ٹائون ہائوس میں رہتا تھا اور اردگرد تمام گورے رہتے تھے۔ اُن کے ساتھ تعلقات ہیلو ہائے تک ہی محدود رہے۔یونان میں میرا قیام چار سال کا تھا اور وہ بھی بطور سفیر۔یونان انتہائی دلچسپ ملک ہے یہ مشرق اور مغرب کے سنگم پر واقع ہے۔ چار سو سال یہاں ترکوں نے حکومت کی۔ یونانی مغربی اور مشرقی اقدار کا لطیف امتزاج رکھتے ہیں ۔
گرمیوں کے دن تھے ۔ میرے ٹینس کے پارٹنر مسٹر جارج جنہیں یونانی یورگو کہتے ہیں‘ کئی دنوں سے غائب تھے۔ فون کیا تو پتہ چلا کہ موصوف اپنے والد صاحب کے ساتھ روزانہ اچھے انگوروں کی تلاش میں نکلتے ہیں کیونکہ موسم گرما شراب کشید کرنے کا وقت ہے ۔یونان میں رواج ہے کہ بڑے بوڑھے اور ان کی اولاد پاس پاس اپارٹمنٹ لیتے ہیں تاکہ باقاعدگی سے ملاقات ہو۔ویک اینڈ پر اکثر دادا‘ بیٹا اور پوتے ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔ مشرق کا ایک طرۂ امتیاز مہمان نوازی کی روایت ہے جو مغرب میں ناپید ہو چکی ہے۔دوشنبے‘ سمر قند اور بخارا میں روایت تھی کہ کوئی اجنبی بھی دروازہ کھٹکھٹائے تو چائے پانی پئے بغیر نہیں جا سکتا تھا۔مغرب میں ایسا نہیں ہوتا۔مغرب والے دو ٹوک بات کرنے کے عادی ہیں جبکہ مشرق والے اشاروں کنایوں میں بہت باتیں کرتے ہیں۔ لہٰذا کئی دفعہ سفارتی گفتگو میں بھی کمیونیکیشن گیپ رہ جاتا ہے۔
پورے مشرق میں اور پاکستان میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ہم مغرب سے صرف اور صرف اچھی عادات لیں مثلاً وقت کی پابندی اور اپنی اچھی مشرقی روایات کی تقلید اور پاسداری جاری رکھیں مثلاً بزرگوں کا احترام‘ ورنہ ہم مغرب کی نقالی میں اپنی شناخت کھو بیٹھیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں