"JDC" (space) message & send to 7575

انسانی سمگلنگ

یوں تو انسانی سمگلنگ برسوں سے جاری ہے‘ عرصے سے میکسیکو اور جنوبی امریکہ کے دیگر ممالک کے شہری غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جو کبھی کامیاب ہوتی ہیں تو کبھی ناکام۔ اسی طرح سے انڈونیشیا سے غیر قانونی تارکین وطن کی کشتیاں آسٹریلیا جاتی رہی ہیں۔لیکن آج یہ مسئلہ بحیرہ روم میں بحرانی صورت اختیار کر گیا ہے۔ لیبیا اور تیونس کے ساحلوں سے بے شمار لوگ سمگل ہو کر یونان اور اٹلی پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس خطرناک صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے یورپی یونین نے ایک مشترکہ نیول فورس بنائی ہے جس کا نام Eunav for Medرکھا گیا ہے ۔ اس بحری فورس کا ہیڈ کوارٹر روم میں بنایا گیا ہے۔ اس نیول فورس کو غیر قانونی جہازوں کو ڈبونے کا اختیار بھی مل سکتا ہے گو کہ یورپ کی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات کی شدت سے مخالفت کر رہی ہیں۔
یہاں دو اصطلاحوں کی تشریح ضروری ہے جو اس سلسلہ میں اکثر استعمال ہوتی ہیں اور اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ دونوں ہم معنی ہیں۔ ایک ہے ہیومن سمگلنگ دوسری ہے ہیومن ٹریفکنگ دونوں میں واضح فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانی سمگلنگ میں سمگل کئے جانے والے کی مرضی شامل ہوتی ہے جبکہ ٹریفکنگ میں زبردستی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کافی سال پہلے پاکستان سے چھوٹے چھوٹے لڑکوں کو ان کی مرضی کے خلاف عرب امارات اونٹوں کی ریس میں بطور کیمل جوکی بھیجا جاتا تھا۔ یہ عمل انسانی ٹریفکنگ کے زمرے میں آتا ہے اسی طرح اطلاعات ہیں کہ ہر سال بڑی تعداد میں کم سن بچیاں نیپال سے بھارت جبراً بھیجی جاتی ہیں اور سن بلوغت کو پہنچ کر یہ لڑکیاں عصمت فروشی کے قبیح پیشے میں دھکیل دی جاتی ہیں۔
آج کے کالم میں میری کوشش ہو گی کہ زیادہ بات پاکستان کے حوالے سے کی جائے۔ میں نے دو ایسے ملکوں میں بطور سفارت کار کام کیا ہے جو انسانی سمگلنگ کے دھندے میں ملوث پاکستانی نیٹ ورکس میں مقبول تھے، ایک تھا یونان اور دوسرا عمان ۔یونان مغربی یورپ جانے والوں کی پہلی منزل تصور کیا جاتا تھا اور سلطنت عمان غیر قانونی طور پر جانے والے بھی کامیابی کی صورت میں عرب امارات یعنی یو اے ای جانے کی کوشش ضرور کرتے تھے لیکن اسی فیصد منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی کوسٹ گارڈ کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتے تھے اور پھر عمانی حکومت اپنے خرچ پر چھوٹے چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعہ انہیں ڈی پورٹ کر کے کراچی بھیجتی تھی۔
یونان اور عمان دونوں جگہ میرا مشاہدہ تھا کہ پاکستان سے انسانی سمگلنگ کا دھندا بڑھتا جا رہا تھا۔ مسقط پورٹ سے جہاز کراچی روانہ کراتے وقت چند مرتبہ میں خود بندرگاہ گیا۔ جہاز رخصت کرنے سے پہلے تقریریں بھی کیں، حب الوطنی کا واسطہ بھی دیا، یہ بھی کہا کہ اس فعل سے پاکستان کا نام بدنام ہوتا ہے۔ یہ پیسے جو آپ دھوکے باز ایجنٹوں کو دے کر ضائع کرتے ہیں ان سے پاکستان میں چھوٹا موٹا کاروبار کر لیں تو عزت کا روزگار کما سکتے ہیں۔ مسقط پورٹ پر تو یہ لوگ کہتے تھے کہ آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں لیکن 2005ء کے آغاز میں جب میں مسقط گیا تو سمگل شدہ پاکستانیوں کی ماہانہ اوسط پانچ سو تھی اور جب2007ء کے آخر میں مسقط سے میں خود ریٹائر ہو کر روانہ ہوا تو یہ اوسط ایک ہزار کو چھو رہی تھی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انسانی سمگلنگ میں ملوث ایک ہزار نیٹ ورک کام کر رہے ہیں۔ 2013ء کے سال میں ان نیٹ ورکس کی ٹوٹل انکم927ملین ڈالر تھی اور یہ نیٹ ورکس گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہائوالدین، ڈیرہ غازی خان ،ملتان اور سیالکوٹ کے اضلاع میں زیادہ فعال تھے۔
میں جب مارچ1999ء میں ایتھنز پہنچا تو پاکستانی اور انڈین غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کا المناک قصہ تازہ تھا۔ یہ غیر قانونی دھندا بھی انٹرنیشنل ہے۔ مثلاً پاکستانی ہیومن سمگلر اپنے انڈین ہم پیشہ لوگوں سے رابطے میں تھے۔ سینکڑوں انڈین اور پاکستانی قانونی طور پر مصر گئے اور وہاں سے لانچ میں یونان روانہ ہوئے۔ اس کام کے لیے سال کے آخری دن یعنی31دسمبر کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ یونانی کوسٹ گارڈ والے نئے سال کے جشن میں مصروف ہوں گے۔شومئی قسمت سے ایک تولانچ خستہ حالت تھی اور لوگ بھی زیادہ سوار تھے۔ یونانی ساحل سے چند کلو میٹر پہلے لانچ میں پانی آنا شروع ہو گیا جو تیرنا جانتے تھے وہ بچ گئے باقی سمندر کی نذر ہو گئے۔
یونان آنے کے لیے دو راستے تھے۔ ایک بحری اور دوسرا بری جو براستہ ترکی آتا تھا ۔بری راستہ سے جانے والے پہلے ایران جاتے ہیں اورپھر ترکی اور وہاں سے رات کے وقت دشوارگزار راستوں سے یونان داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس علاقے میں بارودی سرنگوں سے خطرناک حادثے بھی ہوئے ہیں۔ کچھ کو ایجنٹ ٹرکوں میں سامان میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند ایک کو ترکی کے ساحل سے کشتیوں میںسوارکر کے کسی یونانی جزیرے تک رات کی تاریکی میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ یونان پہنچنے سے قبل یہ لوگ اپنے پاسپورٹ سمندر کی نذر کر دیتے ہیں تاکہ غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا کوئی ثبوت باقی نہ بچے۔ اگلا مرحلہ جزیرہ سے ایتھنز جانے کا ہوتا ہے اور پھر سفارت خانہ میں رپورٹ درج کرا دی جاتی ہے کہ پاسپورٹ گم ہو گیا ہے نیا پاسپورٹ دیا جائے۔
یونان میں اس وقت ہر دو تین سال بعد غیر قانونی مہاجرین کو قانونی حیثیت دینے کا طریقہ کار عمل میں آتا تھا۔ جہاں یہ کہا جاتا تھا کہ جو لوگ زیادہ عرصے سے یونان میں غیر قانونی ہیں وہ کچھ ثبوت پیش کر کے قانونی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے پرانی تاریخ سے کرایہ نامہ یا صرف کسی آجر سے سرٹیفکیٹ کہ یہ شخص چند سال پہلے میر ے پاس ملازمت کی تلاش میں آیا تھا، کافی ہوتے تھے ۔ سفارت خانہ ان لوگوں کی قانون کے دائرے میں رہ کر مدد ضرور کرتا تھا۔ میں دفتر پہنچ کر روزانہ پاسپورٹ کے کمرے میں جا کر تمام حاضرین سے اپنا تعارف کرواتا تھا اور انہیں کہتا تھا کہ پاسپورٹ کے حصول میں کوئی رکاوٹ ہو تو مجھے بتائیں۔ گم شدہ پاسپورٹ کے عوض نئی کاپی لینے کے لیے پہلے پاسپورٹ کی پاکستان سے تصدیق ضروری ہے۔ یہ کنفرمیشن لینے میں وقت ضرور لگتا تھا خاص طور پر گجرات والے پاسپورٹ آفس سے۔ یونان میں رہنے کا اجازت نامہ حاصل کرنے کے بعد یہ لوگ اٹلی، فرانس، جرمنی جانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتے تھے۔ وہاں تنخواہیں بھی بہتر تھیں اور سوشل سکیورٹی کا نظام بھی اچھا تھا۔
سلطنت عمان جانے والے غیر قانونی لوگوں کا علیحدہ ریکٹ تھا۔ یہاں جانے والے زیادہ لوگ جنوبی پنجاب اور سندھ سے ہوتے تھے۔ تفتان سے لے کر سندھ تک پاک ایران بارڈر سات سو کلو میٹر لمبا ہے۔ صحرائی علاقہ ہے۔ آبادی کم ہے۔ ایجنٹ لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر سندھ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے حوالے کرتے ہیں۔ سندھ والے غیر قانونی طور پر بارڈر کراس کرا کے ان لوگوں کو اپنے ایرانی بھائی وال کے حوالے کرتے ہیں۔ بارڈر کے دونوں جانب ایک ہی زبان بولی جاتی ہے۔ آنا جانا لگا رہتا ہے۔ سماجی رشتے بھی ہیں۔بوجوہ یہ بارڈر ہر قسم کی سمگلنگ کے لیے آئیڈیل ہے۔ یہیں سے ایرانی پٹرول اور ڈیزل سمگل ہو کے پاکستان آتا ہے۔ سمگلنگ ختم کرنے کے لیے دونوں ممالک کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ اب سنا ہے کہ ایران سات سو کلو میٹر لمبی دیوار بنائے گا جو دس فٹ بلند ہو گی۔ پاکستانی فارن آفس نے کہا ہے کہ ہمیں ایرانی دیوار پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بلوچستان اسمبلی نے دیوار کے خلاف قرار داد منظور کی ہے کہ یہ سماجی اور تجارتی روابط میں حائل ہو گی۔
چاہ بہار کے قریب ایک چھوٹی سی بندرگاہ سے یہ لوگ ہائی سپیڈ بوٹس میں بیٹھ کر عمان کے ساحل کی طرف رات کی تاریکی میں روانہ ہوتے ہیں۔ یہ سفر چند گھنٹے کا ہے۔ کشتیوں کا انتظام ایرانی ایجنٹ کرتے ہیں۔ جو لوگ عمان کے ساحل پرپکڑے جاتے ہیں انہیں عمانی حکومت اپنے خرچ پر ڈی پورٹ کرتی ہے۔ میرا اندازہ تھا اور اب بھی ہے کہ یہ راستہ منشیات کی سمگلنگ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ 2007ء میں اسی راستے سے ایک پاکستانی خاتون عمان آئیں اور پکڑی گئیں۔ میں نے پاکستانی حکام کو لکھا کہ اب یہ کاروبار بہت منظم ہوتا جا رہا ہے کچھ کیا جائے۔ جواب آیا کہ ایمبیسی میں ایف آئی اے کا دفترکھولنے کی تجویز ہے۔ میں نے اس تجویز کی ڈٹ کر مخالفت کی کیونکہ مسئلے کی جڑ پاکستان میں تھی۔بہرحال میری مسقط سے روانگی کے بعد ایف آئی اے نے مسقط میں دفترکھول ہی لیا۔ اس سے پاکستان کو فائدہ ہوا یا نہیں یہ میرے علم میں نہیں۔ ہیومن سمگلنگ اورٹریفکنگ روکنے کے لیے مسقط اورابوظہبی ایمبیسی کے دو افسروں کی خدمات شاندار تھیں، ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں