"JDC" (space) message & send to 7575

امریکہ کے صدارتی انتخابات

امریکہ کے صدارتی انتخاب میں چند ہفتے رہ گئے ہیں۔ پہلا انتخابی مباحثہ ہو چکا ہے جو کہ گرما گرم تھا۔ امریکہ کے سروے بتا رہے ہیں کہ ہیلری کلنٹن کا مجموعی تاثر بہت بہتر رہا۔ امریکہ کے صدارتی الیکشن بھی دلچسپ ہیں۔ ہر ووٹر کسی پارٹی کے نمائندہ کو ووٹ دیتا ہے اور پھر وہ نمائندہ صدارتی امیدوار کو ووٹ دیتا ہے لیکن منتخب نمائندہ اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار کو ہی ووٹ دینے کا پابند ہوتا ہے۔
امریکی ووٹر نومبر میں ٹوٹل538نمائندے منتخب کریں گے۔ اس طرح سے ہیلری کلنٹن اور ٹرمپ میں سے جو 270(دو سو ستر) یا زائد ووٹ حاصل کرے گا صدر منتخب ہو جائے گا۔ امریکہ کے صدر کو دنیا کا طاقت ور ترین لیڈر تصور کیا جاتا ہے ۔امریکی ریاستوں میں سے سب سے زیادہ ووٹ کیلی فورنیا میں ہیں اور ٹیکساس دوسرے نمبر پر ہے۔1947ء میں کی گئی دستور میں ترمیم کے مطابق ایک شخص صرف دو ٹرم کے لیے صدر بن سکتا ہے۔ دو سے زیادہ ٹرم وائٹ ہائوس میں گزارنے والے صرف صدر فرینکلن روز ویلٹ تھے۔ چوتھی ٹرم مکمل ہونے سے چند ماہ قبل وہ وفات پا گئے تھے۔ 
امریکہ کے صدور میں سے سب سے زیادہ لطیفے جارج بُش کے بنے۔ موصوف چھٹیاں کرنے کے بڑے شوقین تھے حالانکہ ان کے دور میں افغانستان اور عراق میں جنگ ہو رہی تھی۔ ان کی دوسری ٹرم کے آخر میں کسی منچلے نے اڑا دی کہ وہ تیسری ٹرم کے لیے الیکشن بھی لڑیں گے ۔جب پوچھا گیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ امریکی آئین تیسری ٹرم کی اجازت نہیں دیتا۔ جواب ملا کہ صدر بش کے تمام ورکنگ ڈے جمع کئے جائیں تو ایک ٹرم ہی بنتی ہے۔
اور اب آتے ہیں موجودہ دونوں امیدواروں کی طرف۔ڈونلڈ ٹرمپ بہت امیر آدمی ہیں۔ رئیل اسٹیٹ میں انہوں نے بہت پیسہ بنایا ہے‘ اس وقت ان کے کئی کاسینو اور گالف کلب ہیں ‘وہ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے۔ انہیں کاروبار شروع کرنے کے لیے اپنے والد سے خطیر رقم ملی۔ اس کے برعکس ہیلری ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئیں ‘ان کے والد گھروں کے پردوں کو رنگنے کا کام کرتے تھے اور اس بات کا ذکر ہیلری نے مباحثے کے دوران دو مرتبہ بڑے فخر سے کیا۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں‘ ایک تو امریکن معاشرہ محنتی اور خودساز) (Self Madeلوگوں کی قدر کرتا ہے۔ وہاں پدرم سلطان بود کہنے کا فیشن نہیں۔ دوسرے امریکہ میں ووٹروں کی اکثریت مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ محترمہ انہیں بتا رہی تھیں کہ منتخب ہو کر آپ کے مفادات کا خیال رکھوں گی۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کا فوکس گورے امریکنوں پر زیادہ ہے۔ وہ انہیں باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارے جاب باہر سے آنے والے لوگ لے رہے ہیں ۔ ٹرمپ خاصے منہ پھٹ واقع ہوئے ہیں مسلمانوں کو موصوف نے خواہ مخواہ ناراض کر لیا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال جنوبی امریکہ اور افریقہ سے آنے والے امریکن ووٹر زکی ہے۔ پاکستانی نژاد خضر حیات خان کے ساتھ ٹرمپ کی فقرے بازی انہیں بہت مہنگی پڑی ہے۔ وہ اسلامو فوبیا کا شکار لگتے ہیں۔ خواتین کے ووٹ بھی زیادہ ہیلری کلنٹن کو پڑیں گے۔ میں جس وقت صدارتی امیدواروں کے مابین مباحثہ دیکھ رہا تھا تو مجھے رشک آ رہا تھا کیا یہ ممکن نہیں کہ ہمارے عام انتخابات سے پہلے میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور عمران خان کے ڈیبیٹ ہوں۔ امریکہ میں صدر اوباما کی اخلاقی اور سیاسی سپورٹ ہیلری کو حاصل ہے لیکن موصوف کسی پٹواری تحصیلدار یا تھانیدار کو ''اشار‘‘بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہیلری کو ووٹ دلوانے کا بندوبست کرو۔ یہ ہوتا ہے آزاد اور شفاف الیکشن۔
مباحثے کے دوران ہیلری نے دو مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کو کلین بولڈ کیا۔ الیکشن سے پہلے عام طور پر امریکہ کے صدارتی امیدوار اپنے ٹیکس ریٹرن عوام کو بتا دیتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک اپنے ٹیکس گوشوارے پبلک نہیں کئے۔ امریکہ میں ٹیکس چوری گناہ کبیرہ ہے۔ ٹرمپ نے اپنے دفاع میں کہا کہ میری کمپنیوں کا آڈٹ ہو رہا ہے ‘جونہی آڈٹ مکمل ہو گا ٹیکس کی تفصیل جاری کر دی جائے گی۔ لیکن بات بنی نہیں۔ ٹرمپ کافی عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ صدر اوباما امریکہ میں نہیں بلکہ کینیا میں پیدا ہوئے اور یہ بات غلط ثابت ہو چکی ہے۔ صدر اوباما کے برتھ سرٹیفکیٹ میں ان کی جائے پیدائش ہوائی یعنی امریکہ ہے۔ امریکی ووٹر اس بات کا خاص خیال کرتے ہیں کہ کون جھوٹ بول رہا ہے اور کون سچ۔ ابھی دو مباحثے اور ہونا باقی ہیں لیکن اس وقت ہیلری آگے ہیں ۔ دیکھنے والوں نے اس بات کا بھی منفی نوٹس لیا کہ ٹرمپ پورے مباحثے میں ایک مرتبہ بھی نہیں مسکرائے۔
اور اب دیکھتے ہیں کہ دونوں امیدواروں میں سے پاکستان کے لیے کون اچھا رہے گا۔ ہمیں ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پاک امریکہ گرمجوشی اب قصہ پارینہ ہو چکی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ امریکہ جب تک ممکن ہو دنیا کی نمبر ون پاور رہنا چاہتا ہے ۔امریکہ کی چودھراہٹ کو چین اور روس کی طرف سے چیلنج ہے۔ ان دونوں ممالک کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کے لیے انڈیا سے دوستی ضروری ہے۔ البتہ میں اس بات پر بھی یقین رکھتا ہوں کہ پاکستان اور امریکہ میں اسٹرٹیجک تعاون نہ بھی ہو مگر تعلیم‘ تجارت‘ زراعت اور دیگر شعبوں میں ہم کاری جاری رہنی چاہیے۔ افغانستان میں امن کوششوں کے لیے امریکہ کو پاکستان کی دوبارہ ضرورت پڑ سکتی ہے۔
میرے خیال میں ہیلری کلنٹن پاکستان کے لیے بہتر رہیں گی اور میں یہ بات ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان سے متعلق بیانوں کی روشنی میں کہہ رہا ہوں ۔چند ماہ قبل موصوف نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ دوہری چال چلی ہے ‘میں صدر بنا تو پاکستان کو انڈیا کے ذریعے قابو کروں گا ۔پھر ایک بیان میں کہا پاکستان نے چھ سال تک اسامہ بن لادن کو پناہ دیے رکھی‘ اسے امریکہ سے معافی مانگنی چاہیے۔
ویسے تو ہیلری کلنٹن بھی صدر اوباما کی پالیسی کو جاری رکھیں گی لیکن وہ ٹرمپ کے مقابلے میں خاصی متوازن شخصیت لگتی ہیں ۔ اوباما کے کچھ نفسیاتی مسائل بھی رہے۔ وہ اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش میں رہے کہ انہیں مسلمان سمجھا گیا۔ شروع شروع میں اوباما نے مسلمانوں کی طرف دوستی اور امن کا ہاتھ بڑھایا مگر جلد ہی واپس کھنیچ لیا۔ ہیلری کلنٹن کا ایسا کوئی نفسیاتی مسئلہ نہیں‘ ویسے بھی امریکہ میں رہنے والے پاکستانی زیادہ تر محترمہ کو سپورٹ کر رہے ہیں‘ اس بات کا بھی ان پر مثبت اثر پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں