"JDC" (space) message & send to 7575

ایرانی ایٹمی معاہدہ

ایران اور دنیا کے چھ اہم ممالک کے مابین حالیہ ایٹمی معاہدہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ایران پھر سے عالمی برادری میں واپس آیا ہے۔ ایٹمی ریسرچ کے پرامن استعمال کا حق ایران نے عالمی قوتوں سے منوا لیا ہے۔ اس لحاظ سے اسے ایران کی سفارتی فتح کہا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب ایران کا ایٹمی پروگرام خاصی حد تک محدود کردیاگیا ہے۔ اب ایران مہینوں میں ایٹمی ہتھیار نہیں بنا سکے گا اور وہ جو ہم اکثر سنا کرتے تھے کہ امریکہ خود یا اسرائیل کے ذریعے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرے گا‘ وہ خطرہ اب ٹل گیا ہے۔
ایٹمی قوت کی تلاش میں وہ قومیں نکل پڑتی ہیں جنہیں عدم تحفظ کا شدید احساس ہو، مثلاً 1971ء کے فوری بعد والا پاکستان۔ انقلاب کے فوراً بعد ایران کو ایک لمبی جنگ لڑنا پڑی۔ تب ایرانی لیڈر شپ کو احساس ہوا کہ اگر ان کے پاس ایٹمی قوت ہوتی تو اس جنگ سے بچے رہتے۔ لیکن ایران ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط کرچکا تھا۔ لہٰذا اسے اپنا ایٹمی پروگرام خفیہ طور پر شروع کرنا پڑا۔ دوسرا ایران جس خطے میں واقع ہے وہاں تمام اہم ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ روس ، چین،بھارت، اسرائیل اور پاکستان ایٹمی قوت رکھتے ہیں تو ایران جو دوہزار سال پہلے ایک عظیم عالمی قوت تھا‘ کیوں پیچھے رہتا۔
اور آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس معاہدے کی چیدہ چیدہ تفاصیل کیا ہیں۔ لیکن یہ ضرور پیشِ نظر رہے کہ یہ معاہدہ فائنل نہیں ہے‘ یہ صرف ایک خاکہ ہے اور فائنل معاہدہ جون میں ہونا ہے۔ اس وقت ایران کے پاس بیس ہزار سینٹری فیوج ہیں۔ یہ یورینیم کی افزودگی کے لیے اہم ترین چیز ہے۔ سینٹری فیوج خام دھات سے بنایا جاتا ہے۔ یورینیم اس میں جتنا عرصہ رکھی جائے گی‘ اتنی ہی زیادہ افزودہ ہوسکے گی۔ تو گویا جس طرح سے سی پی یو کے بغیر کمپیوٹر نہیں چل سکتا‘ سینٹری فیوج کے بغیر یورینیم کی افزودگی محال ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران اب صرف چھ ہزار سینٹری فیوج رکھ سکے گا۔
ایٹمی ہتھیار بنانے کے دو راستے ہیں۔ ایک یورینیم کے ذریعے اور دوسرا پلوٹونیم کے ذریعے‘ پاکستان نے یورینیم والا راستہ اپنایا تھا۔ بھارت نے پلوٹونیم کو ترجیح دی تھی۔ ایران دونوں طریقوں کا بغور جائزہ لینے کے بعد پاکستان کے نقش قدم پر چلا اور یہ امر ہمارے سائنس دانوں کی عقلمندی، مہارت اور صائب فیصلوں کی دلیل ہے۔
کاروں کی طرح سینٹری فیوج اب کئی ماڈل کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جدید ترین سینٹری فیوج یورینیم کو بہتر طور پر افزدہ کرتے ہیں۔ موجودہ معاہدے کے تحت ایران کو صرف فرسٹ جنریشن یعنی سب سے پرانے ماڈل کے سینٹری فیوج رکھنے کا اختیار ہوگا۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کم از کم اسی فیصد افزودگی درکار ہے۔ نوے فیصد ہوجائے تو اور بھی اچھا ہے۔ لیکن اس معاہدے کے تحت ایران کو فقط تین اعشاریہ سڑسٹھ افزودگی کی اجازت سے وہ ایٹمی قوت بننے سے چند سال پیچھے چلا گیا ہے تو گویا امریکہ اور اسرائیل کو لاحق فوری خطرہ ٹل گیا ہے۔
ایران کے پاس اس وقت دس ہزار کلو گرام افزدوہ یورینیم ہے۔ اس یورینیم کی مقدار تین سو کلو گرام تک محدود کردی گئی ہے ۔ جب ویانا میں قائم انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے انسپکٹر اس بات کی تصدیق کردیں گے کہ ایران معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کررہا ہے تو ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھالی جائیں گی۔
ایران پر اقتصادی پابندیاں تین اطراف سے لگی تھیں۔ اقوام متحدہ‘ یورپی یونین اور امریکہ نے مختلف قسم کی پابندیاں لگائیں مثلاً ایران کی تیل کی برآمدات کو محدود کردیاگیا۔ جو انٹرنیشنل کمپنیاں ایران میں کام کررہی تھیں وہ امریکہ میں کام نہیں کرسکتی تھیں۔ ایران کے ساتھ کئی ممالک کی تجارت محدود ہوگئی۔ جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن بھی انہی پابندیوں کا شکار ہوئی۔ امریکہ کے خوف سے کوئی بڑی انٹرنیشنل کمپنی اس کام میں ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں تھی۔
اقتصادی پابندیوں میں جکڑا ایران معاشی طور پر خاصا کمزور ہوگیا۔ کرنسی کی قدر بری طرح متاثر ہوئی۔ برآمدات گرنے سے فارن کرنسی کے اثاثے کم رہ گئے۔ امریکی بینکوں میں ایرانی اثاثے منجمد کردیے گئے۔ ایران میں قیمتوں میں بے حد اضافہ ہوا۔ ان حالات میں ڈر تھا کہ عوام حکومت کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے اور ایران کی خوش قسمتی کہ احمدی نژاد کی جگہ حسن روحانی صدر بن گئے جو فارن پالیسی میں لچکدار رویہ رکھتے ہیں۔
ایران میں اس معاہدے کے بعد خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اقتصادی ترقی، بین الاقوامی تجارت اور بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ پانچ دس سال میں ایران ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طور پر ابھرے اور دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں اقتصادی قوت زیادہ اہم ہے۔ جاپان کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
پاکستان کے لیے یہ معاہدہ خوش آئند ہے۔ گیس پائپ لائن کی راہ میں بڑی رکاوٹ دور ہوجائے گی اور وہ جو کہا جارہا تھا کہ ایران کے بعد پاکستان کی باری ہے‘ وہ انجانا خوف بھی ٹل جائے گا۔ ترکمانستان سے آنے والی پائپ لائن کا روٹ بہت لمبا تھا۔ دوسرے اسے افغانستان سے گزر کر آنا تھا۔
میں عرب میڈیا کو دیکھتا اور پڑھتا رہتا ہوں۔ پچھلے دنوں ایک یونیورسٹی میں گلف سکیورٹی کے حوالے سے لیکچر دینا تھا تو عربی کے اخباروں کا بغور مطالعہ کرناپڑا۔ ایرانی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عربوں کو اب بھی تحفظات ہیں۔ موقر جریدے الشرق الاوسط میں ایک مشہور کالم نگار نے لکھا ہے کہ اس معاہدے کے ذریعے دراصل ایران پورے خطے میں اپنے رول کی امریکہ اور دوسرے اہم ممالک سے تصدیق کروا رہا ہے۔ گویا کہ ایران کو اب عراق، شام ، لبنان اور یمن میں کھل کر کھیلنے کی کھلی چھٹی ہوگی۔ مجھے اس رائے سے اتفاق نہیں۔
ایک اہم عربی کالم نگار عبدالرحمن راشد نے لکھا ہے کہ ایران بین الاقوامی پنجرے سے آزاد ہوگیا ہے۔ اب نہ جانے اس کی پرواز کس طرف ہو۔ عرب تحفظات اپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایران اقتصادی ترقی کرنے کے لیے زیادہ ٹھہرائو اور ذمہ داری کا ثبوت دے۔ چین کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں