"JDC" (space) message & send to 7575

چند روز سعودی عرب میں

خلیج کے پانیوں میں آج کل اضطراب ہے۔ سکیورٹی کے حوالے سے غیر روایتی خطرات منڈلا رہے ہیں۔ یہ وہی خطرات ہیں جن کا پاکستان کو کئی برسوں سے سامنا ہے۔ میری مراد انتہا پسندی سے ہے جسے جائز ظاہر کرنے کے لیے اسے مذہب کی قبا پہنا دی جاتی ہے۔ جو خطرہ پاکستان کو عرصے سے طالبان سے لاحق ہے وہی خطرہ داعش کے حوالے سے آج خلیجی ملکوں کو نظر آرہا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ سکیورٹی کے ان خطرات کا ابھی سے ادراک کر لیاگیا ہے۔ اسی حوالے سے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سہ روزہ انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کی گئی جس کا عنوان تھا '' خلیج اور علاقائی چیلنج ‘‘۔ اس کانفرنس کا اہتمام سعودی وزارت خارجہ کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈپلومیٹک سٹڈیز اور گلف ریسرچ سنٹر نے مل کر کیا تھا۔ موخرالذکر ادارہ ایک تھنک ٹینک ہے۔ پاکستان سے تین لوگوں نے شرکت کی جن میں راقم الحروف کے علاوہ سابق سیکرٹری دفاع جنرل آصف یاسین ملک اور قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال شامل تھے۔
جس طرح طالبان نے پاک افغان سرحد کو بے معنی کردیا تھا، اسی طرح داعش نے عراق اور شام کی سرحد کو پہلے پامال کیا اور اب بارڈر کے دونوں جانب وسیع علاقے پر قبضہ کرکے ایک نئے ملک کی تشکیل کردی ہے۔ ابوبکر بغدادی نامی شخص اس سلطنت کا امیر ہے۔ خوش قسمتی سے دنیا کے ایک ملک نے بھی اس نئے ملک اور اس کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ سعودی حکومت اور دوسرے خلیجی ممالک کو یہ خطرہ ہے کہ القاعدہ کی طرح داعش کا ایجنڈا بھی انٹرنیشنل ہے۔ یعنی یہ لوگ تمام عرب ممالک میں اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ مغربی ممالک طالبان اور القاعدہ کو دیکھ چکے ہیں ۔ لہٰذا داعش جسے انگریزی میں ISISکہا جاتا ہے، کی پیش بندی کے لیے مغربی ممالک میں امریکہ اور فرانس پیش پیش ہیں۔ خلیج کے عرب ممالک کا تعاون بھی انہیں حاصل ہے۔
لیکن داعش کے خلاف جنگ میں کئی ملک متذبذب لگتے ہیں۔ مثلاً جدہ میں ہونے والی میٹنگ جہاں داعش کے خلاف صف بندی ہورہی تھی وہاں ترکی نے فائنل بیان پر دستخط نہیں کیے۔ امریکہ کی خواہش تھی کہ داعش پر فضائی حملوں کے لیے ترکی اپنے ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دے لیکن ترکی نے یہ اجازت بھی نہیں دی۔ عام خیال یہ ہے کہ داعش کو زیادہ کمزور کرنا ترکی کے مفاد میں نہیں۔ ایک طاقتور داعش عراق کے کردوں سے مقابلہ کرتی رہے گی۔ کرد کمزور ہوں گے تو اپنے علیحدہ ملک کا سوچ نہیں سکیں گے۔
داعش نے اوپر تلے تین مغربی صحافیوں اور امدادی کام کرنے والوں کو بڑے سفاکانہ طریقے سے قتل کیا ہے اور پھر پورے عمل کی ویڈیوز بناکر جاری کی ہیں۔ مغربی ممالک کے اس خطہ میں دو بنیادی مفادات ہیں! ایک تو یہ کہ تیل کی سپلائی جاری رہے اور تیل کی قیمت بہت زیادہ اوپر نہ چلی جائے۔ دوسرے مڈل ایسٹ میں کوئی ایسی قوت نہ ہو جو اسرائیل کو چیلنج کرسکے۔ خلیج کے تمام عرب ممالک کے ساتھ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کے دوستانہ تعلقات عرصے سے ہیں۔ امریکہ کو پچھلے ستر سال سے اس خطہ کی سکیورٹی کا ضامن سمجھا جاتا ہے اور خلیج میں مغربی اثرو رسوخ ایران کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
کانفرنس کے پہلے ہی روز یعنی 15ستمبر کو ریاض کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں شرکاء کے لیے ڈنر کا بندوبست تھا۔ تمام شرکاء کو اسی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔ ڈنر میں پرنس عبدالعزیز بن عبداللہ جو نائب وزیر خارجہ ہیں، مہمان خصوصی تھے۔ پرنس عبدالعزیز خادم الحرمین کے صاحبزادے ہیں۔ مہمانوں کا ان سے تعارف کرایاگیا۔ جب میری باری آئی تو پرنس عبدالعزیز کہنے لگے کہ پاکستان کے لیے ہمارے دلوں میں خاص محبت اور احترام ہے۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بالکل ایسے ہی احساسات ہر پاکستانی کے دل میں برادر ملک سعودی عرب کے بارے میں ہیں اور حرمین شریفین کی بدولت ہماری سعودی عرب سے محبت ابدی ہے۔
ایران بھی کانفرنس میں زیر بحث رہا گو کہ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عرب ممالک کے خدشات کم ہوئے ہیں لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے۔ اس کانفرنس میں ایران کا کوئی نمائندہ نہ تھا۔ ویسے میرا اپنا خیال ہے کہ ایرانی تعاون کے بغیر خلیج کی سکیورٹی کا کوئی بھی نظام مکمل نہیں ہوگا۔
بھارت سے سابق خارجہ سیکرٹری راجیو سکری آئے ہوئے تھے ۔ عرب اور اسلامی ممالک میں بھارت والے بار بار کہتے ہیں کہ انڈونیشیا کے بعد سب سے بڑی مسلمان آبادی بھارت میں ہے۔ ستر لاکھ بھارتی خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں۔ بھارت اپنے تیل کی دو تہائی ضروریات خلیجی ممالک سے پوری کرتا ہے۔ لہٰذا اس خطے میں عدم استحکام بھارت کے مفاد میں نہیں۔ راجیو سکری نے کانفرنس میں تجویز دی کہ ایران اور اسرائیل کو علاقائی سکیورٹی نظام کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان کی اس تجویز کو بالکل پذیرائی نہیں ملی۔ میں نے سکری صاحب سے سوال پوچھا کہ مڈل ایسٹ میں بدامنی کی بنیادی وجہ اسرائیل ہے اور بھارت عسکری شعبے میں اسرائیل کے ساتھ تعاون کو بہت ترقی دے رہا ہے تو کیا بھارت اسرائیل تعاون خطے کے مسائل میں اضافہ نہیں کرے گا۔ سکری صاحب کا جواب تھا کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے، کئی عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھتے ہیں اور بھارت نے فلسطین کے بارے میں اپنی پالیسی قائم رکھی ہے۔
میں 1980ء کی دہائی میں چھ سال ریاض میں سفارت خانہ پاکستان میں کونسلر اور منسٹر رہا۔ منسٹر کا رینک سفیر سے ایک درجہ کم ہوتا ہے۔ آج کے ریاض میں اور اس زمانے کے ریاض میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج یہ شہر بہت پھیل چکا ہے۔ دوسرے روز ہمارا ڈنر قدیم ریاض میں تھا۔ پہلے ہمیں ایک وسیع و عریض میوزیم دکھایا گیا جو حال ہی میں بنا ہے۔ پانچ ہزار سال پرانی اشیاء سے لے کر زمانہ حاضر تک کی تاریخ ایک ہی عمارت کے آٹھ ہال کمروں میں جمع کردی گئی ہے۔ میوزیم دکھانے کے بعد ہماری روایتی عربی کھانوں سے تواضع کی گئی۔ عربی حلویات میں مجھے ام علی بے حد پسند ہے۔ یہ ہمارے شاہی ٹکڑے سے مشابہت رکھتی ہے لیکن بنائی مختلف طریقے سے جاتی ہے اور چینی بھی مناسب سی ہوتی ہے۔
کانفرنس میں امریکہ ، فرانس، برطانیہ ، چین، بھارت، پاکستان ، فلسطین، عرب امارات، عراق اور یمن کے نمائندے بولے۔ حسب توقع فلسطین کے نمائندے صائب اریکات کی تقریر لمبی اور جذباتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین میں ظلم خطے میں انتہا پسندی کا بنیادی سبب ہے۔
برادر ملک سعودی عرب کو کئی طرف سے سکیورٹی خدشات ہیں۔ شمال میں داعش ہے تو جنوب میں یعنی یمن میں حوثی بغاوت ہے۔ القاعدہ نے بھی شام اور یمن میں پائوں جما لئے ہیں۔
اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے سعودی عرب کے قائدین کا ذہن بالکل کلیئر ہے۔ وہ داعش اور القاعدہ کو فتنہ سمجھتے ہیں اور مقابلے کے لیے مغربی ممالک کا تعاون حاصل کرچکے ہیں۔ یہ جنگ طویل ہوگی۔ سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل کا کہنا ہے کہ لڑائی دس سال چلے گی۔ ان کی بات میں وزن ہے کہ گوریلا جنگیں لمبی چلتی ہیں۔ سعودی عرب نے امریکہ کو اجازت دے دی ہے کہ وہ سعودی سرزمین پر شام کی معتدل اپوزیشن کے سپاہیوں کی تربیت کرے۔ امریکی کانگرس نے تربیت کے عمل کی منظوری بھی دے دی ہے۔ تو گویا بشارالاسد کی حکومت اور داعش سے بیک وقت لڑائی ہوگی۔
آج سے چوبیس سال پہلے جب میں سعودی عرب میں تھا تو اجانب میں یہ تاثر عام تھا کہ سعودی باشندے یا تو شرمیلے ہیں یامتکبر۔ وہ فارنرز سے کم ہی بات کرتے تھے۔ شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انگریزی ایک محدود طبقے کو آتی تھی۔ نئی سعودی نسل بہت مختلف ہے۔ وہ انگریزی فرفر بولتے ہیں ۔ جب واپسی کے سفر میں ہم ریاض سے بحرین محو پرواز تھے تو ساتھ کی سیٹ پر بیٹھے ڈاکٹر رائد سے خوب باتیں ہوئیں۔ میں نے اپنی خوش گوار حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر رائد کو کہا کہ سعودی باشندے اور سعودی عرب دونوں نے ذہنی اور مادی طور پر خوب ترقی کی ہے۔ ڈاکٹر رائد کا کہنا تھا کہ 1991ء میں ٹی وی چینلز کے ذریعے سعودی باشندوں کا باہر کی دنیا سے رابطہ ہوا، آج پونے دو لاکھ سعودی سٹوڈنٹ مغربی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں اور 150ممبران پر مشتمل سعودی پارلیمنٹ میں تیس خواتین بھی ہیں۔ یہ بذات خود بڑا انقلاب ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں