"JDC" (space) message & send to 7575

لبنان کی صورت حال

شام اور اسرائیل سے ملحق ملک لبنان بے حد خوبصورت ہے۔ مارچ اپریل میں بیروت میں موسم معتدل ہوتا ہے۔ لوگ سمندر کے کنارے دھوپ کے مزے لیتے ہیں اور ایک گھنٹے کی مسافت پر پہاڑوں پر اتنی برف ہوتی ہے کہ دور دراز سے لوگ یہاں برف پر پھسلنے کا شوق پورا کرنے آتے ہیں۔ اتنے مختصر فاصلے پر موسم کا اس قدر تنوع دنیا کے بہت کم ملکوں میں نظر آتا ہے۔ مگر اتنے خوبصورت ملک کی سیاسی صورتِ حال بہت پیچیدہ ہے کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ لبنان میں پچھلے دو سال سے صدر کا عہدہ خالی رہا کسی اُمیدوار پر اتفاق ہی نہیں ہو رہا تھا۔ ابھی پچھلے ہفتے جنرل میشل عون صدر منتخب ہوئے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم تک لبنان سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مظلوم اقلیتیں اور قانون کی گرفت سے خائف مجرم یہاں کے پہاڑوں میں پناہ لیتے تھے۔ لہٰذا مارونی عیسائی، شیعہ اور سُنی مسلمان ‘علوی اور دروز یہاں سب پائے جاتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کو شکست ہوئی تو لبنان فرانس کے کنٹرول میں آ گیا اور یہ صورت حال دوسری جنگ عظیم تک جاری و ساری رہی۔ آج بھی بیروت کی اشرافیہ فرنچ بڑے فخر سے بولتی ہے۔ 1943ء میں یہاں ایک دلچسپ غیر تحریری معاہدہ ہوا جس پر عمل آج تک ہو رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت لبنان کا صدر مارونی عیسائی ہوتا ہے۔واضح رہے کہ وہاں کا صدر با اختیار ہے۔ وزیراعظم سُنی مسلمان ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کا سپیکر شیعہ مسلمان۔ آپ بیروت جائیں تو بہت ماڈرن شہر لگتا ہے۔ بلکہ ایک حد تک مغرب سے مرعوب بھی لیکن مذہب کی بنیاد پر اعلیٰ عہدوں کی بانٹ آج بھی جاری ہے۔
اس سے اہم بات یہ ہے کہ اعلیٰ عہدوں کی مذہب کی بنا پر تقسیم کا معاہدہ فرانسیسی استعمار نے کرایا تھا۔ مارونی عیسائی آبادی کی برتری ظاہر کرنے کے لئے مسلمانوں کو سُنی اور شیعہ دھڑوں میں تقسیم کیا گیا اور یہی حربہ مغربی استعمار نے مڈل ایسٹ کے دوسرے ممالک میں بھی آزمودہ نسخے کے طور پر استعمال کیا ہے، لطف کی بات یہ ہے کہ لبنان میں 1943ء کے بعد مردم شماری نہیں ہوئی۔ پچھلے ستر سال میں یہاں کی عیسائی آبادی سے کافی لوگ شمالی اور جنوبی امریکہ ہجرت کر گئے۔ لبنان کے مارونی عیسائی تعلیم اور تجارت میں پیش پیش ہیں۔ بے حد مثقف یعنی کلچرڈ ہیں۔ مشہور عربی ادیب خلیل جبران کا تعلق بھی لبنان کی عیسائی کمیونٹی سے تھا۔ بیروت بنکاری کا مرکز تھا۔ اور اس کے نائٹ کلب پوری عرب دنیا میں مشہور تھے۔ یہاں کے اخبار پورے عالم عرب میں پڑھے جاتے تھے۔ بیروت کی امریکن یونیورسٹی پوری دنیا میں مسلمہ شہرت رکھتی تھی۔ 1975ء میں سول وار شروع ہوئی تو برسوں تک جاری رہی اس جنگ میں
مارونی کرسچین ایک طرف تھے اور ان کے مقابلے میں شیعہ مسلمان ‘ دروز اور پی ایل او یاسر عرفات کی پی ایل او نے اردن سے بے دخل ہونے کے بعد لبنان میں ڈیرہ جما لیا تھا۔ نان سٹیٹ ایکٹرز کو عام طور پر وہ ملک بڑا سوٹ کرتا ہے جہاں سنٹرل حکومت کمزور ہو ‘تباہ کن خانہ جنگی سالوں تک چلی۔ مذہبی اور مسلکی نفرتیں زور پکڑنے لگیں، اسرائیل نے مارونی قیادت میں اپنے حامی تلاش کر لئے۔ شام سے حافظ الاسد کی فوجیں 1976ء میں لبنان میں داخل ہوگئیں اور پھر تیس سال تک جانے کا نام ہی نہ لیا۔ شام کی حکومت نے1982ء میں یاسر عرفات کو بیروت سے بے دخل کیا اور انہیں تونس میں پناہ لینا پڑی۔ 1989ء میں جنرل میشل عون نے مطالبہ کیا کہ شامی فوجیں لبنان سے نکل جائیں اس نعرے کی پاداش میں انہیں آئندہ پندرہ سال فرانس میں جلا وطنی میں کاٹنا پڑے۔ یہی میشل عون اب لبنان کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔
حزب اللہ لبنان میں بڑی طاقت ہے۔ کہنے کو تو یہ نان سٹیٹ ایکٹر ہے لیکن اس کے منتخب نمائندے پارلیمان میں بھی بیٹھتے ہیں۔ حزب اللہ کو ایرانی حمائت حاصل ہے اور ایرانی عسکری امداد شام سے گزر کر آتی ہے۔ لہٰذا ایران کے لئے شام میں بشار الاسد کی حکومت کی بقاء از بس ضروری ہے۔لیکن ایک اور اہم بات لبنان کے تناظر میں یہ ہے کہ حزب اللہ نے بھی صدارت کے لئے میشل عون کی حمائت کی ہے۔
پورے مڈل ایسٹ میں حزب اللہ کی دھوم تب مچی تھی جب اُس نے لبنان کا مقبوضہ علاقہ اسرائیل کے قبضے سے آزاد کرا لیا تھا۔ مگر یہی حزب اللہ ہے جس کے بارے میں سعد الحریری کو شک ہے کہ وہ اس کے والد سابق وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل میں ملوث تھی۔ سعد الحریری کو چند روز پہلے وزیراعظم کے عہدے کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔ سعد الحریری بشار الاسد کے بھی سخت خلاف ہیں جب ان کے والد 2005ء کے شروع میں قتل ہوئے تو شامی فوج لبنان میں موجود تھی۔ ان کا خیال ہے کہ حزب اللہ نے یہ جرم شامی انٹیلی جنس کی مدد سے کیا۔ حریری فیملی شروع سے سعودی عرب کے قریب رہی ہے وہاں ان کا آج بھی کنسٹرکشن کا کاروبار ہے۔ پچھلے مہینے سعد الحریری لبنان کے سیاسی پرابلم کا حل تلاش کرنے پہلے ریاض اور پھر ماسکو گئے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ وہ واشنگٹن یا پیرس نہیں گئے۔ سعودی عرب تو خیر آج کل اپنی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ مڈل ایسٹ کے کئی ممالک نے پچھلے پانچ سال میں بہت تباہی دیکھی ہے۔ خطے میں روس کا اثر ورسوخ بڑھ رہا ہے۔ عراق اور شام میں امریکی پالیسی ناکام ہوئی۔ امریکہ اس وقت مشرق بعید میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔ اُسے چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی زیادہ فکر ہے۔روس کے ایران اور اسرائیل دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ روس نے میشل عون اور سعد الحریری کو اقتدار دلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہ کردار دراصل سعودی دوست اور ایران دوست قوتوں کی لبنان میں صلح ہے۔ اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ یہ صلح کب تک چلتی ہے۔ 
ماسکو کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نے عسکری اورسٹرٹیجک نوعیت اختیار کر لی ہے۔ ماسکو کا خیال ہے کہ لبنان میں صلح کروانے کے بعد اُس کی علاقائی پوزیشن مضبوط ہو گی۔ لبنان میں سیاسی حل تلاش کرنے کے بعد وہ شام میں بھی حل تلاش کرنے میں پیش پیش ہو گا۔ دوسرے وہ اس پوزیشن میں بھی ہو گا کہ حزب اللہ کو آئندہ اسرائیل کے ساتھ تناؤ سے روکے۔ روس نے لبنان میں مخالف سیاسی قوتوں کو اکٹھا کر کے یقینا بڑی سیاسی کامیابی حاصل کی ہے تو کیا امریکہ کا کردار مشرق وسطیٰ میں ختم ہو گیا یہ کہنا بھی قبل از وقت ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں