"JDC" (space) message & send to 7575

شام میں روس ترکی کشیدگی

شام میں غیر ملکی مداخلت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ روسی لڑاکا جہاز ترک ایئرفورس نے گرایا۔اس کے بعد حالات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ ترکی نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار ضرور کیا، لیکن معافی مانگنے سے انکار کر دیا ہے۔ روس نے اپنا ایئرڈیفنس سسٹم شام میں نصب کر دیا ہے۔ میزائل بردار روسی جہاز بھی طرطوس کی بندرگاہ کے قریب موجود ہے۔ روسی مداخلت سے صدر بشارالاسد کی حکومت کی ڈھارس بندھی ہے۔ امریکہ، روس، فرانس، برطانیہ، سب داعش کے ٹھکانوں پر ہوائی حملے کر رہے ہیں۔ فرانس کا طیارہ بردار بحری جہاز شام کی سمندری حدود میں لنگر انداز ہے۔ روس نے ترکی کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ان میں سے چند یہ ہیں:ترکی کی زرعی اجناس کی درآمد پر پابندی، چارٹرڈ پروازوں پر پابندی، روسی کمپنیوں میں ترک باشندوں کو ملازمت نہ دینے کا فیصلہ ۔ روسی کمپنیوں میں اس وقت نو ہزار ترک کام کر رہے ہیں۔ اگرچہ دونوں ممالک کے تعلقات بہت کشیدہ ہیں لیکن سفارتی تعلقات تاحال قائم ہیں۔ کمرشل پروازیں بھی جاری ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ حالات میں مزید خرابی سے روس کو زیادہ نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، اس لیے کہ ترکی کے لیے روسی برآمدات پچیس ارب ڈالر سے زاید ہیں۔ یوکرین کی وجہ سے مغربی اقتصادی پابندیوں اور تیل کی عالمی قیمت گرنے سے روسی معیشت خاصے دبائو کا شکار ہے۔
روس شام میں بظاہر تو داعش کو کچلنے کا عزم لے کر آیا تھا، لیکن اُس کے اصل اہداف اور بھی تھے۔ صدر بشارالاسد کی حکومت کو سہارا دینا روس کا اولین ہدف تھا۔ داعش اور دمشق حکومت میں ویسے بھی جنگ برائے نام ہے۔ دمشق کی اصل جنگ الجیش الحر یعنی آزاد فوج سے ہے، جو معتدل شامی اپوزیشن تصور کی جاتی ہے اور اُسے ترکی اور تمام مغربی اقوام کی حمایت حاصل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک صرف بیس فیصد روسی ہوائی حملے داعش کے ٹھکانوں پر ہوئے ہیں۔ روس کی عسکری مداخلت کا اصل ہدف آزاد فوج ہے، لہٰذا صدر بشارالاسد اور آزاد شامی فوج کے بارے میں روسی اور ترکی نقطہ ہائے نظر متصادم ہیں۔
صورت حال کے صحیح ادراک کے لیے شام کی موجودہ زمینی حقیقتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ شام واضح طور پر چار بلکہ پانچ حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ ایک حصے پر داعش قابض ہے۔ وسطی شام کے کچھ حصہ پر النصرہ فرنٹ کا کنٹرول ہے۔ یہ لوگ القاعدہ کی سوچ کے حامل ہیں۔ وسطی شام سے لے کر حلب کے شہر تک کا علاقہ آزاد فوج کے تصرف میں ہے۔ اُردنی سرحد کے پاس درعا کا ضلع بھی آزاد فوج کے پاس ہے۔ دمشق سے لے کر لاذقیہ شہر تک بشارالاسد حکومت کا کنٹرول ہے، گویا ملک کا بیشتر حصہ مختلف اقسام کے باغیوں کے پاس ہے۔ شمال مشرق میں شامی کرد عملاً خود مختار ہو چکے ہیں۔
لاذقیہ صوبے کے انتہائی شمال میں ترک سرحد کے ساتھ ساتھ ترکمان اقلیت آباد ہے۔ ترکمان نسلاً ترک ہیں اور آزاد فوج کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر شریک ہیں، لہٰذا ترکمان شام میں ترک مفادات کے دفاع کے لیے بہت اہم ہیں۔ ترکمان علاقے کے مشرق میں عراقی حدود کی جانب کرد آباد ہیں۔ ترکی کو اکراد کے بارے میں تحفظات رہے ہیں۔ ترکی کے کرد علاقے میں چھوٹی چھوٹی شورشیں سر اٹھا رہی ہیں۔ روسی جہاز ترکمان آبادی والے شامی علاقے میں گرا ہے۔ جہاز کے پائلٹ نے جب پیراشوٹ کے ذریعہ جان بچانے کی کوشش کی تو ترکمانوں نے زمین سے فائر کر کے اُسے ہوا ہی میں مار دیا، اس عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ صدر پوٹن روس کی سابقہ عظمت بحال کرنے کے داعی ہیں۔ یوکرین کے واقعات کے بعد روس میں ان کا امیج مرد آہن والا بن گیا تھا۔ ترکی نے روسی جہاز مار گرایا تو صدر پوٹن کے اس امیج کو بڑا دھچکا لگا۔ روس جیسی عالمی قوت کے لیے یہ بڑی اہانت تھی۔ صدر طیب اردوان نے دو مرتبہ پوٹن سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی، لیکن روسی صدر نے کال ریسیو کرنے سے انکار کر دیا۔
ترکی سیاحوں کی جنت ہے۔ وہاں دنیا جہان سے بڑی تعداد میں ٹورسٹ آتے ہیں۔ روس سے ترکی آنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد تقریباً پینتالیس(45)لاکھ بنتی ہے، لہٰذا اقتصادی پابندیوں سے ترکی کو بھی اچھا خاصا نقصان ہو گا، کیونکہ روسی سیاح ترکی کا رُخ نہیں کریں گے۔
روسی قیادت نے ترکی پر الزام لگایا ہے کہ وہ داعش کی درپردہ مدد کر رہا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ داعش کے کنٹرول میں علاقے تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور فی الوقت تیل برآمد کرنے کا واحد ذریعہ وہ سمگلنگ ہے جو ترکی کے راستے ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ داعش قیادت کے پاس وافر مالی وسائل ہیں۔ کئی باخبر مغربی مبصر یہ بھی کہتے ہیں کہ داعش کی پیدائش میں امریکہ اور ترکی شریک تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ سنی آبادی کی یہ تنظیم نہ صرف بشارالاسد کو شکست دے گی، بلکہ ایران اور حزب اللہ کے علاقائی اثر و نفوذ کو بھی کم کرے گی۔ روس کے علاوہ ایران اور حزب اللہ دونوں بشارالاسد کی حمایت میں آگے آگے ہیں۔ تقریباً تین ہفتے پہلے میں حرم مکی میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہم لوگ جمعہ کی اذان کا انتظار کر رہے تھے۔ وقت وافر تھا، میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے مصری ڈاکٹر سے پوچھا کہ مصر میں حالات کیسے ہیں؟ کہنے لگا کہ حالات کی خرابی کی وجہ سے مجھے سعودی عرب میں جاب کرنا پڑی ہے، ہمیں نہ کچھ اخوان کی حکومت سے ملا اور نہ ہی فوجی انقلاب سے۔ مصر بھی بڑے سیاسی تلاطم سے گزرا ہے لیکن جو تباہی شام نے دیکھی ہے، وہ خدا کسی دشمن ملک کے لوگوں کو بھی نہ دکھائے، اڑھائی لاکھ بے گناہ شامی مارے جا چکے ہیں۔ مصری ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اقتدار چھوڑنے والے تمام عرب حکمرانوں میں سے صدر حسنی مبارک ہی اچھے نکلے۔ محدود خون خرابے کے بعد اقتدار سے علیحدہ ہو گئے اور ادھر بشارالاسد ہیں کہ آخری شامی کی موت تک اقتدار سے چمٹے رہنے پر بضد ہیں۔
تقریباً ایک ماہ پہلے روس کا ایک کمرشل جہاز صحرائے سینا کی مصری فضا میں دہشت گردی کا نشانہ بناتھا۔ داعش نے ذمہ داری قبول کی، دو سو سے زائد مسافر اپنی جان سے گئے۔ اغلب گمان یہ ہے کہ داعش والوں نے اڑنے سے پہلے ہی روسی طیارے میں بم نصب کرایا۔ اس المناک حادثے کے بعد روس میں داعش کے خلاف نفرت بڑھی ہے۔ اب روس آزاد شامی فوج کے علاوہ داعش کے ٹھکانوں پر بھی فضائی حملے کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔
دو روز پہلے میری ایک دوست سے ملاقات ہوئی جو عالمی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ میں نے یہی موضوع اُن کے ساتھ چھیڑ دیا۔ کہنے لگے: کاش آج ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم ہوتے۔ میں نے پوچھا کہ اُس سے کیا ہوتا تو کہنے لگے کہ بھٹو صاحب فوراً ماسکو اور انقرہ جاتے۔ روسی اور ترکی قیادتوں کو سمجھاتے کہ تعلقات میں مزید بگاڑ دونوں ممالک کے لیے اچھا ہے، اور نہ ہی ہمارے خطے کے لیے۔ حالات بہتر ہونے چاہئیں، تنائو کم ہونا ضروری ہے۔ حالات بگڑنے کا فائدہ داعش کو ہو گا اور شاید آپ کو علم ہو کہ داعش نے اسرائیل کے خلاف کبھی ایک جملہ بھی نہیں بولا۔
یو این، او آئی سی اور تمام دوست ممالک کا فرض ہے کہ روس ترکی تنائو کو کم کریں۔ امریکہ فرانس اور برطانیہ اس سلسلے میں کوششیں کر رہے ہیں۔ اگر داعش کا مل کر مقابلہ کرنا ہے تو روس ترکی صلح ضروری ہے۔ ہوش سے کام نہ لیا گیا تو عالمی امن خطرے میں ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں