"JDC" (space) message & send to 7575

سعودی ایران مصالحت‘ امکانات اور مشکلات

مڈل ایسٹ تنازعات میں مصالحتی رول پاکستان کے لیے ایک نیچرل سی بات ہے ۔جونہی دو مسلمان ممالک برسرپیکار ہوتے ہیں‘ پاکستانی عوام میں بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ لازوال روحانی رشتوں کے علاوہ سعودی عرب اور ایران دونوں ہمارے لیے سکیورٹی اور تجارت کے لیے بھی بے حد اہم ہیں۔ سعودی عرب میں پچیس لاکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں اور وہ سب سے زیادہ زرمبادلہ بھیجتے ہیں ۔اس کے علاوہ مصالحتی رول ہماری حکومت کا قد کاٹھ بھی بڑھاتا ہے۔ عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ حکومت نے ہمیں بجلی نہیں دی تو کیا ہوا وزیراعظم دو برادر ممالک میں صلح تو کرا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے عوام کا دھیان اپنے گوناگوں مسائل سے ہٹ جاتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وزیراعظم کا ریاض اور تہران کا حالیہ دورہ پاکستان کی مڈل ایسٹ میں مصالحت کی چوتھی کوشش ہے۔ جب تنائو شدید ہو تو مصالحت کا عمل بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں کی گئی تین عدد کوششوں کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ ایران اور عراق کی جنگ پاکستان کے لیے پریشان کن تھی۔ صدر ضیاء الحق صلح کرانے کے لیے فوراً متحرک ہو گئے۔ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے ذریعے بھی کوشش ہوئی جو سالوں تک جاری رہی۔ مصالحت کی اس کوشش کے سامنے دو بڑے مسائل آئے ایک تو ایران کا خیال تھا کہ ضیاء الحق اور او آئی سی‘ دونوں نیوٹرل نہیں ہیں۔ دوسرے ایران اس بات پر مصر رہا کہ جنگ بندی کرنے سے پہلے اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ جارحیت میں پہل کس نے کی ہے۔ حالانکہ اگر ایران ان مشترکہ مصالحت کی کاوشوں کو قبول کر لیتا تو لاکھوں مسلمان جانیں بچ سکتی تھیں۔ بعد میں ایران کو مجبوراً جنگ بندی قبول کرنا پڑی اور اُسے جنگی خساروں کا معاوضہ بھی نہ ملا۔ شط العرب کے معاملے پر مذاکرات بھی نہ ہوئے اور پاکستانی مصالحتی کوشش بھی بے نتیجہ رہی۔
ایران عراق جنگ اختتام کو پہنچی تو سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات منقطع تھے۔ بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں اور صاحبزادہ یعقوب خان مرحوم وزیر خارجہ۔ شاید کم لوگوں کو علم ہو گا کہ صاحبزادہ صاحب کی بیگم ایرانی النسل ہیں۔ ایران اور خلیجی ممالک کے لیڈر انہیں قدر اور احترام سے دیکھتے تھے کہ ذہین ہونے کے علاوہ ہفت زبان بھی تھے۔ انٹرنیشنل معاملات پر اُن کی گرفت مضبوط تھی اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ ‘سعودی ایران تعلقات کو بحال کرانے میں پیش پیش تھے۔ مارچ 1989ء میں او آئی سی وزرائے خارجہ کی کانفرنس ریاض میں ہو رہی تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ ایران کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا۔ پاکستانی وزیر خارجہ اسلام آباد سے تہران گئے۔ ایرانی قیادت سے کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستانی خواہش کا اظہار کیا۔ وزیر خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولائتی کو اپنے جہاز میں بٹھایا اور ریاض کے لیے روانہ ہوئے۔میں ریاض ایئرپورٹ پر دونوں وزرائے خارجہ کو خوش آمدید کہنے والوں میںشامل تھا‘ یہ پاکستانی سفارت کاری کے لیے عظیم دن تھا اور اس خبر کا عالمی لیول پر چرچا ہوا۔ کُچھ عرصہ بعد ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔
1990ء میں صدام حسین نے کویت پر غاصبانہ قبضہ کیا اور عالمی مطالبات کے باوجود کویت کو آزاد کرنے سے انکار کر دیا۔ 1991ء کے اوائل میں سعودی عرب نے عالمی فوجی اتحاد بنا کر مسلح قوتوں کو بلا لیا۔ پاکستان کو بھی فوج بھیجنے کی درخواست کی گئی۔ پاکستان میں صورتحال عجیب تھی۔ کُچھ جذباتی اور کم علم لوگ صدام حسین کو عالم اسلام کا ہیرو سمجھ رہے تھے کہ وہ امریکہ کے سامنے ڈٹ گیا تھا۔ ہمارے سپہ سالار جنرل اسلم بیگ اور سیاسی قیادت بھی ایک پیج پر نہ تھے۔ کُچھ تذبذب کے بعد پاکستان نے فوجی دستے سعودی عرب بھیج دیئے۔ اب نوازشریف وزیراعظم بن چکے تھے۔ اتحادی فوجوں نے امریکہ کی سربراہی میں جلد ہی کویت آزاد کرا لیا۔ اب صدام حسین نے کویت اور سعودی عرب پر سکڈ میزائل برسانے شروع کر دیئے‘ پھر پاکستانی پبلک کے پریشر کی وجہ سے وزیراعظم ریاض آئے اور سعودی حکمرانوں سے کہا کہ اسلامی ممالک کے مابین جنگ فوری بند ہونی چاہیے۔ سعودی لیڈر شپ نے ان کی بات تو سُن لی مگر وہ جنگ بندی کے لیے قطعاً آمادہ نہ ہوئے۔ اس طرح مڈل ایسٹ میں مصالحت کی تین کاوشوں میں سے صرف ایک کامیاب ہوئی۔
گو کہ اس مرتبہ بھی کامیابی کے امکانات ففٹی ففٹی ہیں لیکن یہ کوشش بہرحال ضروری‘ پاکستان کے معاشرے کی یکجہتی اور اتحاد کے لیے بھی کہ پاکستانی سوسائٹی متعدد عقائد کی پیروکار ہے۔ دوسرے یہ کہ خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان مصالحت کرانے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہے۔ مثلاً ترکی ایران تعلقات میں تنائو کی کیفیت ہے اس لیے ترکی یہ رول کامیابی سے موجودہ صورتحال میں ادا نہیں کر سکتا ہے۔ عراق نے اپنے تئیںمصالحت کی کوشش کی ہے مگر اسے عرب لیگ نے قابل اعتبار نہیں سمجھا۔ سعودی لیڈر شپ کا خیال ہے کہ بغداد ایران کے زیراثر ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کی ساکھ بہتر ہے۔
ٹیکسٹ بک کے مطابق دیکھا جائے تو ثالثی کے لیے ثالث کا نیوٹرل ہونا ضروری ہے اور پھر متحارب پارٹیوں سے مصالحت کی درخواست بھی آنا چاہیے جو کہ موجودہ صورت میں نہیں ہوا لیکن پاکستانی لیڈر شپ نے ازخود قدم اٹھانے کا اچھا فیصلہ کیا۔ مڈل ایسٹ کے حالات اس قدر خراب کبھی نہیں ہوئے تھے۔ شام عملاً تقسیم بھی ہو گیا ہے اور تباہ بھی۔ یمن میں سعودی فوجی دستے حالت جنگ میں ہیں۔ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے صرف داعش ایک ایسا حریف ہے جہاں سعودی اور ایرانی پوزیشن یکساں ہے۔ 
اس وقت پاکستان کا اولین ہدف یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کسی بھی سطح پر بات چیت کا آغاز کرا دیا جائے۔ ایران نے اس مقصد کے لیے فوکل پرسن مقرر کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ ایران اقتصادی پابندیوں سے نکل رہا ہے۔ وہ تجارت اور ٹورازم بڑھانا چاہتا ہے۔ وہ اپنے انفراسٹرکچر کو بھی بحال کرنا چاہتا ہے۔ بیروزگاری کا خاتمہ ایران کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ پانچ دس سال میں ایران خطے کا بہت اہم ملک ہو گا۔ پاک ایران تجارت فروغ پائے گی۔ ایران سے گیس آنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ تیز اقتصادی ترقی کے لیے ازبس ضروری ہے کہ ایران علاقائی جنگوں سے نکلے۔
آپ کسی بھی باخبر پاکستانی سے پوچھیں کہ دنیا میں پاکستان کے مشکل وقت میں کام آنے والے دوست کون سے ہیں تو وہ صرف تین ممالک کے نام لے گا یعنی چین‘ سعودی عرب اور ترکی۔ غیر جانب داری اپنی جگہ مگر اس مشکل گھڑی میں سعودی عرب کا مخلصانہ ساتھ دینا ضروری ہے۔ لہٰذا پاکستان کی پالیسی صائب ہے کہ ہم عرب تنازعات کا حصہ نہیں بن سکتے ‘ہم لگی ہوئی آگ کو بھڑکانے کی بجائے بجھانے کو واجب سمجھتے ہیں‘ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی بھی خطرہ پاکستان کے لیے ناقابل برداشت ہو گا۔ 1990ء میں کویت سے ہزاروں پاکستانی واپس آئے تھے۔ خدانخواستہ سعودی عرب کے حالات خراب ہوئے تو لاکھوں واپس آئیں گے ۔کوئی بھی پاکستانی یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ حرمین الشریفین کے آس پاس کسی قسم کی شورش جنم لے۔ لہٰذا حساس معلومات کا تبادلہ اور ٹریننگ میں تعاون پاکستان اور سعودی عرب دونوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے‘ اور پھر پاکستان انتہا پسندی کے خلاف جنگ کامیابی سے لڑ رہا ہے ۔دونوں ممالک کو القاعدہ اور داعش جیسی تشدد پسند تنظیموں کا سامنا ہے ۔انہی اسباب کی وجہ سے ریاض کے دورہ میں جنرل راحیل شریف توجہ کا مرکز رہے۔ جی ہاں ہماری کامیابی کے امکانات ففٹی ففٹی ہیں لیکن یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔ تہران میں سعودی سفارت خانے پر افسوس ناک حملے کے بعد دونوں ممالک میں بات چیت مکمل طور پر منقطع ہے ایسی صورت میں پاکستان نے خلیج کے خطہ میں پُل کا کردار ادا کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ پوری قوم کو اس نیک عمل میں حکومت کی حمایت کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ہمیں اپنے حصے کی گیس پائپ لائن فوراً مکمل کرنی چاہیے کہ ایران کے ساتھ تعلقات کا فروغ ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں