"JDC" (space) message & send to 7575

اسلام آباد کا المیہ

اسلام آباد اور برازیلیا دو ایسے دارالحکومت ہیں جو خصوصی طور پر ڈیزائن کر کے بنائے گئے۔ اسلام آباد کا نقشہ مشہور یونانی ٹائون پلانر ڈوکسیاڈس نے بنایا تھا۔ ڈوکسیا ڈس کے ذہن میں اپنا کیپیٹل ایتھنز اور اس کے مسائل ضرور ہوں گے ہمارے لیے نقشہ بناتے وقت۔ ایتھنز میں یونان کی آدھی آبادی رہتی ہے۔ ٹریفک بے پناہ ہے۔ کوئی بیس سال ہوئے یونانی حکومت نے فیصلہ کیا کہ ایتھنز کی سڑکوں پر ایک دن صرف طاق نمبر پلیٹ والی گاڑیاں چلیں گی اور دوسرے روز صرف جفت یعنی Even نمبر والی۔ مقصد یہ تھا کہ سڑکوں پر رش کم ہو‘ ٹریفک روانی سے چلے مگر اس قانون کے بعد ہر یونانی نے ایک اور گاڑی خرید کے دوسری طرح کی نمبر پلیٹ لے لی۔ اپنے ہی نظام کو ذاتی ضرورت کے مطابق توڑنے مروڑنے میں یونانی بھی ہماری طرح یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
اسلام آباد کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں غریبوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ڈوکسیا ڈس کی تجویز تھی کہ امیروں اور غریبوں کو متوسط طبقہ کے ساتھ ساتھ آباد کیا جائے لیکن یہ تجویز ارباب اقتدار کو پسند نہ آئی کہ ہم مسلمان ضرور ہیں لیکن اسلامی مساوات پر یقین نہیں رکھتے۔ اسلام آباد دراصل گریڈ زدہ بیورو کریسی کا شہر ہے۔ یہاں گریڈ بائیس والے افسر کو دو بڑے بڑے پلاٹ مل سکتے ہیں لیکن نائب قاصد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ذات پات والے اس شہر میں نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ای سیون سیکٹر کو ایلیٹ سیکٹر بنا دیا گیا‘ اور عام فہم زبان میں گریڈنگ یہ ہے کہ E برائے ایلیٹ‘ F برائے فارنر‘ جی سیکٹر کا مطلب ہے غریب غربا کا مسکن۔ 
اسلام آباد کا دوسرا بڑا المیہ اس کا محل وقوع ہے۔ دیکھنے میں بظاہر لگتا ہے کہ یہ خوبصورت اور شانت شہر سرسبز پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام آباد پنجاب اور خیبر پختونخوا کے بیچ میں گھرا ہوا ہے‘ لہٰذا یہ جرائم پیشہ لوگوں کی جنت ہے۔ کوئی بھی جرم کر کے یہاں سے بھاگنا بہت آسان ہے اور اسلام آباد پولیس میں اتنی سکت نہیں کہ دوسرے صوبوں اور آزاد کشمیر میں جا کر مجرموں کو تلاش کر کے لا سکے۔ میرے اپنے اسلام آباد میں واقع گھر میں 2010ء میں ڈاکہ پڑا تو ملزم آزاد کشمیر کے نکلے‘ کئی سال گزرنے کے باوجود صرف ایک ملزم پکڑا گیا ہے اور وہ میری اپنی تگ و دو کے بعد۔
اس وقت اسلام آباد کی آبادی کی افزائش پورے پاکستان کے شہروں میں سب سے زیادہ ہے‘ لہٰذا نئی کنسٹرکشن کے لیے راج، مزدور، پلمبر، بڑھئی، الیکٹریشن، پینٹر سب کی ڈیمانڈ ہے لیکن ان کی سکونت کے لیے کوئی مناسب انتظام نہیں۔ ایک راج مستری کو روزانہ ایک ہزار مزدوری ملتی ہے۔ کیا وہ تیس ہزار روپے میں کرایہ کا گھر لے کر گزارہ کر سکتا ہے؟ یہ بھی محل نظر رہے کہ اسلام آباد میں کرائے لاہور اور کراچی کے مقابلے میں دوگنا ہیں۔ ایسے ہی ایک راج کی بیوی ہمارے گھرمیں کام کرتی ہے۔ دونوں روزانہ کام کرتے ہیں تو مشکل سے گزارہ ہوتا ہے۔ میاں بیوی ایک کچی بستی میں نہایت ہی مختصر مکان میں تین بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
اسلام آباد میں بارہ کوہ سے لے کر ترنول تک ایسی کئی آبادیاں ہیں۔ میری تمام تر ہمدردیاں ان کچی پکی تنگ گلیوں کے مکینوں کے ساتھ ہیں کیونکہ ان کی محنت مزدوری سے شہر میں کنسٹرکشن کا کام جاری ہے۔ گزشتہ روز میٹرو سپر مارکیٹ کے سامنے ایسی ہی ایک بستی کو مسمار کر دیا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ غیر قانونی تجاوزات ہیں اور یہاں دہشت پسند پناہ لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات کسی حد تک صحیح بھی ہو کیونکہ گزشتہ چند برسوں میں بارہ کوہ سے دہشت گرد پکڑے بھی گئے‘ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ بارہ کوہ کی پوری آبادی دہشت گردوں پر مشتمل ہے۔
اسلام آباد کا بلکہ ہماری سوسائٹی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ تعزیراتی قوانین غریبوں پر زیادہ لاگو ہوتے ہیں‘ امیر اکثر ویسے ہی جرم کر کے بھی بچ نکلتے ہیں۔ اسلام آباد میں ڈھائی ایکڑ سے لے کر دس ایکڑ تک کے متعدد فارم ہیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق ان کی کل تعداد چھ سو ہے۔ یہ فارم سبزیاں اور پھل اگانے کے لیے الاٹ ہوئے تھے۔ 20 فیصد حصہ مرغیاں پالنے کے لیے استعمال ہونا تھا۔ مگر اب اکثر فارمز پر محل نما گھر بن گئے ہیں۔ پہلے بڑے سائز کے فارمز پر چار ہزار آٹھ سو پچاس (4850) مربع فٹ کورڈ ایریا کا گھر بنانے کی اجازت تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں کورڈ ایریا بڑھا کر دس ہزار مربع فٹ کر دیا گیا کیونکہ جنرل صاحب نے خود فارم خرید لیا تھا۔ ہمارے ہاں اشرافیہ اپنی پسند کے قوانین بناتی ہے۔ جنرل صاحب کی حکومت گئی تو کورڈ ایریا پھر سے اپنے پرانے عدد کی طرف لوٹ گیا۔ میٹرو سپر مارکیٹ کے سامنے غریبوں کے کچے گھر تو مسمار کر دیئے گئے‘ کیا متعلقہ ادارے میں اتنی ہمت ہے کہ فارم ہائوس والوں کے تجاوزات بھی مسمار کرے‘ اتنی جرأت ہے کہ ہر فارم ہائوس والے سے کہے کہ اپنی لگائی گئی سبزیاں دکھائو؟ فارم پر رکھی ہوئی مرغیاں کہاں ہیں؟ 
2006ء میں سپریم کورٹ نے اسلام آباد کے بارے میں تاریخی فیصلہ دیا تھا۔ ہوا یوں کہ جناح سپر مارکیٹ کے ساتھ واقع پانچ ایکڑ کا پارک لاہور کی ایک پارٹی کو لیز پر دے دیا گیا کہ وہ وہاں گولف کی ڈرائیونگ رینج بنا لے۔ کراچی کے وکیل مولوی اقبال حیدر نے متعلقہ ادارے پر کیس کر دیا۔ سپریم کورٹ نے لیز کو کینسل کرتے ہوئے فیصلے میں یہ لکھا کہ رفاہ عامہ کی کسی بھی جگہ کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر متعلقہ ادارے کے وکیل نے یہ پخ لگانا چاہی کہ مولوی اقبال حیدر کا تعلق کراچی سے ہے‘ وہ اسلام آباد کے بارے میں فکر مند کیوں ہیں؟ سپریم کورٹ کے الفاظ تھے کہ اسلام آباد تمام پاکستانیوں کا ہے۔ اسی طرح سے بار بار 
عدلیہ کے فیصلے آئے کہ اصلی نقشہ مقدس ہوتا ہے‘ کسی سیکٹر کے اصلی نقشہ میں یک طرفہ تبدیلی وہاں کے الاٹیوں کے ساتھ دھوکہ ہے مگر اس کے باوجود E الیون کے پولیس سیکٹر میں سات چھوٹے چھوٹے پارک اعلیٰ پولیس افسران کو گھر بنانے کے لیے الاٹ کر دیئے گئے یہ تمام پارک شہریوں کی بروقت مداخلت اور عدلیہ کے ایشو کیے ہوئے سٹے آرڈر کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔
2009ء میں یوسف رضا گیلانی کے دور میں جی تیرہ سیکٹر کے پارک سکول اور کمرشل مرکز میں رہائشی پلاٹ بنائے گئے۔ میں بھاگا بھاگا ہائوسنگ فائونڈیشن کے ڈی جی کے پاس گیا‘ کہنے لگے کہ سرکاری افسروں کا دبائو تھا لہٰذا وزیراعظم نے منظوری دے دی۔ میں نے کہا: ڈی جی صاحب‘ کیا انگلینڈ کی حکومت اپنے افسروں کے لیے لندن میں ہائیڈ پارک میں پلاٹ بنا سکتی ہے۔ جو اب ملا: جاوید صاحب ہم لندن میں نہیں رہتے۔ تب مجھے شدید احساس ہوا کہ ہم ایسے جنگل میں رہتے جہاں شیر انڈے دے یا بچے اسے مکمل اختیار ہے‘ عام جانوروں کا کام اچھی رعایا کی طرح شیر کی تابع فرمانی ہے۔
کوئی پانچ ماہ ہونے کو ہیں جی 13 کا مکمل انتظام ایک فائونڈیشن کے پاس ہے۔ سیکٹر کی زبوں حالی عیاں ہے۔ سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں سیوریج سسٹم ناقص ہے میونسپل فنکشن ذمہ دار ادارے کا کام ہے لیکن یہ فرائض ای الیون میں پولیس فائونڈیشن اور جی تیرہ میں اسی فائونڈیشن کے پاس ہے‘ یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ 
تصحیح: پچھلے کالم میں لکھا گیا تھا کہ لارنس آف عریبیا فلم میں کرنل لارنس کا رول انتھونی کوئن نے ادا کیا تھا‘ یہ رول پیٹرا وٹول نے ادا کیا تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں