"JDC" (space) message & send to 7575

آج کا امریکہ… چند مشاہدات (2)

مجھے امریکہ آئے ہوئے کئی روز ہو چکے ہیں۔ ورجینیا کے علاوہ میں جنوبی اِلّی نوائے Illinois اور پنسلوانیا کا چکر لگا آیا ہوں۔ ہر جگہ پاکستانی‘ انڈین اور خالص امریکیوں سے بات ہوئی۔ امریکی معاشرے کے اپنے مخصوص مسائل ہیں۔ انفرادیت بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ عام امریکی قریبی رشتے داروں سے زیادہ اپنے پالتو جانور کا خیال رکھتا ہے۔ کتا بیمار ہو جائے تو مالک کے چہرے پر پریشانی دیدنی ہوتی ہے۔ ڈرگز یعنی منشیات کا استعمال مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اکیلے والدین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ طلاق کی شرح میں اضافہ ہے‘ اور دوسرا سبب یہ کہ بغیر شادی کے بچے پیدا کرنا یہاں اب گناہ نہیں رہا۔ ہتھیار عام ہونے کی وجہ سے کچھ شہروں میں جرائم کی شرح خاصی بلند ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد امریکی سوسائٹی منقسم نظر آتی ہے۔ نئے امریکن پریشانی میں مبتلا لگتے ہیں۔
امریکی سرکاری اور پرائیویٹ ادارے شماریات میں خاصے ترقی یافتہ ہیں۔ مختلف چیزوں کی گنتی کرتے رہنا یہاں کا معمول ہے۔ اہم اور دلچسپ معلومات اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔ یہاں غیر طبعی اموات کے تین بڑے اسباب ہیں۔ پہلا سبب ہتھیاروں کے استعمال سے قتل اور خودکشی ہے۔ دوسرا روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اموات ہیں‘ اور تیسری وجہ منشیات کا زیادہ مقدار میں استعمال ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ اموات منشیات کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ مشاہدہ ہے کہ نسبتاً غریب علاقوں میں منشیات کا استعمال زیادہ ہے کہ وہاں غمِ دوراں اور زندگی کے تلخ حقائق کو بھولنے کی خواہش زیادہ ہوتی ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ 1960ء کی دہائی میں ہپی Hippie تحریک امریکہ کے شہر سان فرانسسکو سے شروع ہوئی تھی۔ یہ لوگ کم سے کم کپڑوں میں گزارہ کرتے تھے۔ حشیش‘ جسے امریکہ میں Marijuana کہا جاتا ہے‘ پی کر نروان حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ لوگ اکثر نوجوان جوڑوں کی شکل میں امریکہ اور یورپ سے نکلتے تھے اور پاکستان یا انڈیا کے راستے نیپال جاتے تھے۔ انڈیا میں ان دنوں ہرے رام ہرے کرشنا موومنٹ زوروں پر تھی۔ میرا قیام 1970ء میں لاہور کی وائی ایم سی اے میں تھا‘ جو مال روڈ پر بینک سکوائر کے پاس واقع ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہپی لوگ اکثر وہاں قیام کرتے تھے کہ کرایہ نہایت ہی مناسب تھا۔ اب اس وقت پریشان کن امر یہ ہے کہ حشیش یا چرس کی بجائے امریکہ میں ہیروئن اور دوسری خطرناک منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ منشیات کے استعمال کی وجہ سے شکاگو اور دیگر کچھ شہروں میں جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے‘ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ 1991ء کے بعد امریکہ کے دوسرے شہروں مثلاً نیویارک میں جرائم میں کمی آئی ہے۔ امریکن سوسائٹی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے مسائل کے حل کی تلاش میں ہر وقت لگے رہتے ہیں۔
ہتھیاروں کا استعمال امریکن سوسائٹی کا خاصہ رہا ہے۔ مغربی اور جنوبی ریاستیں ہتھیاروں کی مدد سے فتح کی گئیں۔ ریڈ انڈین‘ جو امریکہ کے قدیم قبائل تھے‘ کو ہتھیاروں کی مدد سے زیر کیا گیا۔ آپ نے کائوبوائے (Cow boy) فلمیں یقیناً دیکھی ہوں گی۔ یہ فلمیں امریکن سوسائٹی کے ہتھیاروں سے رومانٹک لگائو کا مظہر تھیں۔ ابراہم لنکن سے لے کر جان کینیڈی تک چار صدر دورانِ اقتدار قتل ہوئے۔ صدر رونلڈ ریگن پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر پچھلے سال جون میں انتخابی مہم کے دوران حملہ ہوا تھا۔ 2013ء میں گیارہ ہزار امریکی شہری ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے لقمہء اجل بنے اور ان میں بڑی تعداد خود کشی کے واقعات کی تھی‘ لیکن یہاں میں یہ وضاحت بھی کرتا چلوں کہ بادی النظر میں یہ خاصا پرامن اور شانت معاشرہ لگتا ہے۔ مثلاً میں نے یہاں کسی سکول کے گرد خاردار تار نہیں دیکھے۔ کسی بینک کے باہر بندوق بردار سکیورٹی گارڈ نہیں دیکھا۔ البتہ اکثر متمول لوگوں نے گھروں میں سکیورٹی الارم سسٹم ضرور لگوائے ہوئے ہیں‘ لیکن عمومی طور پر یہاں کی سڑکیں اور گھر محفوظ ہیں اور اس کی بڑی وجہ مستعد پولیس ہے جو مکمل طور پر غیر سیاسی ہے۔
امریکہ میں اس وقت سنگل والدین کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کو صرف والد یا ماں‘ پال رہے ہیں۔ سنگل والدین میں سے اسی فیصد مائیں ہیں۔ سنگل مدر خاندان اس وقت ٹول امریکن فیملیز کا پچیس فیصد یعنی ایک چوتھائی ہیں۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ غریب طبقے میں سنگل مدرز کی تعداد زیادہ ہے اور ان کے ہاں بچوں کی شرح پیدائش بھی زیادہ ہے۔ ان مائوں کے لئے بچوں کو پالنے کے لئے جاب کرنا ازبس ضروری ہوتا ہے۔ صرف پبلک ایڈ یا سرکاری امداد سے بچے نہیں پالے جا سکتے۔ اب ماں ہمہ وقت کام کرتی ہے۔ علیحدہ رہنے والا والد ویک اینڈ پر بچوں اور ان کی ماں‘ جسے وہ گرل فرینڈ کہتا ہے‘ سے ملنے آتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بچوں کی شخصیت‘ ان کی اقدار اور تعلیم و تربیت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ میں جنوبی اِلی نوائے میں چار روز اپنی بہن کے پاس رہا۔ اُن کے میاں وہاں کے معروف آئی سرجن ہیں۔ یہ علاقہ ورجینیا کے مقابلے میں غریب ہے۔ میں اپنی سسٹر کے گھر پانچ دفعہ گیا ہوں۔ ہر دفعہ امریکہ آ کر سینٹ لوئس کے راستے کاربن ڈیل جانا لازمی ہوتا ہے۔ اُن کے گھر کام کرنے والی مستقل میڈ اس دفعہ غائب تھی۔ اس کی جگہ ایک اور خاتون گھر کا کام کر رہی تھی۔ پہلے والی میڈ‘ جس کا نام ویرا ہے‘ کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ اس کی تیس سالہ بیٹی کینسر کے مرض میں مبتلا ہے۔ بیٹی نے شادی نہیں کی مگر اس کے چار بچے ہیں اور ویرا آج کل نواسوں کی پرورش اور بیٹی کے مرض کی وجہ سے بے حد مصروف ہے۔
میرے بہنوئی کو امریکہ میں پنتالیس سال ہو چکے ہیں۔ کہنے لگے کہ شروع میں بغیر شادی کے ماں یا باپ بننا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اب اس میں کوئی عار نہیں۔ کئی جوڑے اس وجہ سے شادی نہیں کرتے کہ میاں بیوی کی انکم اکٹھی ہو گی تو ٹیکس بریکٹ میں آ جائے گی‘ لہٰذا علیحدہ رہنا زیادہ بہتر ہے لیکن اس صورتحال کے امریکی معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس علاقے میں منشیات کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے اور سنگل مدرز کے بچے بے راہ روی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
میری بہو‘ جو کئی سال سے سکول میں پڑھا رہی ہے‘ کا کہنا ہے کہ امریکن سوسائٹی میں سنگل والدین کے مسئلے کے علاج ایک حد تک نکال لئے گئے ہیں۔ طلاق کی صورت میں بچے باری باری دونوں والدین کے پاس رہتے ہیں اور والدین ایک دوسرے کے خلاف بچوں کے کان نہیں بھرتے اور اگر وہ ایسی حرکت کریں تو ہر سکول میں متعین سائیکالوجسٹ یعنی ماہر نفسیات والدین کو بلا لیتا ہے۔
امریکہ کی شاندار ترقی میں امیگرنٹ یعنی نئے امریکنوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایٹم بم سے لے کر ایل ای ڈی بلب تک باہر سے آنے والے لوگوں کی بے شمار ایجادات ہیں۔ دنیا بھر سے بے شمار ڈاکٹر‘ انجینئر‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر امریکہ میں عشروں سے کام کر رہے ہیں۔ ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی یعنی کالے یرقان کے مکمل علاج کی دوائیاں یہاں ایجاد ہوئیں۔ سائنسی ریسرچ میں امریکہ سب سے آگے ہے۔ چینی‘ انڈین‘ پاکستانی‘ مصری اور دیگر ملکوں سے لوگ آ کر یہاں ترقی میں چار چاند لگا رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں روایتی گوروں کا ایک حصہ اپنی تساہل پسندی کی وجہ سے پیچھے رہ گیا ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے مسائل باہر سے آنے والے امیگرنٹ کی وجہ سے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اسی طبقے نے ووٹ دیے ہیں۔ تنوع امریکی معاشرے کی طاقت ہے۔ یہ لوگ تنوع یعنی Pluralism کے آگے پل باندھ رہے ہیں۔ شکوک اور نفرتیں پچھلے ایک سال میں بڑھی ہیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں