"JDC" (space) message & send to 7575

ستر سالہ اقوام متحدہ

اس ماہ اقوام متحدہ ستر سال کی ہو جائے گی۔ اس طرح اقوام متحدہ مجھ سے صرف دو ماہ بڑی ہے۔ 1980ء کی دہائی میں مجھے فارن آفس میں دو سال یو این ڈیسک پر کام کرنے کا موقع ملا اور اسی مناسبت سے نیو یارک بھی جانا ہوا۔ میرا تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ یو این کے بارے میں واجبی سی معلومات رکھتے ہیں اور اکثریت کا خیال ہے کہ یہ ایک بحث و مباحثہ کا کلب یا ڈیبیٹنگ سوسائٹی ہے جو کہ بڑے بڑے عالمی مسائل مثلاً کشمیر اور فلسطین کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ یو این کی کارکردگی کا معروضی جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ ناکامیوں کے باوجود اس تنظیم نے کافی کامیابیاں بھی سمیٹی ہیں۔
سب سے پہلے تو اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ دنیا کے ممالک یو این سے مکمل طور پر مایوس نہیں ہوئے۔ ثبوت یہ ہے کہ 1945ء میں پچاس ممالک اس تنظیم کے ممبر تھے۔ آج مجموعی ممبر شپ 193ہو چکی ہے۔ اس تنظیم کے حجم میں اضافہ ہوا ہے اور ذمہ داریوں میں بھی۔ اس بین الاقوامی ادارے کا سب سے بڑا فرض عالمی امن قائم رکھنا ہے۔ پچھلے ستر سال میں کئی لوکل لیول کی جنگیں ہوئی ہیں لیکن کوئی عالمی جنگ نہیں ہوئی۔ اس وقت بھی یو این کے سولہ امن مشن دنیا کے مختلف حصوں میں ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اور ان میں پاک فوج کی شرکت نمایاں ہے۔ یو این کے دفاتر صرف نیو یارک تک محدود نہیں، جنیوا میں یو این کا دوسرا ہیڈ کوارٹر ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، عالمی تجارت کا ادارہ ڈبلیو ٹی او، سب جنیوا میں ہیں۔ اٹامک انرجی کی عالمی ایجنسی کا دفتر ویانا میں ہے۔ عالمی عدالت ہالینڈ میں ہے۔ تعلیم سے متعلق عالمی تنظیم یونیسکو کا دفتر پیرس میں ہے۔ ماحولیات سے ڈیل کرنے والے دفاتر نیروبی میں ہیں۔
یہاں یو این کے اقتصادی ترقی سے متعلق ادارے یو این ڈی پی کا ذکر ضروری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ ڈویلپمنٹ پروگرام سالانہ دس ارب ڈالر ترقی پذیر ممالک کو دیتا ہے۔ یہ ادارہ بین الاقوامی ترقیاتی اہداف کا بھی تعین کرتا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا مقصد عالمی تجارت کو فروغ دینا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ڈبلیو ٹی او نے ساری دنیا میں درآمدی کسٹم ڈیوٹی کم کی ہے اور پاکستان میں بھی اسی وجہ سے کسٹم ڈیوٹیاں کم ہوئی ہیں۔ بات یہ ہے کہ آج ہم ایک گلوبل گائوں میں رہ رہے ہیں۔ جہاں تمام فیصلے باہمی مشوروں سے ہوتے ہیں اور یو این عالمی تعاون کی توانا علامت ہے۔
یو این کی کامیابیوں کا ذکر ہو رہا ہے تو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ اس عالمی ادارے نے اب تک سات نوبل انعامات جیتے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز ختم کرنے میں یو این کا بڑا حصہ ہے۔ اگر اقوام متحدہ جنوبی افریقہ میں گوروں کی حکومت پر اقتصادی پابندیاں نہ لگاتی تو شاید یہ معاملہ اور لٹک جاتا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ تقریباً تین عشرے پہلے ایڈز کا مرض پوری دنیا میں ایک وبا کی طرح نمودار ہوا تھا۔ ڈر تھا کہ یہ موذی مرض پھیلتا ہی جائے گا لیکن اقوام متحدہ کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی کاوشوں کی وجہ سے ایڈز میں مبتلا مریضوں کی تعداد خاصی کم ہو گئی ہے۔
اور اب آتے ہیں یو این کی ناکامیوں کی جانب۔ یو این کی طفولیت ہی میں کوریا میں جنگ شروع ہو گئی۔ اسرائیل کی ریاست کو قانونی جواز یو این نے خود 1947ء میں ایک ریزولیوشن پاس کر کے دیا۔ یو این چارٹر کا بنیادی اصول ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک پر حملہ نہیں کر سکتا لیکن 1971ء میں پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت ہوئی۔ 1979ء میں سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں بھیج دیں۔ عراق نے ایران پر حملہ کیا۔ 1990ء میں صدام حسین کی فوجوں نے کویت پر قبضہ کر لیا۔ روانڈا میں قتل عام ہوا۔ بلقان میں مسلمانوں کا خون ارزاں ہوا۔ لیکن یہاں اس بات کا 
ذکر بھی ضروری ہے کہ انہی مشاکل کو حل کرانے میں بھی یو این نے حصہ ڈالا۔ عراق ایران جنگ بھی بند کرائی۔ افغانستان میں امن کے حصول کے لیے جنیوا کے مذاکرات بھی یو این نے ہی کرائے تھے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر قابض فوج کا مقبوضہ علاقے سے نکلنے کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انڈیا کو بنگلہ دیش سے اپنی فوج واپس بلانا پڑی۔ اقوام متحدہ اور اس کا چارٹر نہ ہوتے تو شاید انڈیا اتنی آسانی سے بنگلہ دیش کی جان نہ چھوڑتا۔ یو این کے وجود کی بدولت دنیا سے ہلاکو خان والا قبضہ گروپ خاصی حد تک کم ہو گیا ہے۔
پاکستان نے یو این میں فعال کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح سے یو این کی بھی کوشش رہی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے حالات زیادہ خراب نہ ہوں۔ 1965ء کی جنگ جاری تھی کہ سیکرٹری جنرل اوتھان پہنچ گئے تھے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 1971 میں بھی یو این سکیورٹی کونسل جنگ بندی کے لیے کوشاں تھی۔ بھٹو صاحب نے بڑے جذباتی انداز میں پولینڈر کا ریزولیوشن پھاڑ دیا تھا۔ اب پلٹ کر دیکھیں اور غور کریں تویہ غیر ضروری اقدام تھا۔ پاکستان اور یو این کی بات ہو رہی ہے تو اس امر کا اعادہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ دو یا اس سے زیادہ ریاستوں کے تنازعات کا حل تلاش کرتی ہے۔ ممبر ممالک کے اندرونی مسائل یو این کے مینڈیٹ میں شامل نہیں۔ اس لحاظ سے زرداری حکومت کی یو این کی درخواست کہ وہ بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات کرے بے حد بے تکی بات تھی کیونکہ بی بی کے قتل میں کوئی اور ملک ملوث نہ تھا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت مجھے اس بات پر تھی کہ یو این کے ارباب اختیار نے حکومت پاکستان کی اس نادر اور انوکھی درخواست کو قبول ہی کیوں کیا۔ اس صورت حال میں فارن سیکرٹری ریاض محمد خان کا سٹینڈ قابل داد تھا۔ ریاض صاحب نے اس تجویز کی ڈٹ کر مخالفت کی اور اپنی نوکری کی بھی پروا نہیں کی۔ اب سول بیورو کریسی اور فارن سروس سے ایسے نڈر اور قومی مفاد کو ترجیح دینے والے افسر ناپید ہو رہے ہیں۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ریاض صاحب کا کولیگ رہا ہوں۔ چونکہ ذکر اقوام متحدہ کا ہو رہا ہے تو ریاض صاحب یو این ایکسپرٹ بھی ہیں اور جنیوا امن مذاکرات میں ان کا رول اہم تھا۔ 
اور اب ذکر ہو جائے یو این سسٹم میں اصلاحات کا جس کا مطالبہ کچھ ممالک زور شور سے کر رہے ہیں۔ استدلال یہ ہے کہ یو این جب 1945ء میں تشکیل پائی تب صرف پچاس ممبر تھے۔ دوسری جنگ عظیم کی فاتح قومیں اس تنظیم کی تشکیل میں پیش پیش تھیں۔ اب اقوام متحدہ کی ممبر شپ کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ یو این کے دفاتر اور ان کے فرائض بھی بڑھ گئے ہیں۔ انڈیا، جاپان، برازیل اور جرمنی بھرپور مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں سکیورٹی کونسل میں دائمی ممبر شپ دی جائے۔ استدلال یہ ہے کہ دنیا کے زمینی حقائق بدل چکے ہیں اور یو این کو ان تبدیلیوں کا نوٹس لینا چاہئے۔ کئی اور ممالک جن میں اٹلی، جنوبی کوریا، پاکستان اور ارجنٹائن شامل ہیں، سکیورٹی کونسل کے دائمی ممبران کی تعداد بڑھانے کے سخت مخالف ہیں۔ پاکستان کو ڈر ہے کہ اگر انڈیا دائمی ممبر بن گیا اور ویٹو کا حق اسے حاصل ہو گیا تو وہ پاکستان کا ناطقہ بند کر دے گا اور کشمیر کاز کو نیا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ پاکستان اور دیگر ہم خیال ممالک اب تک اس تجویز کو بلاک کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ویٹو پاور غیر جمہوری ہے۔ پہلے پانچ چوہدری ہیں اگر چار مزید چوہدری شامل ہو گئے تو یو این مزید غیر جمہوری ہو جائے گی۔
اور اب دو جملہ ہائی معترضہ۔ دنیا میں صرف ایک ملک پاکستان ہے جس کے سفارت کار وزیر اعظم کی تقریر سے پہلے ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہمارے لیڈر نے یہ یہ باتیں کرنی ہیں۔ یہ حماقت اس دفعہ نیو یارک میں ہوئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ آج ہی میری امریکہ میں ایک دوست سے بات ہوئی ہے۔ وہاں ایک اردو چینل نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کے ساتھ چار عدد شیف بھی گئے تھے۔ خدا کرے کہ یہ بات محض افواہ ہی ہو۔ ویسے سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں گردش کر رہی ہیں جن میں میاں صاحب کے سامنے انواع و اقسام کے کھانے ہیں۔ سچ پوچھیں تو چند روز سے میرا بھی وزیر اعظم بننے کو دل کر رہا ہے۔ مگر اس کا کیا جائے کہ یو این کی طرح میں بھی ستر سالہ ہونے کے قریب ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں