"JDC" (space) message & send to 7575

فقط ایک ہی توحید احمد

چند روز پہلے مجھے اپنے بہت ہی اچھے دوست توحید احمد کے اچانک انتقال کی المناک خبر ملی تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ میں نے جنازے میں شرکت کے لیے لاہور روانگی کا فوراً قصد کیا۔ لاہور میں ڈیفنس کی مسجد میرے اور توحید کے کئی مشترکہ دوستوں سے بھری پڑی تھی۔ شرافت کا مجسمہ توحید احمد ایک بہت بڑا سکالر، ایک سمجھدار سفارت کار، اعلیٰ پائے کا مترجم اور بہت ہی مخلص دوست بھی تھا۔ مجھے جب بھی کالم لکھتے ہوئے کوئی پرابلم آتا تو میں فوراً توحید کو فون کرتا اور وہ منٹوں میں گتھی کو سلجھا دیتا۔ ہماری آخری بات اس کی وفات سے چند روز پہلے ہوئی۔
توحید کی پیدائش 1947ء میں لاہور میں ہوئی۔ وہ مجھ سے ایک سال چھوٹا تھا لیکن اس کے سفید بالوں اور آراء کے صائب ہونے کی وجہ سے میں نے اسے ہمیشہ توحید صاحب کر کے مخاطب کیا۔ اٹھان انگریزی سکولوں سے ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا تو نہ صرف فرسٹ ڈویژن لی بلکہ پوری یونیورسٹی میں اوّل آیا۔ بعد میں اردو اور فارسی پر خوب دسترس حاصل کی اور دو کتابوں کے اردو ترجمے کیے۔ اقبال کے اس شیدائی کو شاعر مشرق کی طرح تمباکو نوشی کا شوق تھا۔ منہ میں اکثر پائپ ہوتا تھا۔ پائپ کے کش لگاتا ہوا یہ ہینڈسم شخص دیکھنے میں انگریز لگتا تھا، لیکن اُسے اپنے دیسی ہونے پر فخر تھا۔ اپنی زمین، اپنے ادب اور آرٹ سے اُسے بے پناہ محبت تھی۔
توحید نے اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔ ایم اے کا امتحان شاندار طریقے سے پاس کیا تو فوراً ہی پاکستان ٹائمز میں جاب مل گیا۔ پاکستان ٹائمز اس زمانے کا ٹاپ کا انگریزی اخبار تھا۔ یہ 1968ء کی بات ہے، اخبار میں دو تین سال لگا کر اس نوجوان صحافی نے دو کام سیکھے۔۔۔۔ ایک روانگی سے انگریزی ٹائپ اور دوسرے عوامی رابطے۔ پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر ان دنوں زیڈ اے سلہری تھے۔ 1970ء میں توحید نے مقابلے کا امتحان دیا اور فارن سروس کے لیے سیلیکٹ ہوا۔ سول اور فارن سروس ان دنوں ٹاپ پر ہوتی تھیں اور ہر امیدوار کی خواہش ہوتی تھی کہ اسے ان دو سروسز میں سے کوئی مل جائے۔ بہرحال توحید جیسے لائق فائق آدمی کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
بظاہر خاموش نظر آنے والے اس شخص میں بے پناہ گہرائی تھی اور غضب کی حسِ مزاح۔ 1974ء کی بات ہے، میں قاہرہ میں عربی سیکھ رہا تھا۔ توحید نے پیرس سے فرنچ سیکھی تھی اور اُس کی پوسٹنگ تیونس میں تھی۔ خبر ملی کہ توحید صاحب پاکستان شادی کرانے گئے ہیں۔ پھر اطلاع ملی کہ واپسی کا سفر براستہ قاہرہ ہو گا۔ وہ قاہرہ آئے تو اکیلے تھے۔ میں نے پوچھا کہ بیگم کہاں ہیں؟ جواب ملا کہ شادی کی غرض سے پاکستان گیا ضرورتھا لیکن شادی سے بچ نکلا ہوں۔ میں نے استفسار کیا کہ بچنے کی سبیل کیا بنی؟ توحید نے جواب دیا کہ دراصل پاکستان میں چینی بہت مہنگی ہو گئی تھی۔ مذاق مذاق میں طرح دینے کی اس کی یہ عادت بہت خوبصورت تھی۔
توحید کا ایقان تھا کہ ہمیں بیرونی دنیا کو پاکستان کی ثقافت سے روشناس کراناچاہیے۔ جب پوسٹنگ برسلز میں تھی تو یورپ میں اقبال لائبریری قائم کرنے کی کوشش کی۔ یہ تجویز گو کہ سُرخ فیتے کی نظر ہو گئی لیکن بہرحال آئیڈیا بہت اچھا تھا۔ اگر ایسی تجویز پر عمل ہو جاتا تو آج پاکستان کی شناخت صرف دہشت گردی نہ ہوتی۔
1994ء میں میری پوسٹنگ دوشنبے میں ہوئی۔ ان دنوں میں اور توحید دونوں اسلام آباد میں پوسٹڈ تھے۔ ہم اتوار کے روز صبح سویرے لمبی واک کرتے، ورزش کی ورزش اور ساتھ ساتھ توحید کی دلچسپ علمی باتیں۔ ہماری لمبی گفتگو ہوتی۔ واک کے بعد ہم آبپارہ میں لاہوری بادشاہ کے ہاں نہاری کا ناشتہ کرتے۔ توحید نے مشورہ دیا کہ دوشنبے جانے سے پہلے اقبال اکیڈمی لاہور کا چکر لگائو، تمام اقبال شناسوں سے ملو، تاجکستان میں ہر سال نومبر میں یوم اقبال منایا کرنا۔ توحید کو یقین تھا کہ اقبال کے افکار پاکستان اور بیرونی دنیا کے درمیان ایک مضبوط پُل کا کام دے سکتے ہیں۔ اگلا مرحلہ ایسے اقبال شناسوں کی تلاش تھی جو فارسی بھی بول سکتے ہوں۔ توحید صاحب کی وجہ سے یہ مرحلہ بھی آسان ہو گیا۔ توحید علم دوست انسان تھا۔ لکھاریوں اور فن کاروں سے اسے پناہ محبت تھی۔ احمد فراز مرحوم سے میری دو ملاقاتیں فارن آفس میں توحید کے دفتر میں ہوئیں۔ اداس نسلوں کے خالق عبداللہ حسین سے ملاقات توحید کے ذریعے ہوئی۔ معروف خطاط رشید بٹ سے شناسائی کی وجہ بھی توحید صاحب بنے۔
دوشنبے، اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں۔ میری فیملی پاکستان میں تھی اور میں یہاں آتا رہتا تھا۔ فارن آفس جاتا تو میرا پڑائو توحید کے دفتر میں ہوتا۔ وہ ان دنوں ڈی جی تھے۔ تاجکستان میں اسلامی سوچ کی جماعتوں اور سیکولر حکومت کے درمیان سول وار ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھی۔ ایک دن اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی، توحید صاحب نے کہا کہ میں سماجی مسلمان ہوں، سیاسی مسلمان نہیں۔ میں نے وضاحت پر اصرار کیا تو کہنے لگے کہ میں ملائیت کے خلاف ہوں اور مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر بھی ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے خیالات شاعر مشرق سے بہت قریب تھے۔
توحید کو نت نئے منصوبے بنانے کا شوق بے قرار رکھتا تھا۔ میں دو شنبے میں تھا تو تجویز دی کہ سنٹرل ایشیا سے پاکستان کے پرائیویٹ سکولوں کے لیے پیانو انسٹرکٹر بھیجو، جو بچوں کو موسیقی کی تربیت دیں۔ انہیں شاعری اور موسیقی سے عشق تھا۔ کوئی دو ماہ ہوئے، میں توحید صاحب سے فیض احمد فیض کی بات کر رہا تھا۔ کہنے لگے، فیض عظیم پاکستانی شاعر ہے جسے انڈیا والے لے اڑے ہیں۔
توحید کے پاس کمپیوٹر کے بارے میں بے شمار معلومات تھیں۔ اس موضوع پر اردو میں ایک کتابچہ بھی لکھا۔ توحید نے امریکہ کے شہر سان فرانسسکو کے قریب سیلیکون ویلی میں پاکستان کا انفرمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق قونصلیٹ جنرل قائم کیا۔ یہ منصوبہ دو پاکستانی وزارتوں کی باہمی مسابقت کی نذر ہو گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا دلچسپ تجربہ تھا، توحید کو یقین تھا کہ سیلیکون ویلی سے بڑا بزنس پاکستان کو آئوٹ سورس کیا جا سکتا ہے، لیکن اسلام آباد کے بابوئوں نے یہ تجربہ کامیاب نہیں ہونے دیا۔
توحید 2007ء میں آئر لینڈ سے بطور سفیر ریٹائر ہوئے تو پنجاب پبلک سروس کمشن نے ان کی خدمات حاصل کر لیں۔ گجرات یونیورسٹی کے شعبۂ ترجمہ کے قیام میں کلیدی رول ادا کیا۔ نیشنل کالج آف آرٹس میں انگریزی پڑھاتے رہے۔ سی ایس ایس کے امیدواروں کی کوچنگ کے لیے ادارہ بنانے کا سوچا مگر بوجوہ یہ منصوبہ تکمیل تک نہیں پہنچا۔ میں اکثر توحید کو چھیڑتا کہ آپ نے ناکام منصوبے کافی بنائے ہیں تو وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ؓ کا قول دہراتے: ''میں نے اپنے رب کو ارادوں کی ناکامی کے ذریعے پہچانا‘‘۔
توحید صاحب کی آخری کتاب ''ثنائے حماقت‘‘ ہے جو سولہویں صدی میں یورپ میں لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب The Praise of folly کا ترجمہ ہے۔ دیباچہ سے توحید احمد کے چند جملے پڑھیے: ''اپنے اردگرد نظر دوڑائیے، منافقت کی دھول ہر چہرے پر پڑی ہے۔ بے قابو دوغلے پن نے ہر دل پر قفل چڑھا دیا ہے۔ تکبر اور رعونت نے آنکھوں پر پردے تان رکھے ہیں۔ ہوس زر نے ظلم و ستم کا طوفان برپا کررکھا ہے۔ ہر دل مریض ہے۔ دین کے ٹھیکیدار کہیں تو نہتے مسلمانوں پر آگ برسا رہے ہیں تو کہیں اذہان کو مقید رکھنے کے نصاب پروان چڑھا رہے ہیں‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ توحید احمد جیسی عالی دماغ اور متعدد پرتوں والی شخصیت کو ایک کالم میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی کئی پہلو تشنۂ تحریر ہیں۔ ہمارا دوست تو نہیں رہا، لیکن قارئین سے صحبت باقی ہے۔ مزید پھر کبھی سہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں