"JDC" (space) message & send to 7575

نزار قبانی

نزار قبانی میرا پسندیدہ عربی شاعر ہے۔ جدید عربی شاعری کا یہ رومانوی شہزادہ 1923ء میں دمشق میں پیدا ہوا۔ نزار کے والد چاکلیٹ کی فیکٹری کے مالک تھے۔پڑھے لکھے انسان تھے۔ فرانسیسی استعمار کے خلاف سرگرم عمل رہے۔ نزار کا اپنا بیان ہے کہ اس کی والدہ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھیں وہ خاصی توہم پرست تھیں۔ نزار جسمانی طور پر بچپن میں کمزور تھا ۔بیٹا جب بھی بیمار ہوتا والدہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی بجائے کسی عامل کے پاس تعویز اورگنڈے کے لیے لے جاتیں۔تیرہ سال کی عمر تک نزار کی والدہ اس کے منہ میں اپنے ہاتھ سے لقمے ڈالتی رہیں۔نزار کو بھی اپنی ماں سے بے پناہ محبت تھی۔ اس محبت کا اظہار اس نے اپنی مشہور نظم ''خمس رسائل الیٰ امّی‘‘ یعنی والدہ کے نام پانچ خط کے ٹائٹل والی نظم میں کیا ہے۔میرے نزدیک یہ نظم ایک شاہکار ہے ۔
نزار کی عمر پندرہ سال تھی جب اس کی بڑی بہن نے خودکشی کر لی۔ اس واقعہ نے نزار کو ہلا کر رکھ دیا۔ خودکشی کی وجہ وہی تھی جو ہمارے معاشرے میں بھی نظر آتی ہے۔یعنی نزار کے والدین اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کرنا چاہتے تھے۔نزار نے تبھی سماجی ناانصافیوں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔چند سال بعد دیے گئے انٹرویو میں نزار نے کہا ''عرب دنیا میں محبت ایک قیدی کی مانند ہے اور میں اس قیدی کو رہائی دلانا چاہتا ہوں۔میں اپنی شاعری کے ذریعے عرب دنیا کی روح اور افکار کو آزادی دلائوں گا‘‘۔ 
نزار نے نوجوانی میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ اس کی نظموں میں رومانوی رنگ غالب تھا۔اس کی بے باک شاعری نے دمشق کے قدامت پسند معاشرے میں ہلچل مچا دی۔ایک روز نزار کے والد توفیق قبانی نے اپنی بیوی سے کہا کہ ہمارے بیٹے میں شاعری کا زہر سرایت کر گیا ہے‘ اسے کسی اچھے سے عامل کے پاس لے کر جائو ۔نزار نے کئی دفعہ خود اس واقعہ کا ذکر کیا۔ وہ فخر سے کہتا تھا کہ یہ زہر ساری عمر میرے ساتھ رہے گا۔ کالج میں ہی شاعری کی پہلی کتاب تیار ہو گئی۔ توصیفِ حسن و جمال نوجوان نزار کی شاعری کا بنیاد ی رکن تھا اور لہجہ بے حد بے باک تھا‘ لہٰذا فیملی کا خیال تھا کہ یہ کتاب شائع نہیں ہونی چاہیے۔شام کے اس وقت کے وزیر تعلیم منیر العجلانی نزار کے والد کے دوست تھے۔نزار نے کتاب کا نسخہ انہیں دکھایا ۔وزیر تعلیم کا اصرار تھا کہ کتاب شاعری کی دنیا میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے‘ اسے ضرور چھپنا چاہیے۔منیر العجلانی نے اس کتاب کا دیباچہ بھی لکھا۔
میں 1974ء میں امریکن یونیورسٹی قاہرہ کے عربی ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوا۔ اس زمانے میں عبدالحلیم حافظ کی گائی ہوئی نظم قارئۃ الفنجان بہت پاپولر تھی۔ قارئۃالفنجان کے معنی ہیں ''کافی کپ ریڈر‘‘۔ مصر‘ لبنان اور یونان میں عرصے سے رواج ہے کہ لوگ کافی پینے کے بعد اپنا خالی کپ ایسی خواتین کو دکھاتے ہیں جو غور و فکر کے بعد مستقبل کا حال بتاتی ہیں۔ قارئۃ الفنجان نزار قبانی کی نظم ہے جسے عبدالحلیم حافظ نے گا کے امر کر دیا۔میں نے اس نظم کے کچھ اشعار کا خود ترجمہ کیا ہے(معمولی تصریف کے ساتھ): 
دیکھتے ہی مرا کافی کپ
اس کی آنکھوں میں کس قدر خوف تھا
غم نہ کھائو بیٹے پیارے مرے
تیری قسمت میں ہے زندگی 
بہت ہی محبت، بہت ہی محبت
دنیا جہاں کی نازنینوں سے
پر لوٹو گے ہر معرکے کے بعد تم
ہزیمت زدہ بادشاہ کی طرح
پڑھے ہیں میں نے کئی کافی کپ
نظر نہ آیا مگر ایسا کپ کبھی
تمہارے غم بھی ہیں عجیب و غریب
تمہارا کپ ہے اوروں سے جدا
تم محبت میں سدا جلتے رہو گے
تلوار کی تیز وتند دھارپر
لوٹو گے ہر معرکے کے بعد تم
ہارے ہوئے بادشاہ کی طرح
دمشق یونیورسٹی سے ایل ایل بی کرنے کے بعد نزار شامی فارن سروس میں شامل ہوا۔ بطور سفارت کاروہ چین اور سپین میں رہا۔عرب تاریخ نزار کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اندلس غرناطہ اور قرطبہ میں اسے طارق بن زیاد اور عبدالرحمن داخل یاد آتے ہیں۔ صحرائے شام کے کھجوروں کے باغات اس کی نظروں میں گھومتے ہیں۔ سفارت کاری کے زمانے میں نزار کا ذہنی افق خاصا وسیع ہوا۔
مجھے نزار قبانی اور احمد فراز میں خاصی مماثلت نظر آتی ہے۔ دونوں پڑھے لکھے تھے۔ لبرل خیالات رکھتے تھے۔رومانویت دونوں کی شاعری میں جگہ جگہ ملتی ہے۔ دونوں نظام سے شاکی اور باغی تھے۔ دونوں کو اپنے اپنے اوطان سے گہری محبت ہے۔ دونوں بے باکی سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔احمد فراز کہتا ہے ؎
تو خدا ہے، نہ میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں 
نزار کا کہنا ہے کہ وہ محبت اور جنسی جذبات کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ بات بشریت کے خلاف ہے۔ 
نزار کو عالم عربی سے بے پناہ محبت تھی۔ اس محبت کی جھلک اس کی شاعری میں جا بجا ملتی ہے۔ فلسطین کے بارے میں نزار کی ایک شاندار نظم کو ام کلثوم نے گایا ہے۔ میرے پاس ام کلثوم کی آواز میں یہ اشعار محفوظ ہیں اور میں اکثر انہیں سنا کرتا ہوں۔نزار کے خوبصورت اشعار اور ام کلثوم کی کانوں میں رس گھولتی ہوئی آواز سے فلسطین میں کیا گیا استعماری ظلم ایک تصویر کی شکل میں آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔میں نے چند اشعار کا ترجمہ کیا ہے؛
میرے ہاتھ میں آ گئی ہے بندوق
لے چلو اے حریت پسند
مجھے ساتھ اپنے فلسطین لے چلو
دیکھوں میں اپنے گھر کے کونے 
ڈھونڈوں گا میں اپنی سائیکل
کہاں گئے وہ محلے کے دوست
میری کتابیں کہاں کھو گئی ہیں
جب سے آئی ہے بندوق میرے ہاتھ میں
آ گیا ہے فلسطین میرے بہت ہی قریب
سرکاری ملازمت نزار جیسے آزاد فکر انسان کے لیے پھولوں کی سیج نہ تھی۔ بیس سال سروس کے بعد اس نے استعفیٰ دے دیا۔نزار کو دمشق سے اتنی ہی محبت تھی جتنی اپنی ماں سے۔لیکن بعث پارٹی کی حکومت والے شام میں بھی آزاد خیال نزار کا دل نہ لگا ۔مجبوراً اسے دمشق چھوڑنا پڑا۔ وہ بیروت میں رہائش پذیر ہوا اور ایک لحاظ سے یہ اچھا فیصلہ تھا۔نزار نے حکمرانوں کے خلاف ایسی زور دار شاعر ی کی ہے کہ وہ شام میں رہ کر وہ نظمیں لکھتا تو ضرور گرفتار ہو جاتا۔
یہاں نزار کی اس محبت کا ذکر ضروری ہے جو پوری عرب دنیا میں مشہور ہوئی۔نزار 1962ء میں ایک مشاعرہ میں شرکت کے لیے بغداد گیا ہوا تھا کہ اس کی ملاقات ایک عراقی خاتون بلقیس الرادی سے ہوئی۔ دونوں پہلی ہی ملاقات میں دل دے بیٹھے۔بلقیس کا تعلق عراقی قبائل سے تھا جو طبعاً قدامت پسند ہوتے ہیں۔ نزار شادی شدہ تھا۔اس نے بلقیس کی شان میں قصیدے لکھنا شروع کر دیے۔اس بات سے بلقیس کے عزیز و اقارب بہت سیخ پا ہوئے۔قبیلے کی مخالفت کی وجہ سے سات سال تک یہ شادی نہ ہو سکی۔1969ء میں نزار ایک اور مشاعرے کے لیے بغداد گیا اور وہاں چند اشعار پڑھے جو زبان زد خاص و عام ہوئے۔ ترجمہ کچھ یوں ہے: 
اے عراق مرحبا میں آیا ہوں گانے
درد بھرے راگ
جو ٹکڑے کر گئے دل کے میرے
جو باقی بچے خواتین لے گئیں
یہ اشعار سن کر عراقی زعماء کو دل کے معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہوا؛ چنانچہ حکومت کی طرف سے ایک وفد ترتیب دیا گیا۔وفد کے سربراہ نوجوانوں کے امور کے وزیر شفیق الکمالی تھے۔وفد بلقیس کے قبیلے کے سردار کے پاس گیا اور نزار کے لیے بلقیس کا رشتہ مانگا اور محبت کا یہ طویل اور مشہور قصہ اچھے انجام کو پہنچا۔بلقیس شادی کے بعد نزار کے ساتھ بیروت میں رہنے لگی۔  
شادی کے دس سال مکمل ہوئے تو نزار نے جو شعر لکھے ان کا ترجمہ کچھ یوں ہے: 
میں شاہد ہوں کہ دنیا میں فقط تم ہو 
ایک ہی عورت جس نے
نظر انداز کیں حماقتیں میری
صبر کیا میرے جنوں پر
اور سنوارے میرے بال
درست کیں میری کتابیں
اور کرایا داخل مجھے نرسری میں
میرے لیے لائیں تم کتنے کھلونے
اورکتنے سارے پھول
پچاس سالہ شخص کا رکھا خیال
چند ماہ کے طفل کی طرح
نزار کی ساری نظمیں آزاد ہیں۔بلقیس بیروت میں عراقی سفارت خانے میں کام کرتی تھی۔لبنان میں سول وار جاری تھی ۔ایک روز عراقی سفارت خانے پر حملہ ہوا اور بلقیس شہید ہو گئی۔نزاردل شکستہ ہو گیا۔اس نے اپنی مشہور نظم ''قصیدہ بلقیس‘‘ لکھی۔ نزار نے حکمرانوں کو بلقیس کا قاتل گردانا کہ اس کے تجزیے کے مطابق لبنانی سول وار حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ تھی۔
نزار نے عرب شاعری کو آسان انداز دیا اور اسے عوام تک پہنچایا۔ حکام سے جرأت کے ساتھ تخاطب کیا۔جی ہاں یہ وہی نزار ہے جس نے نوجوانی میں کہا تھا کہ وہ محبت کو مقید نہیں دیکھ سکتا۔ وہ عرب روح کو آزاد کرانا چاہتا تھا۔ وہ عرب افکار کو بال وپر دینا چاہتا تھا۔ 1998ء میں نزار کا انتقال ہوا ع 
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں