"JDC" (space) message & send to 7575

موسمی تبدیلی اور عالمی تعاون

کیا آپ کو علم ہے کہ برطانیہ کا برّی رقبہ بتدریج کم ہو رہا ہے اور یہ تو آپ کو پتہ ہو گا کہ مالدیپ کے جزیرے کچھ عرصہ بعد صفحۂ ہستی سے مٹ سکتے ہیں۔ پچھلے دو سو پانچ سال میں کرئہ ارض کا درجۂ حرارت ایک اعشاریہ پانچ فیصد بڑھا ہے ہمارے گلیشیر گلوبل وارمنگ کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ پچھلے دس سال میں سمندروں کی سطح میں تیرہ انچ کا اضافہ ہوا ہے۔ ایسا عمل اس سے پہلے کی انسانی تاریخ میں دیکھنے میں نہیں آیا‘ اور ہم سب کو معلوم ہے کہ کرئہ ارض پر ہر قسم کی زندگی بشمول آبی حیات چرندوپرند بلکہ خود انسانی زندگی خطرے میں ہے اور یہ بھی نوٹ فرما لیں کہ بنی نوع انسان کو بچانے کے لیے جلد ہی ایسے قانون بنیں گے کہ پٹرول یا ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کو جرمانہ ہو گا۔ فرنس آئل اور کوئلے سے بجلی بنانا گناہ تصور ہو گا۔ 
ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں پیرس کانفرنس دسمبر کے آغاز میں ہوئی اور دس دن جاری رہی۔ پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم نوازشریف نے کی۔ کانفرنس کامیاب رہی۔ دنیا کے 187 ممالک نے موسمی تبدیلی کو روکنے یا کم کرنے کے لیے تعاون کا تحریری وعدہ کیا۔ پوری دنیا سے ایک سو پچاس صدور اور وزرائے اعظم آئے۔ ممبر ممالک اور عالمی تنظیموں کے تیس ہزار سے زائد مندوب شریک ہوئے۔ اس طرح یہ اب تک ہونے والی سب سے بڑی عالمی کانفرنس تھی۔ شارکین کو علم تھا کہ موسمی تبدیلی خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے نیز ہمارے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ نہایت سخت۔
1760ء میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا۔ انسان نے کوئلہ جلا کر بھاپ بنائی اور بھاپ کی قوت سے انجن چلانا شروع کئے۔ یوں سمجھیں کہ یہ ماحولیاتی آلودگی کا آغاز تھا اور پھر بیسیویں صدی میں فرنس آئل سے بجلی بننے لگی۔ پٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی کروڑوں گاڑیاں ٹریکٹر‘ ٹرک اور ٹرالر کرئہ ارض پر بھاگتے دکھائی دیے۔ بجلی پر چلنے والی فیکٹریاں اعلیٰ سے اعلیٰ مصنوعات تھوک کے حساب سے بنانے لگیں۔ لیکن ساتھ ساتھ گرین ہائوس گیس بھی فضا میں جمع ہونے لگی۔ گرین ہائوس گیس تین گیسوں کا مجموعہ ہے جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ‘ میتھین یعنی Ch4 اور نائٹروجن آکسائیڈ شامل ہیں۔ اس وجہ سے ہماری زمین کے گرد ایک غلاف بن گیا ہے اور زمین سے نکلنے والی حرارت اس گھیرے میں مقید ہو جاتی ہے لہذا کرہ ارض پر ٹمپریچر بڑھ رہا ہے۔
ماحولیاتی ماہرین نے دنیا کے ان دس ممالک کا تعین کر لیا ہے جو موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ ان دس ممالک میں پاکستان‘ انڈیا اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔ گویا ہمارے تمام خطے کو خطرات لاحق ہیں۔ ہماری نسل نے پاکستان میں موسمی تبدیلی کے مضر اثرات خود دیکھے ہیں۔ میں نے 1960ء کی پوری دہائی لاہور میں گزاری۔ تب موسم سرما میں دھند بالکل نہیں ہوتی تھی اور اب ہر سال ہوتی ہے۔ 2010ء اور 2012ء کے سیلاب اپنی تباہ کاریوں کی وجہ سے بدترین تھے۔ ایک اندازے کے مطابق 2012ء کے سیلاب کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو ساٹھ ارب ڈالر کا نقصان ہوا جو کہ ہماری سالانہ مجموعی نیشنل انکم کے برابر ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کچھ تو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اور کچھ غلطیاں ہماری اپنی ہیں۔ دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کا سبب سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک ہیں اور ان میں امریکہ سرفہرست ہے اور اب چین اور انڈیا بھی بہت فضائی آلودگی پھیلا رہے ہیں کیونکہ وہاں صنعتی ترقی تیزی سے ہو رہی ہے۔ دریائے جہلم کا منبع مقبوضہ کشمیر ہے جبکہ دریائے چناب جموں کے جنگلات میں ہونے والی بارش سے آغاز پاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سکیورٹی اور معاشی ضروریات کے لیے جنگل بے دردی سے کاٹے گئے ہیں۔ جب جنگل گھنے تھے تو ان دونوں دریائوں کا آغاز دھیرے دھیرے ہوتا تھا۔ اب مقبوضہ کشمیر میں بارش زیادہ ہو تو فوراً ہی دونوں دریا بپھر جاتے ہیں اور چند گھنٹوں میں پاکستان سیلاب کی زد میں ہوتا ہے۔ اسی طرح پاکستان اور انڈیا دونوں سیاچن گلیشیر کو تباہ کر رہے ہیں۔ فوجی کارروائی سے برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ سیاچن کی حفاظت کے لیے دونوں ممالک کو انا سے ہٹ کر تعاون کرنا ہو گا۔
اور اب آتے ہیں ان عوامل کی جانب جو ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ ان میں سب سے سرفہرست ہماری آبادی کا بے ہنگم پھیلائو ہے۔ 1947ء میں مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ سے ذرا اُوپر تھی اور اب ہم انیس کروڑ کو کراس کر گئے ہیں گویا کہ آزادی کے بعد لخت جگر پیدا کرنے میں ہم دنیا کا اول نمبر ملک بن گئے ہیں۔ آبادی بے ہنگم بڑھے تو قدرتی وسائل پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً ہم نے اپنے جنگلات بے دردی سے کاٹے ہیں۔ جنگلات فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔ معاصر کالم نگار ایاز امیر نے چند روز قبل بڑے دکھ سے لکھا ہے کہ کس طرح سیمنٹ بنانے والی فیکٹریاں سالٹ رینج کے تاریخی ورثے کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔
ماحولیاتی ماہرین نے ایک اور دلچسپ امر کی نشاندہی کی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گوشت کے لیے پالے گئے جانور گرین ہائوس گیس کا پندرہ فیصد پیدا کرتے ہیں لہٰذا گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ لوگ گوشت کم کھائیں۔ ساتھ ہی ماہرین نے کہا ہے کہ اس سے انسانی صحت اچھی ہو گی کہ بسیار گوشت خوری سے موٹاپا اور ذیابیطس جیسے امراض جنم لیتے ہیں۔ گوشت والے جانور میتھین گیس پیدا کر کے فضا میں چھوڑتے ہیں۔ فرنس آئل اور کوئلہ سے چلنے والے بجلی کے کارخانے 37 فیصد گرین ہائوس گیس پیدا کرتے ہیں جبکہ 15 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ ہماری کاروں بسوں اور ٹرکوں کے چلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ گاڑیاں کاربن مونو آکسائیڈ بھی پیدا کرتی ہیں جو زہریلی گیس ہے۔
موسمی تبدیلی کا مسئلہ اتنا گمبھیر ہے کہ تمام ممالک کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں تہران میں بچوں کے سکول دو دن بند رہے کیونکہ ہوا میں آلودگی زیادہ تھی۔ امریکہ میں‘ میں نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ایک کار میں بیٹھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ورجینیا کی ریاست میں جس گاڑی میں تین یا زائد افراد بیٹھے ہوں اسے ٹول ٹیکس معاف ہے۔ سب بچے اپنے اپنے علاقے کے سکول میں ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں غافلانہ جہالت کا راج ہے۔ بچوں کا اچھے والے انگریزی سکول جانا ضروری ہے خواہ وہ بیس میل دور ہو۔ ڈرائیور ایک یا دو بچوں کو لے کر دور دراز چھوڑ کر آتا ہے اور پھر واپس لے کر آتا ہے۔ بیگم صاحبہ شاپنگ پر یا کافی مارننگ کے لیے جاتی ہیں۔ تیسری گاڑی میں صاحب بہادر دفتر جاتے ہیں اور پھر برج Bridge کھیلنے کے لیے جمخانہ کلب‘ ایک فیملی کتنی فضائی آلودگی پھیلاتی ہے‘ وہ دن دور نہیں جب ایسے خاندانوں کو آلودگی ٹیکس دینا پڑے گا۔
میرے دوست ڈاکٹر طارق بنوری آج کل امریکہ سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ ایک امریکن یونیورسٹی میں ماحولیاتی اقتصادیات پڑھاتے ہیں۔ اگلے روز ان سے بات ہو رہی تھی‘ کہنے لگے کہ پیرس کانفرنس کا سب سے بڑا فیصلہ یہ ہے کہ عالمی درجہ ٔحرارت مزید دو فیصد سے زیادہ کسی صورت نہیں بڑھنا چاہیے] ساتھ ہی کہنے لگے کہ اگر ہم سب نے صحیح اقدام نہ کئے تو بیس سال بعد ہماری زمین کا درجہ حرارت دو فیصد اور بڑھ جائے گا اور انسان خود مشاکل کا شکار ہو جائے گا۔ کرئہ ارض پر موجود تمام ذی نفس اتنی شدید حرارت میں کیسے زندہ رہ سکیں گے؟
لیکن پریشان نہ ہوں... مسئلے کا حل موجود ہے مگر ہے محنت طلب۔ تمام ممالک نے 2050ء تک متبادل ذرائع انرجی کی طرف منتقل ہونا ہے۔ تیل اور کوئلے کا استعمال ختم کرنا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے ایک سو بلین ڈالر سالانہ کا فنڈ مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک نئی ٹیکنالوجی کی طرف آئیں اور اسے استعمال کے طریقے سیکھیں۔ بھرپور عالمی تعاون سے درجہ ٔحرارت کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ یہی راہ نجات ہے ۔اللہ تعالی نے ہمیں شمسی توانائی ‘پن بجلی اور ہوائی انرجی اسی لیے عطا کی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں