"JDC" (space) message & send to 7575

جوش نہیں ہوش…

صدر ٹرمپ کے افغانستان کے بارے میں پالیسی بیان پر پاکستان کا ردعمل قابل فہم تھا۔ پاکستان کئی سال کی ''ڈو مور‘‘ کی امریکن رٹ سے اکتا چکا تھا۔ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانی اور مالی قربانیاں بہت زیادہ ہیں۔ صدر ٹرمپ کی تقریر میں ان قربانیوں کا سرسری ذکر تھا۔ زیادہ بات اُن بیس کالعدم تنظیموں کی تھی جو امریکی صدر کے بقول ہمارے خطے میں اب بھی فعال ہیں اور جن کی وجہ سے ہمارے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہاتھوں میں جا کر دنیا کے امن کو نقصان پہنچا سکتے ہیں‘ پھر یہ بھی کہا گیا کہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دے رہے ہیں مگر حقائق اس سے مختلف ہیں۔ لیکن اصل وارننگ جو پاکستان کو دی گئی وہ یہ تھی کہ ہم ان عناصر کی مدد مکمل طور پر بند کریں جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ جنرل نکلسن نے اسی ضمن میں پشاور اور کوئٹہ شوریٰ کا ذکر کیا۔ صدر ٹرمپ نے تنبیہ کی کہ پاکستان تہذیب‘ نظم اور امن کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کو آشکار کرے ورنہ!!
بظاہر یہی لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن‘ سویلین لیڈر اور فوج امریکہ کے تازہ ترین بیان کے بارے میں ایک ہی صفحے پر ہیں۔ لیکن اگر بیانات کو غور سے بین السطور پڑھیں تو کچھ فرق بھی نظر آتا ہے‘ مثلاً قومی اسمبلی کی سفارشات میں شامل ہے کہ دو طرفہ دورے ملتوی کرنے پر غور کیا جائے۔ مزید برآں پاکستان کے بری اور فضائی راستے‘ جو امریکی اور نیٹو افواج کے لئے سپلائی کا ذریعہ ہیں‘ بند کرنے کا بھی حکومت سوچے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ہمیں امریکی امداد کی نہیں اعتماد کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی کے بیان کے مقابلے میں آرمی چیف کا آفیشل ردعمل زیادہ متوازن ہے کہ یہاں تعلقات توڑنے یا معطل کرنے کی بات نہیں کی گئی بلکہ دوطرفہ تعاون میں ترمیم اور تجدید کی دعوت دی گئی ہے۔ 
ظاہر ہے کہ امریکہ اور پاکستان میں برابری کا رشتہ نہ کبھی تھا اور نہ اب ہے۔ اس بندھن میں امریکہ سینئر پارٹنر تھا اور رہے گا۔ امریکہ اب بھی دنیا کی نمبر ون اکانومی ہے۔ امریکہ کا دفاعی بجٹ اس قدر زیادہ ہے کہ پوری دنیا کے عسکری اخراجات اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تعلیم‘ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایجادات اور ریسرچ میں امریکہ بہت آگے ہے۔ عام خیال ہے کہ اگر براعظم امریکہ دریافت نہ ہوتا تو آج کی دنیا سائنسی اعتبار سے ایک دو صدیاں پیچھے ہوتی۔
صدر ٹرمپ کی تقریر کے فوراً بعد سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یعنی وزارت خارجہ کو خیال آیا کہ پاکستان کا ردعمل شدید ہے‘ اس کی کچھ تشقی کی جائے؛ چنانچہ پہلا بیان وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا آیا‘ جس میں ٹرمپ صاحب کی تقریر کو کچھ بہتر معانی پہنانے کی کوشش کی گئی‘ اور پھر کہا گیا کہ اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز دوبارہ پاکستان کا دورہ کریں گی۔ پاکستان نے امریکی سفارت کار کے استقبال سے معذرت کر لی۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کو امریکہ کے دورے کی دعوت تقریر سے پہلے مل چکی تھی۔ ان کی طرف سے بھی کہا گیا کہ وہ فی الحال نہیں آ سکتے۔ اب وہ چین اور روس پہلے وزٹ کریں گے اور پھر امریکہ جائیں گے۔ ایک طرف ہماری قومی اسمبلی یہ سفارش دے رہی ہے کہ امریکہ کے ساتھ روابط معطل کئے جائیں‘ دوسری جانب ہمارے وزیر خارجہ سپر پاور کا دورہ کرنے جا رہے ہیں تو ہماری پالیسی میں جذباتیت اور کنفیوژن دونوں نظر آ رہی ہیں۔ اگر میں وزارت خارجہ میں آج ہوتا تو ایلس ویلز کو معذرت کرتے وقت کہتا کہ امریکی صدر کے الزامات سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔ ہم تمام معاملات کو بہت غور سے دیکھ رہے ہیں۔ بات چیت سینئر لیول پر ہونی چاہیے تاکہ نتیجہ خیز ہو سکے۔
معید یوسف پاک امریکہ تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ واشنگٹن سے پاکستانی ٹی وی چینلز پر تبصرہ کرتے رہتے ہیں۔ موصوف کا کہنا تھا کہ خطرہ اس بات کا ہے کہ امریکی اور پاکستانی لیڈر جذبات میں تُو تُو میں میں کرتے حالات کو زیادہ بگاڑ کی طرف نہ لے جائیں۔لہٰذا معاملہ محتاط ہو کر چلنے کا ہے جذبات کی رو میں بہنا عقلمندی نہیں۔ ہمیں اس امر کا بغور مطالعہ کرنا ہو گا کہ اگر ہم امریکہ کے خدشات دور نہ کر سکے تو ہمارے خلاف کیا کیا ایکشن لئے جا سکتے ہیں۔ امریکہ کو کوئٹہ اور پشاور کے شہروں میں افغان طالبان کی موجودگی کا یقین ہے۔ اس لیے پہلا قدم تو ہمارا افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے موثر کوشش ہونا چاہیے۔ مجھے خدشہ ہے کہ ان دو شہروں کے گردونواح میں افغان طالبان پر ڈرون حملے ہوں گے اور اگر واقعی افغان طالبان یا ان کے عزیز ان دو شہروں میں موجود ہیں تو ہمیں ان سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ واپس اپنے ملک تشریف لے جائیں‘ جہاں تقریباً نصف علاقہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ ہم افغان بھائیوں کی مہمان نوازی کافی کر چکے اور اب ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کو گلے لگا کر رکھو گے تو تمہارا نقصان ہو سکتا ہے اور یہ وارننگ ہمیں اُس سپر پاور کی جانب سے ملی ہے جو سولہ سال کی کاوشوں کے باوجود افغانستان میں جنگ جیت نہیں سکی اور اس کی حالت زخمی شیر والی ہے‘ جو بہرحال ہمیں نقصان ضرور پہنچا سکتا ہے۔
پاکستانی اکانومی کی صورتحال قطعاً تسلی بخش نہیں۔ اگلے روز سینٹ کو بتایا گیا کہ پچپن ملین پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمارا تجارتی اور بجٹ خسارہ دونوں بڑھ رہے ہیں مسلم لیگ کی حکومت نے قرض لینے کا پیپلز پارٹی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ہمارا مشرقی محاذ اکثر گرم رہتا ہے اندرونی محاذ پر ہمیں گزشتہ ڈھائی سال میں کئی کامیابیاں ملی ہیں۔ حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں لیکن پاراچنار کوئٹہ اور وادی راجگال کے حالیہ واقعات کہہ رہے ہیں کہ اندرونی محاذ پر ابھی جنگ جاری ہے اور ایسے میں ہماری پارلیمنٹ کہہ رہی ہے کہ امریکہ سے تعلقات معطل کر لیے جائیں۔ کاش یہ لوگ بیان داغنے سے پہلے کچھ سوچ بچار کر لیا کریں کچھ پڑھ لیا کریں۔ تھوڑی سی ریسرچ کر لیا کریں اور پھر ہمارے ٹی وی اینکرز جو ماسوائے دوچار کے سب سنسنی پھیلانے کے ماہر ہیں انہیں قوم کو غیرت کے دروس دینے سے پہلے تمام صورتحال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہیے اور پھر گفتگو فرمانی چاہئے۔
ہمارے سامنے دو ممالک پر اقتصادی پابندیاں لگی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے ایران اور دوسرا روس۔ دونوں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر رکھتے ہیں لیکن پابندیوں نے دونوں کی معاشی حالت پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ ایران پر تین طرح کی پابندیاں لگیں۔ ایک امریکہ کی‘ دوسری یو این کی جانب سے تیسری یورپی یونین نے لگائی۔ یہ پابندیاں اس قدر سخت اور موثر تھیں کہ ایرانی عوام نے خود امریکہ مخالف لیڈر اور سخت گیر احمدی نژاد کو ووٹ نہیں دیئے تاکہ معتدل مزاج لیڈر کو صدر بنا کر ایران کو بین الاقوامی دھارے میں لایا جائے۔ کیا پاکستان ممکنہ اقتصادی پابندیوں کو برداشت کر پائے گا؟ میرا جواب یقیناً نفی میں ہے۔
نان سٹیٹ ایکٹرز کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ پاکستان کی سلامتی زیادہ اہم ہے یا باقی ماندہ نان سٹیٹ ایکٹرز کی خوشنودی۔ یہ نان سٹیٹ ایکٹرز پاکستانی ہوں یا غیر پاکستانی ہمیں ان کو پہلی فرصت میں خداحافظ کہنا چاہیے اور ہاں پاکستان میں ہتھیار صرف ریاست کے پاس ہوں اور ہماری سرزمین سے کسی بھی ہمسایہ ملک پر حملہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اہداف حاصل کرکے ہمیں غیر ملکی میڈیا کو پشاور کوئٹہ کے دورے کرانا چاہئیں تاکہ انٹرنیشنل کمیونٹی کی ہمارے بارے میں رائے میں مثبت تبدیلی آئے۔
امریکہ سے قطع تعلقی کسی طرح بھی ہمارے مفاد میں نہیں۔ ویسے پاکستان اکیس کروڑ عوام کا ملک ہے جو افغانستان کے حوالے سے بہت اہم محل وقوع رکھتا ہے۔ ہمیں امریکہ کو دلائل سے قائل کرنا ہو گا کہ افغانستان میں کوئی عسکری حل ممکن نہیں۔ وہاں امن مذاکرات جب بھی ہوں ہمیں ان کی کامیابی کے لیے کام کرنا ہو گا کہ افغانستان کا امن اور استحکام ہمارے لیے ازبس ضروری ہے۔ ہمیں امریکن لیڈرشپ کو بتانا ہو گا کہ دونوں جانب سے دراندازی روکنے کے لیے موثر بارڈر کنٹرول ضروری ہے۔ ویسا ہی بارڈر کنٹرول جیسا آپ میکسیکو کے ساتھ چاہتے ہیں‘ اور امریکہ کو اس بات کا قائل کرنا بھی ضروری ہے کہ افغانستان میں انڈین اثرورسوخ بڑھانے سے مسئلہ اور الجھ جائے گا کیونکہ افغان بھائیوں نے کبھی بیرونی کنٹرول برداشت نہیں کیا۔
امریکن حکام سے مسلسل رابطے کے علاوہ ہمیں کیپٹل ہل پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکن تھنک ٹینک اور میڈیا میں بڑا کام کرنا ہے۔ اپنی کمیونٹی کو فعال بنانا ہے اور سب سے بڑھ کر جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں