"JDC" (space) message & send to 7575

چین کو چلیے....(آخری قسط)

ارمچی ہمارا آخری پڑائو تھا۔ شیان کی حسین یادیں سمیٹ کر ہم ارمچی روانہ ہوئے۔ شیان سے تین گھنٹے کی فلائٹ ہے۔ مادام ڈو اور مسٹر ہان ہمارے ہمراہ تھے۔ ارمچی پہنچے تو سنکیانگ میں فارن آفس کا نمائندہ ہمارے استقبال کے لیے موجود تھا۔ یہ خوش مزاج نوجوان تھا اور اس کا نام یوسف تھا۔ ارمچی سنکیانگ کے صوبے کا دارالحکومت ہے۔ اس صوبے میں ایغور آبادی تقریباً ساٹھ فیصد ہے۔ ارمچی کی اپنی آبادی تیس لاکھ کے قریب ہے۔ اگرچہ یہ شہر قدیم شاہراہِ ریشم کے زمانے میں موجود تھا لیکن آج یہ مکمل طور پر ماڈرن شہر لگتا ہے پچھلے تیس سال میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے اور پانچ دس سال میں یہ شہر بھی شیان کی طرح انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ کا مرکز ہو گا۔ اس کا برّی رابطہ یورپ سے بھی ہو گا اور پاکستان سے بھی۔ سنٹرل ایشیا کا بڑا ملک قازاقستان بھی یہاں سے زیادہ دور نہیں۔
اگلے روز پروگرام کا آغاز ٹرانسپورٹ کے آئندہ نظام کے بارے میں بریفنگ سے ہوا۔ بیجنگ سے ارمچی کا سفر بائی ٹرین اس وقت چوالیس گھنٹے کا ہے۔ اب دونوں شہروں کے درمیان بلٹ ٹرین کا ٹریک بچھایا جا رہا ہے۔ بلٹ ٹرین کی رفتار ساڑھے تین سو کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گی اور یہ ٹرین صرف سولہ گھنٹے میں ارمچی سے بیجنگ لے جائے گی۔ اب ہم ایک جدید فوڈ فیکٹری جا رہے ہیں۔ سنکیانگ میں فروٹ بہت ہوتا ہے۔ جدید مشینری کی مدد سے فروٹ کو جیم(Jam)کی شکل میں بوتلوں اور معدنی ڈبوں میں محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے خیبر پختون خوا ‘سوات گلگت بلتستان میں ایسی فیکٹریاں لگا کر خطیر مقدار میں زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
اور اب ہم گولڈ ونڈ(Goldwind)نامی فیکٹری میں ہیں۔ یہاں ونڈ یعنی ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی کے یونٹ بنتے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ ونڈ انرجی کے میدان میں گولڈ ونڈ مغرب کی مشہور کمپنیSiemensسے بھی آگے ہے۔ کمپنی کا ہیڈ کوارٹر ارمچی میں ہے اور دفاتر دنیا بھر میں ہیں۔ امریکہ کا آفس شکاگو میں ہے۔ یورپ اور آسٹریلیا میں بھی گولڈ ونڈ کام کر رہی ہے۔ جس فیکٹری میں ہم کھڑے ہیں‘ وہاں کھمبے پنکھے اور ونڈ ٹربائن یعنی ہوا کے زور سے چلنے والی چرخیاں بنتی ہیں۔ لمبے کھمبے کے نیچے زمین پر ایک بڑے سائز کا گول ڈبہ ہے جس کا وزن ایک سے دو ٹن ہو سکتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کا عمل اسی گول ڈبے میں مکمل ہوتا ہے لیکن اس عمل کا آغاز ان پنکھوں سے ہوتا ہے جو سوفٹ کی بلندی پر ہوا کے زور سے گھومتے ہیں۔ ہم ماحول دوست انرجی کے عہد میں داخل ہو رہے ہیں۔ کوئلہ اور تیل بہت جلد قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ چین متبادل انرجی کے میدان میں بھی آگے آگے ہے۔ فیکٹری میں تین سو مزدور کام کر رہے ہیں‘ کوئی شور نہیں ‘ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مگن ہے فیکٹری کا ڈسپلن قابل ِدید ہے۔
ہم اپنے کوسٹر میں سوار ہو کر قازاق کلچر ویلیج جا رہے ہیں۔ یہ اصل والا گائوں تو نہیں سیاحوں کی دلچسپی کا سامان ہے۔ قازاق رسم و رواج‘ شادی بیاہ کی رسمیں‘ کشیدہ کاری موسیقی اور رقص دکھائے جاتے ہیں۔ قازاق شوخ رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں۔ دلہن کی رخصتی ہونے والی ہے۔ اتنے میں آواز آتی ہے کہ آپ میں سے کوئی دلہا میاں بننا چاہتا ہے۔ دل تو سب کا چاہتا تھا مگر ایمبیسڈر عارف ایوب نے پہل کی۔ انہیں کشیدہ کاری والا قازاق کوٹ پہنایا گیا۔ سر پر ٹوپی رکھی گئی اور وہ دلہن کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگے۔ عارف ایوب نے پوچھا کہ اگر یہ شادی واقعی ہو تو کیا شرائط ہوں گی؟ جواب ملا کہ دس گھوڑے اور دس اونٹ لے کر آئو پھر سوچیں گے لہٰذا موصوف نامراد واپس آئے۔ یوسف سے گپ شپ ہوئی۔ میں نے پوچھا ‘چین میں مرد بیک وقت ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے؟ جو اب نفی میں تھا۔ میں نے استفسار کیا کہ بالفرض کوئی مرد دو شادیاں کر لے تو کیا ہو گا ''تو پھر وہ سیدھا جیل جائے گا‘‘ چین میں ریاست تگڑی ہے‘ سٹیٹ رٹ ہر جگہ ہے ۔ ٹریفک کی بتی لال ہو تو تمام گاڑیاں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ پولیس والا موجود ہو یا نہ ہو۔ اور اب ہم Heavenly Kakeجا رہے ہیں۔ یہ جھیل ارمچی سے 45کلو میٹر دور پہاڑوں پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے چھ ہزار فٹ بلند ہے۔ اردگرد پہاڑوں پر اپریل کے آخر میں بھی برف تھی۔ ہمیں کیبل کار میں بٹھا کر یہ خوبصورت پہاڑ دکھائے گئے۔ سردی کی وجہ سے ہمیں دبیز قسم کی صدریاں پہننے کو دی گئیں۔ ہمارا لنچ ایک قازاق خیمے میں تھا جسے Yurt کہتے ہیں۔ یہ گول شکل کا خیمہ اندر سے قالینوں اور خوب صورت کپڑوں سے سجایا جاتا ہے۔ کھانے کی میز فرش سے بس ڈیڑھ فٹ اونچی ہو گی۔ میز کے اردگرد چھوٹے چھوٹے سٹول ہیں۔ سنٹرل ایشیا میں فرش یا قالین پر بیٹھ کر کھانا کھایا جاتا تھا۔ درمیان میں پست قد میز پر کھانا لگتا تھا۔ ہمارے سامنے انواع و اقسام کے کھانے اورنبیذپڑی ہے۔ دو تھال چاولوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ چاولوں کی سطح مرتفع پر دو دنبوں کے روسٹ شدہ سر رکھے ہوئے ہیں اور وہاں کھانے سے پہلے اور بعد ایک لوٹہ اور تولیہ بردار شخص مہمانوں کے ہاتھ دھلاتا ہے۔ دنبے کا روسٹ شدہ سر سب سے پہلے مہمان خصوصی یعنی ایمبیسڈر خالد محمود کو پیش کیا گیا۔
شام کو سنکیانگ کے ڈپٹی گورنر مسٹر Shi Dagangکی طرف سے ڈنر بینکوئٹ تھا۔ ڈنر بینکوئٹ اعلیٰ ترین سرکاری کھانا ہوتا ہے۔ میز پر ہر مہمان کی نشست مقرر ہوتی ہے۔ نام لکھا ہوتا ہے۔ بینکوئٹ سے پہلے تقریباً آدھا گھنٹہ ایک علیحدہ کمرے میں ملاقات ہوئی۔ ہمارا ڈپٹی گورنر سے تعارف کرایا گیا۔ سنکیانگ میں سی پیک کے حوالے سے گرمجوشی پائی جاتی ہے۔ کھانے کے کورس تھے کہ چلتے ہی جا رہے تھے کوئی ایک درجن مختلف کھانے باری باری پیش کئے گئے۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ سوپ سب سے بعد میں آیا۔ ڈپٹی گورنر کھانے کے دوران اٹھ کر ایک ایک مہمان کے پاس گئے اور ہر ایک کی صحت اور سلامتی کے لیے ٹوسٹ تجویز کیا۔ کھانے کے دوران وہ پاک چین دوستی کے بارے میں نیک خواہشات کا اظہار کرتے رہے۔ کہنے لگے۔ کاشغر سے سست تک‘ شاہراہ چوڑی کی جا رہی ہے اور یہ کام دو سال میں مکمل ہو گا۔ دونوں دوست ممالک نزدیک تر آ رہے ہیں۔ سنکیانگ میں پاکستانی سٹوڈنٹ اور تاجر بھی ملے۔ شارع ریشم دوبارہ ہزاروں سال بعد تجارت کے ذریعہ خوشحالی لائے گی۔ سچ پوچھیے تو چین کا یہ دورہ میرے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں