"JDC" (space) message & send to 7575

پاکستان کے روشن امکانات

پاکستان ایک دلچسپ اور سخت جان ملک ہے۔ قدرت نے ہمیں زرخیز زمین‘ وافر پانی‘ چاروں موسم اور معدنی وسائل عطا کئے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ذہین لوگ جو مناسب تربیت سے بہت کچھ سیکھ جاتے ہیں۔ سخت جان کی اصطلاح اناطول لی ون سے مستعار ہے جس نے یہ الفاظ اچھے معنوں میں استعمال کئے ہیں۔ اناطول لی ون کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں بڑی سکت ہے۔ یہاں لوگ برے سے برے وقت کو باہمی بھائی چارے کی وجہ سے اچھی طرح گزار لیتے ہیں۔ یہ بھی محل نظر رہے کہ اپنی 67سالہ تاریخ میں اس ملک نے بہت اتار چڑھائو دیکھے مگر پچاس سال ایسے ہیں جن میں مثبت اقتصادی ترقی ہوئی۔2005ء میں ہمارا شمار دنیا کے تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک میں کیا گیا اور یہ عالمی ماہرین کی رائے تھی ۔
لیکن اس بات کا ادراک بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے بارے میں عالمی آراء متضاد رہی ہیں۔2012ء میں رابرٹ کیلان نے کہا تھا کہ پاکستان کا تجزیہ کریں تو کیڑے ہی کیڑے نکلتے ہیں۔ فنڈ فار پیس(Fund for Peace) ایک عالمی تنظیم ہے جو پچھلے چند سالوں سے ناکام ریاستوں کی لسٹ بنا رہی ہے۔ اس کی فہرست کے مطابق 2008ء میں پاکستان کا ایسے ممالک میں آٹھواں نمبر تھا جو ناکامی کی طرف بڑھ رہے تھے گویا ناکام ریاست والی علامات ہمارے ہاں خاصی واضح تھیں۔ اس سے صرف تیس سال پہلے ورلڈ بنک نے پاکستان کو اقتصادی اصلاحات کے اعتبار سے دنیا کا نمبر ایک ملک قرار دیا تھا۔2014ء میں عالمی مبصرین کی رائے پاکستان کے بارے پھر سے مثبت ہونے لگی۔ ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف‘ ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور اقتصادی معیار جانچنے والا ادارہ یعنی 'Moodys‘ سب پاکستان کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کر رہے تھے کہ دھرنے شروع ہو گئے اور ملک کی اقتصادی ترقی کو پھر بریک لگ گئی اور اس وقت خطے کے تمام ممالک ماسوائے افغانستان ہم سے تیز ترقی کر رہے ہیں۔
جِم اونیل وہ ممتاز برطانوی ماہر اقتصادیات ہے جس نے 2001ء میں برازیل ‘ روس‘ انڈیا اور چین کے لیے برکس(Brics) کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اونیل کا کہنا تھا کہ یہ چاروں ممالک اپنی شاندار ترقی کی بدولت عالمی معیشت میں بڑے اہم ہو جائیں گے۔ اونیل کی تازہ ترین اصطلاح 'MINT‘ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میکسیکو‘ انڈونیشیا‘ نائیجیریا اور ترکی عالمی اقتصادی افق پر نمودار ہونے والے نئے ستارے ہوں گے۔ MINTمیں تمام حروف ابجد ان چار ممالک سے منسوب ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اونیل نے یہ بھی کہا ہے کہ آئندہ پینتیس (35) سالوں میں پاکستان شاندار اقتصادی ترقی کرے گا۔ مجموعی قومی پیداوار کے حساب سے پاکستان کی اکانومی اس وقت دنیا میں 44نمبرپر ہے۔ اونیل کا خیال ہے کہ 2050ء میں ہمارا ملک دنیا میں اٹھارویں نمبر پر ہو گا۔
اونیل کے منہ میں گھی شکر ۔لیکن یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ پاکستان میں تیز اقتصادی ترقی صرف ان سالوں میں ہوئی ہے جب ملک میں سیاسی استحکام تھا مثلاً ایوب خان کے پہلے چھ سال۔ 2005ء کا زمانہ پھر سیاسی استحکام کا زمانہ تھا۔ خلیجی ممالک ہمارے ہاں سرمایہ کاری میں بہت دلچسپی لے رہے تھے اور پھر اچانک عدلیہ کی آزادی کی تحریک شروع ہو گئی اور اقتصادی ترقی پھر پس پشت رہ گئی۔ جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں ترکی کے وزیر اعظم احمد دائود اوغلو پاکستان میں ہیں۔ مہمان وزیر اعظم نے ہمارے روشن امکانات کا واضح الفاظ میں ذکر کیا ہے۔ ترکی نے پچھلے پندرہ بیس سال میں شاندار ترقی کی ہے۔ ترکی نے ایک عرصے سے یورپی یونین کا ممبر بننے کی درخواست دے رکھی ہے لیکن یورپی یونین کے ممالک نے اسے نظر انداز کیا۔ تاہم ایک بڑا فائدہ ضرور ہوا کہ ترکی کو یورپی یونین کی مکمل ممبر شپ تو نہیں ملی مگر وہ یورپی کسٹم یونین کا ممبر بن گیا ہے۔ اسی وجہ سے ترکی کی برآمدات 150ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں۔
ترکی کا ٹورازم سیکٹر زرمبادلہ کمانے کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ وہاں 33ملین یعنی سوا تین کروڑ سے زائد سیاح ہر سال آتے ہیں۔ ہمارے ہاں ٹورازم کی ترقی کے واضح امکانات ہیں مگر یہ سیکٹر انتہا پسندی کی نذر ہو گیا ہے۔ میرے اپنے کئی عزیز اور دوست جو برطانیہ‘ کینیڈا اور امریکہ میں رہتے ہیں پاکستان آنے سے پہلے سکیورٹی کے حوالے سے کئی سوال پوچھتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے ہمارے پاس بلند ترین پہاڑ ہیں۔ سوات‘ ٹیکسلا‘ تخت بائی‘ لاہور‘ کٹاس راج‘ ننکانہ صاحب‘ موہنجو ڈارو‘ رہتاس کا قلعہ اور بہت کچھ ہے۔ میرے عرب دوست اکثر کہتے ہیں کہ پاکستان شمالی علاقوں میں ایک انٹرنیشنل ایئرپورٹ بنا دے ۔ جھیل سیف الملوک کے پاس فائیو سٹار ہوٹل بن جائے اور تمام علاقے میں فول پروف سکیورٹی ہو تو عرب اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہزاروں کی تعدادمیں آئیں گے۔ اس لیے کہ بہت سے عرب اپنے بیوی بچوں کو مغربی ممالک لے کر نہیں جانا چاہتے۔
میرے دوستوں میں ایک بحث عرصے سے چل رہی ہے کہ پاکستان ترکی بنے گا یا صومالیہ۔ میں کہا کرتا ہوں کہ پاکستان صومالیہ ہرگز نہیں بن سکتا اس لیے کہ ہمارے کئی ادارے اب بھی فعال ہیں۔ لہٰذا ہمارے ترکی بننے کے امکانات روشن ہیں۔
میرے یہ خیالات چند ٹھوس دلائل اور امکانات کی وجہ سے ہیں۔ مثلاً پاکستان اور چین کے درمیان جو بڑا اقتصادی کوریڈور بننے جا رہا ہے‘ اُس میں 45ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری متوقع ہے۔ گوادر کو کاشغر سے ملانے والی یہ راہداری صرف ایک بڑی سڑک ہی نہیں ہو گی‘ یہاں بجلی بھی بنے گی۔ پائپ لائنیں بھی بچھیں گی۔ ریلوے لائن بھی ہو گی۔ میں ارمچی اور کاشغر دیکھ آیا ہوں‘ وہاں بے پناہ اقتصادی ترقی ہونے والی ہے اور وہاں کی صنعتوں کے لیے انرجی کے وسائل پاکستان کے راستے جائیں گے ۔ ایسی ہی ایک راہداری چین‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور برما کے ساتھ بھی بنا رہا ہے۔ یہ ایسا منصوبہ ہے جو پاکستان کی عمومی طور پر اور بلوچستان‘ خیبر پختونخوا کی خاص طور پر اقتصادی قسمت بدل دے گا بشرطیکہ ہم نے سنجیدگی اور پروفیشنل طریقے سے کام کیا۔ اب تک تو لگتا ہے کہ ہم فقط گفتار کے غازی ہیں۔ پاک چائنا کو ریڈور پر اگر ہماری طرف سے دیر نہ ہوئی تو کام چند سالوں میں شروع ہو جائے گا اور 2030ء تک مکمل ہو گا۔ دیر کرنے میں نقصان ہمارا ہی ہو گا کہ چین دوسرے راستوں کی تلاش شروع کر دے گا۔
پاکستان اپنے محل وقوع کی وجہ سے تجارت اور انرجی کی ٹرانزٹ فیس سے اپنے سارے دلّدر دور کر سکتا ہے۔ مثلاً ترکی کی سنٹرل ایشیا کے لیے تمام برآمدات ایران کے راستے جاتی ہیں اور ایران ہر ٹریلر کی بارہ سو ڈالر ٹرانزٹ فیس لیتا ہے۔ ہزاروں ترکی ٹریلر ایران کے راستے سنٹرل ایشیا جاتے ہیں۔ اسی طرح سے جو ممالک باکو کی پائپ لائن سے تیل برآمد کرتے ہیں وہ آذر بائیجان کی حکومت کو پانچ ڈالر فی بیرل دیتے ہیں ۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ پانچ سے دس سال کے عرصے میں پاکستانی شاہراہوں پر بے شمار چینی‘ بھارتی‘ افغانی‘ ایرانی ٹریلر نظر آئیں گے۔ ترکمانستان سے آنے والی گیس پائپ لائن افغانستان کے راستے پاکستان آئے گی۔ اور طے یہ پایا ہے کہ افغانستان کو رائلٹی مفت گیس کی صورت میں ملے گی اور جب بھارت یہی گیس پاکستان کے ذریعہ امپورٹ کرے گا تو ہمیں رائلٹی دے گا۔
مجھے یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ اگلے پانچ سے دس سال میں کئی پاکستانی خلیجی ممالک سے واپس آئیں گے۔ وہاں کے نوجوان پڑھ لکھ کر غیر ملکی ورکرز کی جگہ ایک حد تک لے لیں گے۔ اگر بیرون ملک پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی‘ انہیں مناسب رہنمائی ملی اور ملک سے بدامنی کو دیس نکالا مل گیا تو واپس آنے والے پاکستانی ہماری ترقی مارچ میں آگے آگے ہوں گے۔ پاکستان کا اقتصادی مستقبل یقینا تابناک ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں