"JDC" (space) message & send to 7575

شام روس اور امریکہ

پرتگالی رائٹر جوزے ماریا کیوروز کا قول ہے کہ بچوں کے ڈائپر اور حکمرانوں کو وقفے وقفے سے تبدیل کرتے رہنا چاہیے ورنہ تعفن پھیلتا ہے۔ عرب حکمرانوں نے اس بات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ لیبیا میں کرنل قذافی نے سیف الاسلام قذافی کو بطور ولی عہد تیار کیا۔ مصر میں صدر حسنی مبارک اپنا اقتداربڑے بیٹے جمال مبارک کو منتقل کرنا چاہتے تھے اور شام میں صدر حافظ الاسد نے اپنے بڑے صاحبزادے باسل الاسد کو حکمرانی کی تربیت دی۔ باسل ایک حادثے میں جوانی ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوا ‘لہٰذا اقتدار بشار الاسد کے حصے میں آیا۔1982ء کے بعد صدر حافظ الاسد خود ظلم اور استبداد کی علامت بن چکے تھے لوگ اسد خاندان کی مستقل حکمرانی قبول کرنے کو بالکل تیار نہ تھے۔
میں نے دمشق میں ساڑھے تین سال گزارے ۔1970ء کی دہائی میں وہاں جرائم بے حد کم تھے لوگوں کا معیار زندگی پاکستان سے قدرے بہتر تھا۔ شہری آبادی تعلیم یافتہ تھی۔ لوگ محنتی اور ذہین تھے اور خوش شکل بھی۔ دمشق کا موسم ہمارے کوئٹہ اور شمالی علاقہ جات کی طرح ہے۔ سردیوں میں دو تین دفعہ برف پڑتی تھی لیکن جلد ہی پگھل جاتی تھی۔ موسم بہار میں دمشق کے نواح میں غوطہ کے باغات میں سیب ناشپاتی‘ چیری اور خوبانی کے درختوں پر خوبصورت شگوفے اور پھول اس قدر اچھے لگتے تھے کہ لوگ جوق در جوق وہاں پکنک مناتے تھے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں 2013ئمیں شامی فوج نے اپنے ہی لوگوں پر کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے۔
شامی لوگ اپنی عربی کی چاشنی کے لیے مشہور ہیں بات بات پر دعائیہ کلمات بولتے ہیں۔ میرے ایک عربی دان پاکستانی دوست ‘دمشق کو عرب دنیا کا لکھنؤ کہتے ہیں اور مجھے ان کی رائے سے مکمل اتفاق ہے۔ لیکن یہی شام پولیس سٹیٹ کا نمونہ ملک بھی تھا۔ آزادی رائے نہ ہونے کے برابر تھی تمام ذرائع ابلاغ حکومت کے زیر اثر تھے۔ حکومت سے اختلاف کرنے والے یا جیل جاتے تھے یا گمشدہ افراد کی لسٹ میں شامل ہو جاتے تھے۔ صدر حافظ الاسد کے مجسمے ہر جگہ نظر آتے تھے۔ فوجی افسروں کو بعث پارٹی کا ممبر بننے کی اجازت تھی۔ علوی فرقے کے لوگ اہم عہدوں پر فائز تھے کیونکہ صدر اسد بھی اسی عقیدے کے تھے۔ صدر حافظ الاسد نے اپنے بھائی رفعت الاسد کی کمان میں ایک متوازی سکیورٹی فورس رکھی ہوئی تھی۔ اکثر عرب ممالک میں متوازی فوج کا طریقہ عام تھا کہ اس طرح فوجی بغاوت کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
شام کا محل وقوع اسرائیل اور ترکی کا ہمسایہ ہونے کی وجہ سے اہم ہے۔ بحیرہ روم کے ساحل پر شام کی دو بندرگاہیں ہیں۔ طرطوس کی بندرگاہ پرروسی بحریہ کا ملٹری بیس بھی ہے جو کہ سائز میں اتنا بڑا نہیں لیکن عرصے سے قائم ہے۔ طرطوس کے شمال میں لاذقیہ ہے۔ یہ صدر اسد کا آبائی علاقہ ہے آج کل روسی ہوائی جہاز اسی شہر کا ہوائی اڈابمباری کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ صدر پوٹن کے حالیہ فیصلے سے بشار الاسد کو حوصلہ ملا ہے۔ ایرانی حکومت نے بھی روسی اقدام کی حمائت کی ہے۔ 
صدر بشار الاسد کے غیر مقبول ہونے کی ایک وجہ ان کا علوی عقیدے سے منسلک ہونا بھی ہے۔ علوی عقیدے کے لوگ آبادی کا دس فیصد حصہ ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ صدر حافظ الاسد‘ عیدالفطر کی نماز جامع اموی میں سُنی امام کے پیچھے پڑھتے تھے ‘جہاں اسلامی ممالک کے سفراء کو دعوت دے کر بلایا جاتا تھا۔ بعث پارٹی اور صدر حافظ الاسد سیکولر خیالات کے حامل تھے لیکن علوی اثرو نفوذ ہر طرف نمایاں تھا۔ علوی اور دروز عقائد کے لوگ مذہب پر گفتگو کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس زمانے میں یہ بات عام تھی کہ صدر حافظ الاسد نے 1973ئمیں معروف لبنانی اثنا عشری عالم امام موسیٰ صدر سے درخواست کی تھی کہ علوی فرقے کو شیعہ مسلمانوں کا حصہ سمجھا جائے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ امام موسیٰ صدر نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا لیکن میرے اکثر عرب دوست اس بات کی صحت سے انکاری ہیں۔ ان کی رائے میں علوی اور اثنا عشری دو مختلف عقائد ہیں۔
چند روز قبل صدر اوباما اور پوٹن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تو شام کے بارے میں دونوں کی سوچ میں واضح فرق نظر آیا۔ پوٹن کے خیال میں بشار الاسد کو زبردستی اقتدار سے علیحدہ کرنا بہت بڑی غلطی ہو گی۔ روس کے ذہن میں لیبیا کی مثال تازہ ہے۔جہاں انسانی امداد کے بہانے معمر قذافی کا تختہ الٹا گیا۔ سلامتی کونسل میں ووٹ ہوا تو روس نے انسانی ہمدردی کے ناتے مغربی ممالک کی پالیسی کی حمائت کی۔ بعد میں روسی لیڈر شپ کو احساس ہوا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ سرد جنگ کے زمانے میں کئی عرب ممالک سوویت یونین کے ساتھ تھے۔ اب عرب دنیا میں صرف شام ایک ہی ملک رہ گیا ہے جس کے روس کے ساتھ عسکری روابط تواتر کے ساتھ قائم ہیں۔ یہاں اس امر کا ادراک بھی ضروری ہے کہ شام کی دس فیصد آبادی عیسائی ہے یہ پڑھے لکھے اور بااثر لوگ ہیں اور آرتھو ڈوکس چرچ کے پیرو کار ہیں اور اس لحاظ سے ان کے عقائد روسی آرتھوڈکس چرچ کے خاصے قریب ہیں یہ بات بھی محل نظر رہے کہ روس کی آبادی کا چودہ فیصد مسلمان ہیں اور چیچنیا مذہبی بنیاد پرستوں کا گڑھ رہا ہے۔ اس تناظر میں شام میں بنیاد پرست اسلامی حکومت روس کو کسی صورت قابل قبول نہ ہو گی۔
یہاں اس بات کا نوٹس ضرور لینا چاہیے کہ روس بظاہر تو داعش کے خلاف کارروائی کرنے شام میں آیا ہے لیکن روسی ہوائی جہازوں کا اصل ہدف'' الجیش الحر‘‘ ہے جسے مغربی مدد حاصل ہے اور جسے معتدل تصور کیا جاتا ہے۔ شام میں امریکی اور روسی اہداف بالکل مختلف ہیں۔ امریکی پالیسی پر اسرائیل کا اثر و نفوذ حاوی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ شام کے بارے میں امریکی پالیسی کچھ کنفیوژن کا شکار رہی ہے۔ جب اسد حکومت کیمیائی ہتھیار سرنڈر کرنے پر رضا مند ہو گئی تو امریکہ کی پالیسی میں واضح تبدیلی آئی ۔اب امریکہ کا خیال تھا کہ اصل خطرہ داعش سے ہے بشار الاسد سے نہیں۔ یہ بات اب وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ پچھلے سال داعش کاڈرامائی ظہور بشار الاسد کے لیے مفید ثابت ہوا۔
شام عملی طور پر چار بلکہ پانچ حصوں میں منقسم ہے۔ نصف آبادی بے گھر ہے۔ شامی مہاجرین ترکی اردن اور لبنان میں تو تھے ہی اب وہ یورپ تک جا پہنچے ہیں۔ بشار الاسد اور شام کا اکٹھے رہنا مجھے تو بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میرے اکثر عرب دوست بشار الاسد سے بیزار اور متنفر نظر آتے ہیں۔ معروف کالم نگار اور مڈل ایسٹ ایکسپرٹ تھامس فریڈ مین کا کہنا ہے کہ روس شام کی اقلیتی اور غیر مقبول حکومت کو سہارا دے کر عرب دنیا کے سواد اعظم کو اپنے خلاف کر رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تین لاکھ شامیوں کے قاتل کا مزید حکومت کرنے کا کوئی جواز نہیں شام میں عبوری حکومت بننی چاہیے جو اگلی حکومت کے انتخاب کے لیے الیکشن کرائے۔ موجودہ حالات کا فائدہ صرف اسرائیل کو ہے اور نقصان صرف شامی عوام کو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں