"JDC" (space) message & send to 7575

خیال خاطر احباب

پاک سعودی تعلقات روحانی اور دنیاوی لحاظ سے بے حد اہم ہیں۔ چند ماہ پہلے تک یہ وثوق سے کہا جا سکتا تھا کہ پاکستان کی ہر مشکل گھڑی میں بردار ملک سعودی عرب نے ہمارا ساتھ دیا ہے اور آئندہ بھی دے گا اور ایسے ملک اب معدودے چند ہیں اور ان ممالک کی فہرست سکڑتی جارہی ہے۔ جب میں سعودی عرب میں بطور سفارت کار کام کر رہا تھا تو سینئر سعودی لیڈر اہم ملاقاتوں میں کہتے تھے کہ پاکستان اور سعودی مملکت ایک ہی جسم کے دو بازو ہیں اور ایک دوسرے کے لئے تقویت کا باعث ہیں۔ 1979ء میں سعودی عرب کے مقدس ترین شہر میں حرم مکی پر حملہ ہوا تو پاکستان نے مدد کی۔ 1990ء میں صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تو پھر پاکستان نے ملٹری سپورٹ دی۔
اسی طرح قدرتی آفات ہوں یا ایٹمی دھماکوں کے نتیجہ میں لگنے والی اقتصادی پابندیاں برادر سعودی عرب سب سے پہلے مدد کو آیا۔ مارچ کے آخر میں خلیجی اتحاد نے عرب لیگ سے قرار داد پاس کرا کے یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کی۔ اس عمل کے لئے دس عرب اور اسلامی ممالک کی کولیشن بنائی گئی۔ پاکستان کو اس اتحاد میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی مگر ہماری حکومت نے پارلیمنٹ سے مینڈیٹ لینا ضروری سمجھا۔ یمن پر بمباری جاری ہے‘ اقوام متحدہ کی کوشش کے باوجود فوری امن کے امکانات روشن نہیں۔ بات چیت میں حوثی ملیشیا کی شرکت کے لئے پہلی خلیجی شرط یہ ہے کہ وہ ہتھیار پھینک کر اپنی پہلی پوزیشن پر چلے جائیں جبکہ حوثی اس بات پر مصر ہیں کہ پہلے بمباری بند ہو پھر بات ہو گی۔ دوسرے لفظوں میں معاملہ الجھ گیا ہے۔
میرے ذہن میں یمن اور سعودی عرب کے حوالے سے دو تین سوال ہیں جو میں قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یمن پر بمباری میں حصہ نہ لینے کا پاکستانی فیصلہ صائب تھا یہ نہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جانا دانشمندانہ فیصلہ تھا۔ آیا لفظ نیو ٹرل کا پارلیمنٹ کی قرار داد میں شامل کرنا ضروری تھا اور آخر میں یہ دیکھیں گے کہ اس فیصلے کافائدہ کیا ہوا اور ممکنہ نقصانات کیا ہو سکتے ہیں۔
یمن پر بمباری میں حصہ نہ لینے کا پاکستانی فیصلہ میری نظر میں بالکل صحیح تھا۔ ایک عرصے سے پاکستان کی پالیسی ہے کہ عربوں کے آپس کے تنازعات میں فریق نہیں بننا چاہئے۔ امن کی تلاش ہماری خارجہ پالیسی کا محور ہے۔ تمام اسلامی ممالک سے قریبی تعلقات بھی اسی پالیسی کا حصہ ہیں۔ گو کہ یمن کی جنگ مسالک کی جنگ نہیں لیکن یہ مسلکی جنگ بن سکتی ہے۔ اس جنگ کا حصہ بننا پاکستانی معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب کر سکتا تھا۔ لہٰذا اس جنگ میں براہ راست فریق نہ بننے کا فیصلہ صائب تھا۔
لیکن کیا پاکستان‘ سعودی عرب کے دفاع سے تجاہل کر سکتا ہے۔ میرا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ کسی بھی مشکل وقت میں اہم ترین برادر عرب ملک کو تحفظ کا احساس فراہم کرنا اور اس سلسلہ میں مکمل سپورٹ ہماری پالیسی کا حصہ رہا ہے۔ ہم ایک ہی خطے میں رہتے ہیں اور ہمارے مفادات مشترک ہیں۔ کچھ پاکستانی ایڈوائزر سعودی عرب میں یمن کی جنگ سے پہلے موجود تھے۔ انہیں بھیجتے ہوئے کیا پارلیمنٹ سے منظوری لی گئی تھی؟ جی نہیں۔ اور وجہ یہ ہے کہ دونوں برادر ممالک میں دفاعی تعاون کئی عشر وں 
سے موجود ہے۔ سعودی خواہش کے مطابق اگر کچھ اور ملٹری ایڈوائزر اور ٹرینر بھیج دیئے جاتے تو بھی پارلیمان کی منظوری ضروری نہ تھی۔ اس سے احباب کی کچھ تشفی تو ہو جاتی۔ 1990ء کی طرح اس بار بھی واضح کیا جا سکتا تھا کہ ہمارے فوجی دفاعی پوزیشن میں ہوں گے۔ سعودی عرب کی حدود سے باہر نہیں جائیں گے اور جس طریقے اور اسلوب سے اس نازک معاملے کو پارلیمنٹ میں مشق سخن بنایا گیا وہ قطعا ً نامناسب تھا۔
اور اب آتے ہیں لفظ نیو ٹرل کی طرف جو تحریک انصاف کے اصرار پر شامل کیا گیا۔ تحریک کی سوچ پر کرکٹ کی زبان راج کرتی ہے۔ لیکن یمن کی صورت حال میں لفظ نیو ٹرل کا کوئی تک نہیں بنتا۔ یہاں ایک فریق خلیجی ممالک ہیں اور دوسرا فریق حوثی باغی ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ تو پھر نیو ٹرل کا مطلب کیا ہوا۔ اگر پاکستان کا کوئی دوست ملک یہ کہے کہ ہم پاکستان اور طالبان کی لڑائی میں نیو ٹرل ہیں تو ہمیں کیسا لگے گا۔ کچھ بار لوگوں نے کہا کہ دراصل یہ لڑائی عرب عجم جنگ ہے اور پاکستان کو نیو ٹرل رہنا چاہئے۔ یہ بھی بالکل بودی دلیل ہے‘ اس لئے کہ ایران کا اعلانیہ موقف ہے کہ ہم یمن جنگ میں فریق نہیں۔ میرے خیال میں یہ لفظ بالکل غیر ضروری تھا اور اس سے احباب میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔
یمن کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرار داد بھی بہت واضح تھی کہ حوثی باغی کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتے اور یہ کہ باغیوں تک اسلحہ کی ترسیل کو روکا جائے۔ اس بین الاقوامی قرار داد کے فوراً بعد حکومت پاکستان کو اعلان کرنا چاہئے تھا کہ ہماری بحریہ کے چند جہاز باب المندب کی طرف روانہ ہو رہے ہیں تاکہ انٹرنیشنل ٹریڈ کو درپیش خطرات کا ازالہ ہو سکے۔ اس ایک قدم سے پاکستان بین الاقوامی برادری کے ذمہ دار ممبر کے طور پر اجاگر ہوتا۔ ہمارے قومی وقار میں اضافہ ہوتا اور خلیجی دوستوں کا بھرم بھی رہ جاتا۔
پاکستانی فیصلے کے فوراً بعد ایک عربی چینل پر یہی موضوع زیر بحث تھا اور میں بھی پروگرام میں شریک تھا۔ ایک تجزیہ نگار جدہ سے تھے اور ایک امریکہ سے۔ سعودی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستانی فیصلے سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔ میں نے جواب میں کہا: پاکستان پارلیمانی جمہوریت ہے لہٰذا پارلیمنٹ کی منظوری ضروری تھی۔ وزیر اعظم کا خیال تھا کہ قرار داد اتفاق رائے سے ہو‘ لہٰذا تحریک انصاف کی اصطلاح یعنی نیو ٹرل کو شامل کرنا پڑا۔ اب سعودی دانش ور کی طرف سے سوال آیا کہ کیا پارلیمنٹ کی قرار داد پاکستانی عوام کی رائے سے مشابہ ہے یا مختلف اور پھر اس نے دلچسپ بات کی اور وہ یہ تھی اگر وزیر اعظم نواز شریف کو عمران خان کی رائے کا اتنا ہی احترام ہوتا تو جو مطالبے چھ ماہ تک کنٹینر سے ہوتے رہے وہ کیوں نہیں مانے گئے۔
ہمارے ایٹمی دھماکوں کے بعد سعودی عرب نے جس طرح پاکستان کی مدد کی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ہمارے ایٹمی قوت بننے کی اگر کسی دوسرے ملک کو دل سے خوشی ہوئی تو وہ سعودی مملکت تھی‘ اور یہ بھی نظر میں رہے کہ برادر ملک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد بیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور زر مبادلہ کی ترسیلات میں سعودی عرب پہلے نمبر پر ہے۔ کچھ مخصوص طبقے جن میں لبرل بھی شامل ہیں‘ یہ الزام لگاتے ہیں کہ سعودی عرب سے صرف سلفی مدارس کی فنڈنگ ہوتی ہے اور اس سے پاکستان میں انتہا پسندی پھیلتی ہے‘ میری ان سے اتنی درخواست ہے کہ اسلام آباد کے مضافات میں جاکر سلطانہ فائونڈیشن کا کام دیکھیں جو برسوں سے علاقے کے عوام کی شاندار خدمت کر رہی ہے۔ سلطانہ فائونڈیشن کی فنڈنگ شاہ سلمان کی فیملی کرتی ہے۔ 
اور اب آخر میں دیکھتے ہیں کہ پارلیمانی فیصلے کا پاکستان کو کیا فائدہ ہوا۔ کیا ہمارے ایران کے ساتھ تعلقات میں واضح گرم جوشی آئی؟ جو اب نفی میں ہے۔ البتہ سعودی عرب کے ساتھ برادرانہ تعلقات کو ٹھیس ضرور پہنچی ہے۔ اب اگر پاکستان پر کوئی مشکل وقت خدانخواستہ آیا تو کیا برادر ملک پھر ہمارے ساتھ پہلے کی طرح کھڑا ہو گا؟ اس سوال کا جواب مشکل ہے۔ سعودی حکومت نے کسی واضح رد عمل کا اظہار بھی نہیں کیا کہ ان کا مزاج دھیما ہے مگر دلوں کے راز خدا جانتا ہے۔ ہماری حکومت نے معاملے کو مس ہینڈل تو کیا ہے۔ اب ہماری بھرپور کوشش ہونی چاہئے کہ آئندہ حالات بہتری کی طرف جائیں‘ غلط فہمیاں کم ہوں‘ تعلقات میں پہلے والی گرم جوشی لوٹ آئے۔ دونوں ملک ایک دوسرے کے بازو ہیں ؎
خیال خاطر احباب چاہئے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں