"JDC" (space) message & send to 7575

افغانستان‘ الیکشن کے بعد

افغانستان میں حالیہ الیکشن ہوا کے تازہ جھونکے کی مانند تھے۔ لوگ بڑی تعداد میں ووٹ دینے نکلے‘ خواتین نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ تین بڑے امیدواروں میں سے کسی نے دھاندلی کا الزام نہیں لگایا۔ پاکستان نے بہت اچھے طریقے سے بارڈر کو سیل کیا اور عملاً ثابت کر دیا کہ ہمارا کوئی فیورٹ امیدوار نہیں۔ افغان عوام جو فیصلہ کریں گے ہمیں قبول ہو گا۔ بندوق اور بیلٹ کی جنگ میں عوام کی اکثریت نے فیصلہ بیلٹ اور جمہوریت کے حق میں دیا ہے۔ یہاں یہ بات محلِ نظر رہے کہ ووٹرز میں سے دو تہائی لوگ پچیس سال سے کم عمر کے ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے حالتِ جنگ میں آنکھ کھولی اور ساری عمر جنگ ہی دیکھتے رہے۔ اب یہ لوگ امن کے شدت سے متمنی ہیں۔
افغانستان کی سب سے بڑی نسلی اکائی پشتون ہیں لیکن ان کی تعداد پچاس فیصد سے کم ہے۔ تاجک تیس سے پینتیس فیصد ہیں مگر تاجک ازبک اور ہزارہ اکثر اکٹھے ہو جاتے ہیں اس مرتبہ اصلی اور خالص پشتون امیدوار ڈاکٹر اشرف غنی نے معروف ازبک وار لارڈ رشید دوستم کو اپنے پینل میں رکھا ہے جس سے ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ میں نے اصلی اور خالص پشتون اس لیے کہا ہے کہ ان کا تعلق احمد زئی قبیلے سے ہے اور وہ پشتو میں خوب روانی سے تقریر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر زلمے رسول بھی پشتون ہیں لیکن مادری زبان ان کی فارسی ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نصف پشتون ہیں لیکن چونکہ وہ وادیٔ پنج شیر میں پلے بڑھے لہٰذا اُن کی پشتو کمزور ہے۔ اس الیکشن میں پھر ثابت ہوا ہے کہ اکثر افغان نسلی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔ بادی الامر میں لگتا ہے کہ شاید کوئی امیدوار پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ نہ لے سکے اور اگلے ماہ الیکشن کا دوسرا رائونڈ ہو جس میں مقابلہ دو امیدواروں کے درمیان ہو گا جن کے ووٹ پہلے رائونڈ میں دوسروں سے زیادہ ہوں گے۔
اس الیکشن میں سکیورٹی ڈیوٹی افغان نیشنل آرمی اور پولیس نے دی اور اس پہلے ٹیسٹ میں وہ پاس ہو گئے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ اتنے بڑے اور پہاڑی ملک میں بیس ہزار انتخابی مراکز کا انتظام آسان نہیں تھا۔ کئی جگہ بیلٹ پیپرز گدھوں اور خچروں کی مدد سے پہنچائے گئے اور لوگ اتنی تعداد میں ووٹ دینے آئے کہ چند ایک مقامات پر بیلٹ پیپر کم پڑ گئے۔ نیٹو افواج الیکشن مراکز سے دور رہیں لہٰذا حملے بھی کم ہوئے اور انتخاب پُر امن طریقے سے ہو گئے۔ 
چند ماہ میں کابل میں نئی جمہوری حکومت ہو گی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ پُر امن انتقالِ اقتدار ممکن نظر آ رہا ہے اور یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔ 1989ء میں افغانستان سے جاتے ہوئے سوویت یونین کابل میں اپنا آدمی ڈاکٹر نجیب اللہ کی شکل میں چھوڑ کر گیا تھا۔ نجیب اللہ کی قانونی حیثیت بہت ہی کمزور تھی۔ اب جو حکومت کابل میں آئے گی اُس کی قانونی حیثیت مضبوط ہو گی ایک اور بات جس کا نوٹس لینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ تمام امیدواروں نے امریکہ کے ساتھ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے کی حمایت کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان میں طالبان کی قوت کم ہو گئی ہے۔ 
میرا خیال یہ ہے کہ طالبان اب بھی افغانستان میں بہت بڑی قوت ہیں اور افغان طالبان کا کمانڈ اور کنٹرول سسٹم پاکستانی طالبان سے بہتر ہے۔ دوسرے افغان طالبان کو اپنی رائے عامہ کا بہت خیال ہے اس لیے وہ اندھی دہشت گردی نہیں کرتے۔ ایک مغربی تھنک ٹینک نے حال ہی میں افغان طالبان کی نفری کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سوویت افواج کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی تعداد موجودہ طالبان لڑاکا فورس سے پانچ گنا تھی۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ سابق مجاہدین لیڈروں میں سے اکثر اب امریکہ‘ دبئی اور پاکستان میں کاروبار کرتے ہیں اور کابل کے پوش علاقہ وزیر اکبر خان میں بڑے بڑے گھروں کے مالک ہیں۔ افغان طالبان چونکہ اپنے پاکستانی ساتھیوں کی نسبت زیادہ متحد اور منظم ہیں لہٰذا عین ممکن ہے کہ الیکشن کے دوران افغان سکیورٹی فورس پر حملہ نہ کرنا سوچی سمجھی حکمت عملی ہو۔ اس لیے کہ اب طالبان کی نظر صرف جنگ پر نہیں بلکہ اقتدار میں شراکت پر بھی ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ طالبان نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو وہ اقتدار میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں اس مسئلے کا حل دو طرح سے ممکن ہے۔ ایک حل یہ ہو سکتا ہے کہ جیتنے والا صدارتی امیدوار‘ ہارے ہوئے امیدوار اور طالبان کے ساتھ مل کر نیشنل حکومت بنا لے اور اس طرح طالبان کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کر لیا جائے اس صورت میں مشکل یہ پیش آئے گی کہ طالبان جو وزارتیں یا مناصب مانگیں گے وہ شاید ان کو نہ مل سکیں۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ افغان پارلیمنٹ کے الیکشن اگلے سال ہونا ہیں۔ طالبان اگلے سال الیکشن میں بطور سیاسی قوت حصہ لیں اور نشستیں جیت کر قومی سیاسی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ اس بات کا اب واضح امکان ہے کہ امریکی اور نیٹو فوجی محدود تعداد میں دس سال تک افغانستان میں رہیں گے۔ طالبان کو یا تو اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کابل حکومت کا حصہ بننا پڑے گا یا پھر ان کی مزاحمت جاری رہے گی لیکن کابل کی منتخب حکومت کو گرانے کے لیے درکار قوت اب شاید افغان طالبان کے پاس نہیں ہے۔
آج کے حالات میں افغانستان میں بین الاقوامی مفادات 1989ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ چین نے معدنیات میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ بھارت نے خام لوہا نکالنے کے لیے تین بڑے بلاک خریدے ہیں۔ روس نہیں چاہے گا کہ چیچنیا اور داغستان میں دہشت گرد افغانستان سے جائیں۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ افغانستان دوبارہ القاعدہ کا محفوظ ٹھکانہ بنے۔ ایران یہ چاہتا ہے کہ افغان میڈیا اور دینی مدارس میں اُس کا غلبہ رہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ افغانستان کے راستے ترکمانستان سے گیس آئے جو لامحالہ پاکستان سے ہی گزرے گی۔ پاکستان کا مفاد ہے کہ اُس کی افغانستان اور وسط ایشیا سے تجارت ہو اور افغان سر زمین سے ہمارے خلاف کوئی منصوبہ بندی یا تخریبی کارروائی نہ ہو۔ اگر یہ تمام ممالک سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایک غیر جانبدار افغانستان کو یقینی بنائیں تو مسئلے کا بین الاقوامی حل نکل سکتا ہے۔ 
افغانستان کے بارے میں پاکستان کی موجودہ قیادت کے اخلاص کا اعتراف صدر حامد کرزئی کو بھی کرنا پڑا تھا۔ صدر کرزئی کے بہت سے مسائل تھے۔ موصوف کا اقتدار خصوصاً2009ء کے بعد متنازع رہا کہ اُس انتخاب میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی تھی۔ موصوف طالبان سے مصالحت کرنا چاہ رہے تھے لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ طالبان کے کئی قیدی صدر کرزئی نے رہا کر کے امریکی ناراضگی مول لی۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ان کی ساکھ بحال ہو جائے لیکن موصوف کی گرتی ہوئی ساکھ کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اُن کے در پردہ حمایت یافتہ ڈاکٹر زلمے رسول تیسرے نمبر پر لگتے ہیں۔ افغانستان میں جو بھی صدر آئے شاید پاکستان کے لیے کرزئی سے بہتر ہی ہو۔ اس لیے کہ حضرت بہت ہی سیماب صفت انسان ہیں۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ اس الیکشن میں افغان عوام نے آگے کی جانب بڑا قدم اٹھایا ہے۔ ویسے بھی آج کا افغانستان طالبان کے دور کا افغانستان نہیں ہے۔ آج وہاں ستر سے زیادہ آزاد ٹی وی چینل ہیں۔ خواتین پارلیمان میں ہیں اور کئی مناصب پر فائز ہیں۔ یہ ملک اب دوبارہ طالبان دور کی طرف کسی صورت نہیں لوٹے گا۔
موجودہ صورت حال میں مغربی ممالک کی خواہش ہو گی کہ ڈاکٹر اشرف غنی جیت جائیں کہ انہیں ورلڈ بینک کا لمبا تجربہ ہے اقتصادی اصلاحات سے منسلک رہے اور مغربی مالی امداد کا صحیح استعمال کر سکتے ہیں۔ 
افغانستان میں ممکنہ قومی مصالحت پاکستان کے لیے نیک فال ہو گی۔ اس مرتبہ الیکشن میں پاکستان پر کوئی انگلی نہیں اٹھی۔ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمسایہ ملک میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں۔ ہمیں صرف اور صرف افغانستان میں امن اور استحکام عزیز ہے۔ پاکستان کو ایسا افغانستان چاہیے جو ہمارے کسی دشمن کا آلۂ کار نہ بنے۔ صحیح معنوں میں جڑواں بھائی بن کر دکھائے۔ خود بھی ترقی کرے اور پاکستان کو بھی استحکام حاصل کرنے میں ممد و معاون ہو۔ افغان الیکشن واقعی تازہ ہوا کا جھونکا تھا جس سے خطے میں امن و استحکام کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں