"JDC" (space) message & send to 7575

ٹرمپ‘ پوٹن اور ایران

ٹرمپ پوٹن اور ایران‘ یہ ایک انتہائی دلچسپ مثلث بن رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے فلموں اور ڈراموں میں بنتی ہے۔ صدر اوباما کا دور روس امریکہ تعلقات میں سرد مہری کا زمانہ تھا۔ یوکرائن کے معاملے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ امریکہ افغانستان اور عراق میں مہم جوئی کے بعد تھکا تھکا لگ رہا تھا۔ لیبیا میں امریکہ کا موقف تھا کہ ہم یورپی ممالک کی افواج کی فضا سے مدد کریں گے‘ زمینی فوج لیبیا میں نہیں لائیں گے۔ اسی طرح شام میں امریکی پالیسی تذبذب کا شکار نظر آئی۔ روس نے امریکی پوزیشن سے خوب فائدہ اٹھایا اور داعش کی آڑ لے کر صدر بشارالاسد کی پوری مدد کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران کہہ دیا تھا کہ وہ روس کے لیڈر پوٹن کے متعلق اچھے جذبات رکھتے ہیں‘ اور وہ منتخب ہونے کے بعد امریکہ اور روس کے تعلقات بہتر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ادھر صدر پوٹن بھی یہی چاہتے ہیں۔
لیکن بین الاقوامی معاملات صرف لیڈروں کی خواہشات پر نہیں چلتے۔ دیگر عوامل ان خواہشات میں حائل ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ٹرمپ نے ایران سے متعلق صدر اوباما کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے۔ صدر اوباما اور دیگر مغربی طاقتوں کا خیال تھا کہ ایٹمی معاہدے پر عمل پیرا ہو کر وہ ایران کی مہلک ہتھیار بنانے کی صلاحیت تقریباً ختم کر دیں گے۔ یاد رہے کہ اصل مقصد یہ تھا کہ مڈل ایسٹ میں نیوکلیئر ہتھیاروں پر اسرائیل کی مناپلی Monopoly قائم رہے۔
روس اور ایران کے تعلقات اچھے ہیں۔ شام میں دونوں صدر بشارالاسد کے نہ صرف حلیف ہیں بلکہ شامی حکومت کے دفاع کے لیے لڑ بھی رہے ہیں۔ صدر پوٹن نے واضح اشارے دیے ہیں کہ وہ امریکہ کی موجودہ ایران مخالف پالیسی کو پسند نہیں کرتے۔ صدر ٹرمپ کے حال ہی میں مستعفی ہونے والے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مائیکل فلین Michael flynn نے چند روز پہلے کہا تھا کہ ایران کا 29 جنوری کا میزائل تجربہ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2231 کی خلاف ورزی ہے۔ یہ قرارداد ایران کو ایسے میزائل ٹیسٹ سے روکتی ہے جس میں ٹیسٹ کیا جانے والا میزائل ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ فلین نے کہا کہ ہم ایران کو وارننگ دے رہے ہیں۔ انہوں نے ساتھ ہی کچھ محدود پابندیوں کا اعلان کر دیا‘ اور ساتھ مزید ممکنہ پابندیوں کی طرف اشارہ بھی کر دیا؛ البتہ ان ممکنہ پابندیوں کی وضاحت نہیں کی۔ دوسری جانب روسی مبصرین کا موقف تھا کہ ایران کا میزائل تجربہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی مخالفت نہیں‘ اور یہ کہ اس بارے میں کوئی حتمی رائے دینا صرف سکیورٹی کونسل کے دائرہ اختیار میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ امریکہ سے درخواست تھی کہ آپ رائے زنی سے پرہیز کریں‘ اور ساتھ ہی یہ اشارہ بھی تھا کہ معاملہ سکیورٹی کونسل کے پاس آیا‘ تو ہم سنبھال لیں گے کیونکہ روس کے پاس
بھی ویٹو پاور ہے۔ ان بیانات سے ایک چیز واضح ہے کہ صدر پوٹن امریکہ کی ایران مخالف کوششوں کا حصہ نہیں بنیں گے۔
صدر ٹرمپ ایران کو دنیا کی نمبر ون دہشت گرد ریاست سمجھتے ہیں۔ روس امریکہ کی اس رائے سے متفق نہیں۔ صدر پوٹن کے ترجمان دیمتری پیسکوف Demitry Peskov نے کہا ہے کہ روس ایران کو دہشت گرد ریاست نہیں سمجھتا اور ایران کے ساتھ تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ روس کے وزیرِ خارجہ سرگی لاروف sergei laurof کا کہنا ہے کہ ایران نے داعش کے خلاف قابل قدر رول ادا کیا ہے اور یہ کہ ایران کو دہشت گردی کے خلاف صف آرا ملکوں کی صف میں موجود رہنا چاہیے۔
معروف امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل کی پانچ فروری کی اشاعت میں لکھا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ روس اور ایران کے باہمی تعلقات میں دراڑ ڈالنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی پیش گوئی کر دی کہ امریکی صدر اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔
لیکن غور سے دیکھا جائے تو بین السطور روسی لہجے میں امریکہ کے خلاف کوئی خاص تندی ترشی نظر نہیں آتی۔ روسی معتدل زبان استعمال کر رہے ہیں۔ ایک عرصے کے بعد امریکہ نے روس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ صدر اوباما داعش اور روس دونوں کے مخالف تھے جبکہ ٹرمپ کا خیال ہے کہ اس وقت امریکہ کو سب سے بڑا خطرہ داعش سے ہے‘ اس لیے روس کو ساتھ ملانا ضروری ہے‘ لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ کو بھی روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات پر تشویش ہے۔ ایک سابق برطانوی سیکرٹ ایجنٹ کرسٹوفر سٹیل‘ جو ماسکو میں رہتا رہا ہے‘ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ماسکو آتے جاتے رہے ہیں اور ان کا دل پھینک ہونا سب کے علم میں ہے۔ روسی حکومت کے پاس ٹرمپ کی ایسی تصاویر موجود ہیں‘ جن سے امریکی صدر کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے۔ روس‘ امریکہ اور ایران‘ دونوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتا ہے۔ اسی لیے روسی لیڈروں نے ایران سے متعلق امریکی بیانات کی کھل کر مذمت نہیں کی صرف اتنا کہا کہ ہمیں ایران پر امریکہ کی نئی پابندیوں پر افسوس ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ایران کے ساتھ عالمی ایٹمی معاہدہ ٹوٹا نہیں‘ یہ ابھی تک قائم ہے اور جو چیز ٹوٹی ہی نہ ہو اس کی تشکیل نو کی بات کرنا غلط ہے۔
ابھی حال ہی میں شام میں امن کے حصول کے لیے آستانہ میں انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس میں روس ایران اور ترکی پیش پیش تھے۔ امریکہ کو آستانہ کانفرنس سے باہر رکھا گیا۔ ظاہر ہے اس طرح امریکہ کی سفارتی سبکی ہوئی۔ روس نے وضاحت دینا ضروری سمجھی کہ ماسکو نے امریکی شرکت کی مخالفت نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ مخالفت ایران کی طرف سے کی گئی جو ٹرمپ کے بدلے ہوئے لہجے سے نالاں تھا۔
امریکہ اور ایران کے درمیان چپقلش سے صدر پوٹن کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ روس امریکہ اور ایران‘ دونوں کے جذبات ٹھنڈے کرنے کی کوشش میں مصروف ہے؛ البتہ اس بات کا فی الحال امکان نہیں کہ روس دونوں کے مابین ثالث کا کردار ادا کرے۔ روس کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ جب تک امریکہ اور ایران ہمیں نہ کہیں ہم ثالثی کرنے سے قاصر ہیں۔
ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکہ سے دوستی روس کو ایران کے زیادہ قریب آنے سے روکے گی‘ لیکن فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ شام میں روس ایران تعاون جاری رہے گا۔ ایران اور امریکہ کی مخاصمت پوٹن کی چوہدراہٹ کو تقویت دے گی۔ دوسری طرف امریکہ روس سے دوستی کے شوق میں یوکرائن میں روسی پالیسی سے اغماض کرے گا۔ اسی طرح ایران ماسکو کو حلیف رکھنے کے لیے روس کی اسرائیل اور کردوں سے دوستی کو نظرانداز کرے گا۔ روس کے خلیجی ممالک سے روابط بھی قائم رہیں گے۔ بین الاقوامی تعلقات کو ترتیب دینے والے فیکٹر دلچسپ بھی ہیں اور بے رحم بھی۔ اب آگے آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں