"JDC" (space) message & send to 7575

افکارِ پریشاں

پچھلے دنوں پاکستان کا درد رکھنے والے ایک دوست کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔کہنے لگے آپ کو ایک تاریخی تصویر دکھاتا ہوں‘یہ تصویر اُس میز اور چند کرسیوں کی ہے جو 1947ء میں پاکستان کی کابینہ کی میٹنگ کے لیے استعمال ہوئیں۔صدارت قائد اعظم ؒخود فرماتے تھے۔ متحدہ پاکستان کی اس کابینہ میں کل چھ وزیر تھے۔ کرسیوں میں خاص بات یہ نظر آ رہی تھی کہ اکثر کی پوشش خستہ تھی۔میں نے دریافت کیا‘ تصویر کب کھینچی گئی؟ جواب ملا 1947ء میں۔
آپ کو یاد ہو گا کہ قائد اعظمؒ سے کہا گیا کہ کابینہ کی میٹنگ میں چائے یا کافی پیش ہونی چاہیے۔قائد کا جواب تھا کہ وزیر چائے یا کافی گھر سے پی کر آئیں۔یہ پاکستان وہ تھا جس کے انگریز آرمی چیف نے افواج کو کشمیر بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔جو از اُس نے یہ پیش کیا کہ کمانڈر انچیف کی اجازت کے بغیر فوج نہیں بھیجی جا سکتی اور کمانڈر انچیف بھی انگریز تھا اور دہلی میں بیٹھا تھا۔لیکن اُن نامساعد حالات میں بھی پاکستان نے ایک تہائی کشمیر ہندوستان سے لے لیا۔ دراصل اُس وقت پاکستان میں ایک جذبہ تھا جو آج ناپید ہے۔
تو بات اُن پھٹی پرانی کرسیوں کی ہو رہی تھی جن پر پاکستان کے وزیر بیٹھا کرتے تھے۔ آج قصرِ صدارت اور وزیر اعظم ہائوس کے صوفے‘ کرسیاں اور قالین دیکھیں تو دل خوش ہوتا ہے کہ پاکستان کتنی ترقی کر گیا ہے۔لیکن جوں ہی ریڈ زون سے نکلیں تو بھکاریوں سے سامنا ہوتا ہے‘ پھر پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں د و قومیں بستی ہیں... ایک حد سے زیادہ دولت مند اور دوسری نانِ جویں کو بھی ترسنے والی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں معکوس ترقی ہوئی ہے۔
جو سادگی مسلمان حکمرانوں میں ہونی چاہیے تھی وہ مغرب کی جمہوری قیادتیں لے اُڑیں۔ میں اس بات کا چشم دید گواہ ہوں کہ ایتھنز میں میرے قیام کے دوران یونانی صدر سٹیفانوپلس ایک اپارٹمنٹ میں رہتے تھے اور اتوار کے دن کئی دفعہ اپنی کار خود چلاتے ہوئے دیکھے جاتے تھے۔ڈرائیور شاید چھٹی پر ہوتا ہو گا۔ اور یہ تو ہمیں یاد ہے کہ سویڈن کے وزیر اعظم آنجہانی اولف پام پر جب قاتلانہ حملہ ہوا تھا تو موصوف سائیکل پر دفتر جا رہے تھے۔ اس بات کا بھی میں چشم دید گواہ ہوں کہ ایک بڑے عرب ملک میں ہر نئے بادشاہ کے لیے نیا محل بنتا تھا جبکہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کے صدور ایک عرصے سے وائٹ ہائوس پر ہی قناعت کئے ہوئے ہیں۔
1990ء کی دہائی کا آغاز تھا‘ میاں نواز شریف پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ حکم صادر ہوا کہ ایک عالیشان سیکرٹریٹ تعمیر کیا جائے۔ بیرونی نقشہ فتح پور سیکری کی مشہور مغل عمارت کی نقل تھا‘ اس لیے کہ مغلوں کے اصل جانشین ہم ہیں۔1998ء میں ایٹمی دھماکے ہوئے تو پاکستان پر مالی پابندیاں لگ گئیں۔وزیراعظم نے قوم سے خطاب فرمایا اور نوید سنائی کہ اخراجات کم کرنے کے لیے وہ کسی اور عمارت میں شفٹ ہو جائیں گے۔مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ فارن آفس کو کہا گیا کہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں منتقل ہو جائیں‘ لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا‘ وزیر اعظم آج بھی وہیں ہیں۔
پاکستان کو آج پہاڑوں جیسے دیو ہیکل مسائل کا سامنا ہے اور ہمارے لیڈر ان سے نبرد آزما ہونے سے عاری لگتے ہیں۔ اکثر لیڈروں نے عافیت اس میں دیکھی کہ بیرون ملک اثاثے بنائے جائیں۔ یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں؛ جنرل پرویز مشرف‘ آصف زرداری اور موجودہ حکمران سب کے اثاثے بیرون ملک بھی ہیں۔دو کشتیوں کے یہ سوار ہمیں منجدھار سے کیسے نکالیں گے؟کرکٹ سے لے کر گولف تک ہر کھیل میں کوچ ایک ہی بات کہتے ہیں کہ نظر ہر وقت بال پر رہنی چاہیے۔جن لیڈروں کے اثاثے پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہیں‘ کیا وہ اپنی توجہ سو فیصد پاکستان پر مرکوز کر سکتے ہیں؟ 
کُچھ سال پہلے کی بات ہے‘ پاکستان کے ایک وزیر بھارت کے دورے پر گئے۔پاکستانی ہائی کمشنر نے اپنے گھر پر وزیر موصوف کی دعوت کی اور اُن کے ہندوستانی ہم منصب کو بھی بلایا۔ بھارتی وزیر ایک عام سی سرکاری کار میں آئے۔ہمارے وزیر کے مُنہ سے شاید سہواً یہ جملہ نکلا کہ ہم تو پاکستان میں بہت بہتر گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ بھارتی وزیر نے کہا‘ یہ کار چھوٹی سی سہی لیکن مجھے اس 
بات پر فخر ہے کہ یہ بھارت میں اسمبل ہوئی ہے۔قوموں کی طاقت کا اُن کے لیڈروں کی کاروں سے کوئی تعلق نہیں۔قدرت اللہ شہاب کو سروس کے آخری حصے میں ہالینڈ میں سفیر بنایا گیا۔انہیں سفیر کی لمبی چوڑی گاڑی میں بیٹھ کر کوئی زیادہ خوشی نہیں ہوئی کہ وہ اس بات کو شدت سے محسوس کر رہے تھے کہ ایک غریب ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔اپنی سوانح... ''شہاب نامہ‘‘ میں موصوف نے لکھا ہے کہ ملک جتنا چھوٹا ہو گا اُس کے سفیر کی گاڑی اتنی ہی بڑی ہو گی‘ یہ امر چھوٹے ملکوں کے احساس کمتری کی غمازی کرتا ہے۔ کوئی دو عشرے ہونے کو آئے‘ پاکستان کے وزیر اعظم برطانیہ کے دورے پر گئے ۔اپنے ہم منصب سے ملنے 10ڈائوننگ سٹریٹ گئے۔ اُن کے وفد میں وزیر اور پارلیمنٹ کے ارکان بھی تھے۔برطانوی وزیر اعظم کی رہائش گاہ ایک عام سا گھر ہے‘ہمارے ایک ایم این اے کو بڑا ترس آیا‘ کہنے لگے کہ اس سے اچھا تو ہمارا گورنر ہے جسے مال روڈ پر شاندار گھر تو ملا ہوا ہے۔پاکستان دولخت ہوا تو قیادت بھٹو صاحب کو ملی۔موصوف اس مشکل گھڑی میں بہت اچھے لیڈر تھے لیکن پاکستانی لیڈروں والا کھوکھلا طمطراق اُن میں بھی تھا‘ حکم صادر ہوا کہ دوسرے ممالک کے سفراء جب اسناد سفارت پیش کرنے آئیں تو شاندار تقریب ہونی چاہیے۔سفیر کو پروٹوکول والے کئی گھوڑوں والی بگھی میں لے کر آیا جائے اور اُسے شاندار گارڈ آف آنر پیش کیا جائے۔ فارن آفس کے کسی سر پھرے افسر نے فائل پر لکھ دیا کہ 
صدر ایوب خان کے زمانے میں یہ تقریب بہت سادہ ہوا کرتی تھی۔اُس وقت کے صدر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یعنی بھٹو صاحب نے لکھا کہ ایوب خان کا ذوق بہت پست تھا‘ آپ میرے احکامات پر عمل کریں۔پاکستان جیسے جیسے چھوٹا اور کمزور ہوا‘ ہماری تقریبات اتنی ہی شاندار ہوتی گئیں۔میں نے متعدد بار دیکھا ہے کہ جولائی میں امریکہ کے نیشنل ڈے پر ہونے والا استقبالیہ کھانوں کے لحاظ سے بہت سادہ ہوتا ہے کیونکہ امریکہ کو کسی کو متاثر (Impress) کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
اپنی تقریبات کی شان و شوکت دیکھ کر مجھے وہ بلغراد والی تقریبِ اسناد یاد آتی ہے جب میں نے وہاں صدر مملکت کو 2001ء میں اسناد پیش کی تھیں۔ یوگو سلاویہ میں شکست و ریخت کا عمل برسوں سے جاری تھا‘ حالات خاصے خراب تھے‘ لیکن تقریب شاندار تھی۔مجھے اپنے گائوں کا وہ چودھری یاد آ گیا جو عمر کے آخری سالوں میں تھا لیکن مونچھوں کو لازمی طور پر اچھی طرح کسی بوٹ پالش جیسا خضاب لگا کر تائو دیتا تھا۔
تو جناب پھٹی پُرانی کرسیوں والا پاکستان‘ ہندوستان سے ایک تہائی کشمیر لے سکتا تھا لیکن شاندار صوفوں‘ عمدہ قالینوں اور بلٹ پروف گاڑیوں والا پاکستان مٹھی بھر دہشت گردوں کے سامنے بے بس ہے ۔یاد رہے کہ قائداعظمؒ کی نظریں ہمہ وقت ہدف پر رہتی تھیں۔انہیں باہر جائدادیں خریدنے کی فکر نہ تھی۔ان کی کار لال بتی پر رکتی تھی‘ ان کا عزم آہنی تھا‘ لہٰذا بلٹ پروف گاڑی بھی درکار نہ تھی۔کیا ہمیں پھٹی پُرانی کرسیوں اور مخلص لیڈر شپ والا پاکستان دوبارہ مل سکتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں