"JDC" (space) message & send to 7575

وسطی ایشیا، عالمی مفادات اور پاکستان

1991ء میں وسطی ایشیا کے پانچ ممالک آناً فاناً آزاد ہوئے تو پاکستان میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ مشرقی سرحد پر چونکہ ہمارے مسائل شروع سے رہے ہیں؛ لہٰذا مغرب کی جانب مسلمان ممالک کی آزادی ہماری بیرونی سکیورٹی کے لیے اچھی نوید تھی برصغیر پر حکومت کرنے والے غوری، خلجی، تغلق اور آخر میں مغل،سب کے سب افغانستان اور وسطی ایشیا سے آئے تھے؛ چنانچہ ہمیں 1991ء میں یوں محسوس ہوا کہ پرانے بچھڑے ہوئے کزن ہمیں مل گئے لیکن ایک بات ہم بھول گئے کہ وسطی ایشیا سے برصغیر کی جانب ہجرت یک طرفہ رہی ہے۔ یعنی آپ کو دہلی لاہور اور پشاور میں کئی بخاری ملیں گے لیکن آج کے سمرقندو بخارا میں آپ کو کوئی دہلوی، لاہوری یا پشاوری ڈھونڈنے کے لیے خاصی کوشش کرنا پڑے گی۔ وہاں کے فارن کرنسی رولز ایسے ہیں کہ جو سرمایہ کار پاکستان سے گئے تھے ان میں سے اکثر واپس آ گئے۔
وسطی ایشیا وسیع و عریض علاقہ ہے صرف قازقستان کا رقبہ بھارت سے زیادہ ہے۔ نوے فیصد سے زائد لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ آبادی کی اکثریت مسلمان ہے لیکن ریاستی امور میں مذہب کا عمل دخل نہیں۔ قازقستان اور ترکمانستان کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں تو تاجکستان اور کرغیزستان میں پہاڑ ہیں اور بے شمار گلیشئر، سنٹرل ایشیا کے زیادہ تر آبی وسائل ان دو ممالک کے پاس ہیں۔ یہاں پن بجلی بنانے کے وافر امکانات ہیں اسی وجہ سے یہ دونوں ممالک پاکستان بجلی ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔ تاجکستان کا آدھا رقبہ نو ہزار فٹ سے بلند تر ہے یعنی نتھیا گلی سے بھی اونچا۔ پورے خطے میں روسی زبان سمجھی جاتی ہے۔ سوویت یونین کے زمانے والی لنگڑی لولی جمہوریت قائم ہے۔ یعنی حکمران لیڈر کو ہرانا تقریباً نا ممکن ہے۔ اسی لیے نور سلطان نذر بایوف اور اسلام کریموف کو اقتدار میں پچیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔
روس وسطی ایشیا کو اپنا Near abroadکہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اپنا پچھواڑہ سمجھتا ہے۔ آزاد ہونے کے فوراً بعد یہ ممالک Commonwealth of Independent states(CIS) تنظیم کا حصہ بن گئے تھے۔ اس تنظیم میں محوری کردار روس کا ہے۔ روس یہ سمجھتا ہے کہ اس خطے کا امن اور سکیورٹی اس کے فرائض میں شامل ہیں۔ اسی لیے دو شنبے میں اب تک روسی فوج کا ایک بریگیڈ موجود ہے کیونکہ تاجکستان میں انتہا پسندی کا خطرہ موجود ہے اور وجہ یہ ہے کہ افغان تاجک بارڈر خاصا طویل ہے۔ خطے کی دوسری بڑی تنظیم Shanghai co-operation orgnization یعنی ایس سی او ہے۔ اس تنظیم کے بنیادی مقاصد انتہا پسندی کا سدباب اقتصادی تعاون کا فروغ اور علیحدگی پسند رجحانات کو کم کرنا ہے۔ چین کو اپنے مغربی صوبے سنگیانگ میں مذہبی انتہا پسندی اور علیحدگی کے رجحانات کا سامنا ہے۔ سنکیانگ کی سرحدیں پاکستان افغانستان، کرغیزستان، تاجکستان اور قازقستان سے ملتی ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا پچھلے سال اوفا میں ایس سی او کے مکمل ممبر بن گئے تھے لیکن یہ بات سو فیصد صحیح نہیں۔ دونوں ممالک کو ایس سی او میں داخلہ ضرور مل گیا ہے لیکن مکمل ممبر بننے میں وقت لگے گا۔ اس تنظیم کی مکمل ممبر شپ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ امیدوار ممالک میں آپس میں سرحدی تنازعات نہ ہوں۔ پاکستان اور بھارت میں یہ جھگڑے موجود ہیں۔
روس، امریکہ، چین، بھارت، ترکی اور ایران سب کے لیے یہ خطہ اہم ہے۔ امریکہ یہاں کے انرجی وسائل میں شروع سے دلچسپی رکھتا ہے۔ امریکہ یہاں روسی اثر و رسوخ کم کرنا چاہتا ہے۔ جمہوریت لانا چاہتا ہے۔ انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتا ہے اور اس ضمن میں امریکی، روسی، چینی اور انڈین اہداف ایک ہیں۔ چین کا بھی مفاد یہ ہے کہ وسطی ایشیا سے انتہا پسندی اور علیحدگی کے جراثیم سنکیانگ منتقل نہ ہوں۔ چین ان تمام ممالک کے ساتھ سڑکوں کا جال بچھا رہا ہے۔ قازقستان سے گیس پائپ لائن لا رہا ہے۔ بھارت کے لیے یہ خطہ مستقبل کی تجارت کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ بھارت کے پالیسی اہداف میں ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان کے گرد دونوں اطراف سے گھیرا تنگ کیا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے افغانستان اور تاجکستان آئیڈیل ہیں۔ دوشنبے کے قریب عینی ایئربیس کی مرمت پر بھارت نے خطیر رقم صرف کی مگر بیس پھر بھی بھارت کو نہیں ملا کیونکہ روس یہ نہیں چاہتا کہ اس خطے میں کسی اور ملک کو مستقل فوجی اڈے دیئے جائیں۔ ترکی کا اس خطے کے ساتھ تاریخی اور ثقافتی تعلق ہے۔ پانچ میں سے چار ممالک کے لوگ مختلف ترکی لہجے کی زبانیں بولتے ہیں۔ صرف تاجکستان کے لوگ فارسی بولتے ہیں۔ لہٰذا ایران ان کے 
ملک کو اپنا تاریخی اور ثقافتی پچھواڑہ سمجھتا ہے۔ شروع میں کوشش کی گئی کہ ایرانی نظام بھی تاجکستان ایکسپورٹ کیا جائے لیکن کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ تاجک عوام کی اکثریت دین اور سیاست کو علیحدہ رکھنے کے حق میں ہے اور دوشنبے کی حکومت کے ماسکو کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ اور اب ذکر ہو جائے کاسا (CASA) ایک ہزار کا۔ بجلی کی یہ لائن کرغیزستان اور تاجکستان سے ایک ہزار میگاواٹ بجلی براستہ افغانستان پشاور تک لے کر آئے گی۔ ایک ہزار کلوواٹ فی گھنٹہ بجلی کی قیمت دس سینٹ سے کم پڑے گی۔ ٹرانسمیشن لائن کا طول تیرہ سو سات کلومیٹر ہے۔ یہ بجلی صرف موسم گرما میں پاکستان کو ملے گی کیونکہ سردیوں میں گلیشئر بہت کم پگھلتے ہیں۔ لہٰذا پن بجلی کی پیداوار بھی کم ہو جاتی ہے۔ منصوبے کی کل لاگت ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور یہ چار سال آٹھ ماہ میں مکمل ہو گا۔ ابھی اس منصوبے پر کام شروع نہیں ہوا۔ ایک ارب ڈالر میں سے پاکستان کاحصہ دو سو ملین ڈالر بنتا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے یہ رقم دینے کے لیے تیار ہیں۔
چند روز پہلے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (IPS) اسلام آباد نے پاکستان اور سنٹرل ایشیا کے حوالے سے ایک نشست کا اہتمام کیا۔ سابق سفیر خالد خٹک نے افتتاحی کلمات کہے۔ خالد خٹک وسطی ایشیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ماسکو میں بھی سفیر رہے۔ خٹک صاحب نے پورے علاقے کا تاریخی پس منظر بیان کرنے کے بعد کہا کہ پاکستان کے وسطی ایشیا سے متعلق اہداف حقیقت پسندانہ نہ تھے۔ مقررین میں راقم الحروف اور پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر عظمت حیات شامل تھے۔ وہ ایک عرصہ تک سنٹرل ایشیا ایریا سٹڈی سنٹر کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ میری گفتگو تاجکستان کے حوالے سے تھی جبکہ ڈاکٹر عظمت حیات کا فوکس ازبکستان پر تھا۔ میرا نقطہ آغاز یہی تھا کہ جغرافیائی اور ثقافتی طور پر تاجکستان پاکستان کے بہت قریب ہے۔ داخان کی پندرہ کلومیٹر چوڑی پٹی دونوں ملکوں کو جدا کرتی ہے۔ کشمیر میں اسلام ایک تاجک روحانی پیشوا شاہ صدمانؒ کی وجہ سے پھیلا۔ علامہ اقبال تاجکستان کے مثقف طبقے کے محبوب شاعر ہیں۔ جب میں دوشنبے میں سفیر تھا تو تاجک لیڈر گاہے گاہے شکایت کرتے تھے کہ ان کے انتہا پسند پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تربیت حاصل کرتے ہیں لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ پچھلے سالوں میں پاک تاجک تجارت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور 2013ء میں مجموعی حجم 9کروڑ ڈالر تھا۔ تاجکستان وسط ایشیا کا غریب ترین ملک ہے۔ آبادی صرف سترلاکھ کے لگ بھگ ہے۔ دس لاکھ تاجک روس میں کام کرتے ہیں اور ان کی ترسیلات سے ملک کا اقتصاد چلتا ہے۔ اس پس منظر میں 9کروڑ ڈالر کی دو طرفہ تجارت کچھ کم نہیں۔ 2011ء میں چیف آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل خالد شمیم وائن کے دوشنبے کے دورے کے بعد تو عسکری تعلقات کا سلسلہ بھی چل پڑا۔
تاجک بدخشاں اور چترال کے مابین سڑک کو کابل کی حکومت نے ویٹو کر دیا ہے کہ اس سے کابل کی راہداری کی اہمیت کم ہونے کا خطرہ تھا۔ اب پاکستانی مصنوعات کابل کے راستے ہی تاجکستان جارہی ہیں۔ میرے زمانے میں دوشنبے پر خوف کے سائے تھے۔ سورج غروب ہوتے ہی لوگ گھروں کی راہ لیتے تھے۔ سکیورٹی صورت حال مخدوش تھی۔ اب دوشنبے سے آنے والے بتاتے ہیں کہ دو تین فائیو سٹار ہوٹل بن گئے ہیں۔ شاپنگ مال بن گئے ہیں۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں نائٹ کلب بن گئے ہیں کیا اسے ترقی کہا جا سکتا ہے جی نہیں کیونکہ امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور غریب غریب تر صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیکولر حکومت کی رٹ پہلے سے بہتر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں