"JDC" (space) message & send to 7575

حنیف عباسی اور ٹونی بلیئر

12اگست جمعتہ المبارک کا دن ہے میں اپنی فیملی کے ساتھ بائی روڈ لاہور جا رہا ہوں۔ موٹر وے پر بھیرہ کی استراحت گاہ پر ہم چائے کے لیے رکتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک جانے پہچانے شخص کے ساتھ ہوٹل کا ایک بیرا تصویر کھینچوا رہا ہے اتنے میں ہمارے ساتھ والی ٹیبل سے ایک صاحب اٹھتے ہیں اور وہ بھی یہی عمل دہراتے ہیں۔ معروف شخص نے گرمی کے دنوں میں بھی سیاہ رنگ کا سوٹ پہنا ہوا ہے۔ میں دماغ پر زور دیتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ یہ صاحب تو ہمارے جڑواں شہر کے لیڈر حنیف عباسی ہیں جنہوں نے میڈیا کی اطلاعات کے مطابق حال ہی میں راولپنڈی کا ایک تھانہ فتح کیا ہے۔ تھانہ فتح کرنے اور تصویر کشی کے درمیان صرف ایک روز کا فرق ہے۔ عباسی صاحب کے چہرے پر عجیب طرح کا احساس تفاخر ہے طاقت کا نشہ ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد میرا سر شرم سے جھک گیا کہ تصویریں بنوانے والے حنیف عباسی کو ہیرو سمجھ رہے تھے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ ہماری قوم ایسے ہی لیڈروں کی حقدار ہے۔
اب میں آپ کو لندن لیے چلتا ہوں جولائی2000ء کی بات ہے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے صاحبزادے ایوان بلیئر نے میٹرک کا امتحان مکمل کیا ہے ان کی عمر سولہ سال ہے۔ اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ امتحان ختم ہونے کی خوشی منائی جا رہی ہے۔ رات گئے لندن پولیس ایوان بلیئر کو زیادہ شراب پینے کی پاداش میں پکڑ کر تھانے لے جاتی ہے۔ لڑکے کو چھڑوانے کے لیے سرکاری مشینری حرکت میں آتی ہے اور نہ ہی ٹین ڈائوننگ سٹریٹ سے کوئی فون آتا ہے۔ ایوان بلیئر کو ہوش آتا ہے تو وہ پولیس والوں کو آئی ایم سوری I am sorryکہتا ہے۔ کوئی کیس درج نہیں ہوتا کیونکہ لڑکا ابھی نابالغ ہے۔ پولیس ایوان کو رہا کر دیتی ہے مگر ایک شرط پر کہ وہ چند روز بعد اپنے والدین میں سے ایک کے ساتھ دوبارہ پولیس سٹیشن میں حاضر ہو گا۔ نہ تھانیدار معطل ہوتا ہے اور نہ ہی لائن حاضر۔ مگر وطن عزیز میں نیو ٹائون راولپنڈی کا تھانیدار اصغر چانڈیو11اگست کو لائن حاضر ہو گیا تھا کیونکہ اس نے مسلم لیگ یوتھ ونگ کے تین لڑکوں کو ون ویلنگ کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ لڑکے حنیف عباسی اور دو سو مسلم لیگیوں کے تھانے پر حملے کے نتیجے میں رہا ہو چکے ہیں۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ریاست کی رٹ نہیں ہے۔
ایس ایچ او اصغر چانڈیو ریاست کی طاقت کا سمبل تھا جسے کان سے پکڑ کر ایک سابق ایم این اے کے کہنے پر لائن حاضر کر دیا گیا اور عباسی صاحب نے میڈیا کو یہ بھی کہا کہ میں پنڈی کے پولیس عہدے داران سے پوچھوں گا کہ خراب ریکارڈ کے حامل شخص کو ایس ایچ او کیوں لگایا ایسی قبیح حرکت صرف پاکستان میں ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں قانون کی بالادستی نہیں ہم جنگل میں رہتے ہیں جہاں جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے بھینس اسی کی ہے۔
اور اب واپس لندن چلتے ہیں عین ممکن تھا کہ ٹونی بلیئر اپنی اہلیہ کو کہہ دیتے کہ وہ بیٹے کے ساتھ پولیس سٹیشن چلی جائیں لیکن وہ خود وہاں گئے۔ کنزرویٹو پارٹی کے کوئی جیالے ان کے ساتھ نہیں تھے۔ ٹونی بلیئر منتخب وزیر اعظم برطانیہ نے ایس ایچ او کوئی تڑھی نہیں لگائی جمہوریت بھی کسی خطرے میں نہیں پڑی۔ پولیس والوں نے قاعدے قانون کے مطابق ایوان کو وارننگ ایشو کی اور والد کے ساتھ روانہ کر دیا وزیر اعظم ٹونی بلیئر پھر بھی میڈیا کی تنقید کا نشانہ بنے۔ میڈیا والوں کا سوال تھا کہ وہ بیٹے کی صحیح تربیت کیوں نہیں کر پائے۔ ٹونی بلیئر میڈیا کو جواب دیتے دیتے اکثر پریشان نظر آئے ایک دن انہیں اقرار کرنا پڑا کہ وزارت عظمیٰ مشکل کام ہے مگر بچوں کی صحیح تربیت دشوار تر ہے۔ تاہم برطانیہ کے نظام اور سوسائٹی کے جاندار ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ اس واقعے کے بعد ایوان بلیئر کے بارے میں کوئی اور منفی خبر نہیں آئی۔
جمہوریت پانچ سال بعد ووٹ ڈالنے تک محدود نہیں ہے یہ جمہوری رویوں کا نام ہے ہمارے ہاں جمہوری رویے یا تو ناپید ہیں تو یا بالکل کمزور۔ ہمارے ہاں سپریم کورٹ وزیر اعظم سے سخت سوال کرے تو ہم ججوں پر چڑھ دوڑتے ہیں1997ء کا یہ روز سیاہ بھی قوم نے مسلم لیگ کے دور حکومت میں دیکھا تھا ہمارے ہاں اگر کسی لاہور کی بیکری کا ملازم شاہی خاندان کو کیک بیچنے سے اس لیے معذرت کر لے کہ صفائی کا وقت ہے تو اس کا جو انجام ہوتا ہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔
2010ء کی بات ہے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد کے ایک نئے سیکٹر کے پارکس سکولوں اور گرین بیلٹ میں رہائشی پلاٹ بنا کر سرکاری افسروں میں تقسیم کر دیے۔ میں اس سیکٹر کا رہائشی ہوں فوراً ڈی جی فیڈرل ہائوسنگ فائونڈیشن طلعت رشید میاں کے پاس گیا جن کی سفارش سے یہ فیصلہ ہوا تھا کہنے لگے کیا کریں سرکاری افسر ریٹائر ہو کر کہاں جائیں ہائوسنگ کی شدید کمی ہے اسلام آباد میں۔ میں نے کہا کہ میاں صاحب اگر برطانیہ کے سول سرونٹ وزیر اعظم سے کہیں کہ لندن میں ہمارے پاس گھر نہیں تو کیا ڈیوڈ کیمرون ہائیڈ پارک کے کسی حصے میں رہائشی پلاٹ بنا دیں گے ''جاوید صاحب ہم لندن میں نہیں رہتے‘‘ میاں صاحب نے جواب دیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ ہم جنگل میں رہتے ہیں۔
اور اب ایک دلچسپ قصہ سُن لیں جس سے اچھا نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔ ریاضیات کے پروفیسر کلاس لے رہے تھے۔ بلیک بورڈ پر انہوں نے ایک سیدھی لکیر کھینچی اور طالب علموں سے پوچھا کہ اس لکیر کو ہاتھ لگائے بغیر چھوٹا کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ایک سٹوڈنٹ بولا ڈسٹر کے ذریعے۔پروفیسر صاحب بولے میں نے کہا کہ ہاتھ بالکل نہیں لگانا جب شاگردوں سے کوئی جواب نہ ملاتو استاد نے بلیک بورڈ پر ایک اور طویل تر لائن بنا دی اور کہا کہ اب پہلی لائن چھوٹی ہو گئی ہے۔ ترکی میں طیب اردوان نے سابقہ حکومتوں سے لمبی لکیر کھینچی ہے۔ دس سال ایمانداری محنت اور ذہانت سے کام کیا ہے اسی ترکی کے لوگ سڑکوں پر آ کر جمہوریت کا دفاع کر رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ پرانی لکیروں کو چھوٹا کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ہمارے ہاں تمام برائیاں گزشتہ حکوموں کے کھاتے میں ڈالی جاتی ہیں کبھی اپنی سپریم کورٹ کوفتح کیا جاتا ہے اور کبھی اپنے تھانوں کو۔ میاں صاحب! ایس ایچ او اصغر چانڈیو ریاست کے اقتدار اعلیٰ کا نمائندہ ہے اگر وہ صحیح معنوں میں قانون نافذ کر رہا ہے تو آپ اس کا ساتھ دیں۔ وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور طیب اردوان سے سبق سیکھیں آپ کی حکومت کی بقا تھانے فتح کرنے میں نہیں لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں