"JDC" (space) message & send to 7575

میاں صاحب‘ ایک جائزہ…(2)

میاں صاحب سے میری تیسری اور آخری ملاقات جنوری 2011ء میں ہوئی اور یہ سرسری سی تھی اُن دنوں پلڈاٹ نے انڈیا اور پاکستان کے موجودہ اور سابقہ ممبران پارلیمنٹ کی دو روزہ بات چیت کا اہتمام کیا تھا۔ میں اس اہم بات چیت کے انتظامی امور کا حصہ تھا۔ انڈیا کی طرف سے مانی شنکر یشونت سنہا اور شتروگھن سنہا آئے تھے۔ پاکستان کی طرف سے خورشید قصوری اور جاوید جبار تھے گو کہ یہ اُس وقت پارلیمنٹ کا حصہ نہ تھے لیکن انہیں شامل کرنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی جانب سے بھی ایسے ہیوی ویٹ اور پڑھے لکھے اشخاص ہوں جو پورے اعتماد سے پاکستان کا کیس بیان کر سکیں۔ میاں صاحب اُن دنوں اپوزیشن لیڈر تھے اُن کی طرف سے دونوں وفود اور پلڈاٹ کے کرتا دھرتا لنچ کے لیے پنجاب ہائوس اسلام آباد میں مدعو تھے۔ میں بھی وہاں موجود تھا کھانے سے پہلے دونوں وفود کی میاں صاحب سے رسمی سی بات چیت ہوئی۔ پھر بوفے لنچ تھا۔ انڈین وفد کے لیے انواع و اقسام کی سبزیاں اور دالیں بنائی گئی تھیں اس کے علاوہ لاہوری فرائیڈ مچھلی تھی تاکہ پاکستانی سبزیاں اور دالیں کھا کر بور نہ ہو جائیں،میاں شہبازشریف بھی موجود تھے۔ میری میاں صاحب سے علیک سلیک ہوئی تو میں نے یاد دلایا کہ آپ سے رنگون میں ملاقات ہوئی تھی کہنے لگے ہاں مجھے یاد ہے۔ سردیوں کے دن تھے میں نے وولن ٹوپی پہنی ہوئی تھی ٹوپی کے آگے فوجی افسر کی کیپ کی طرز کا فلیپ تھا۔ میاں صاحب کی حس مزاح جاگی اور کہنے لگے آپ کی شکل مشرف صاحب سے ملتی ہے اور مجھے یقین ہو گیا کہ جنرل مشرف اتنے سال گزرنے کے باوجود میاں صاحب کے اعصاب پر سوار ہیں۔
میرے ایک قریبی دوست گورنمنٹ کالج لاہور میں میاں صاحب کے کلاس فیلو تھے میں نے کالم لکھنے سے پہلے ان کی رائے معلوم کرنا چاہی۔ میرا پہلا سوال تھا کہ کالج میں داخلہ میرٹ پر ہوتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میاں صاحب نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کیا ہوگا۔ جواب ملا کہ میرٹ کی بنیاد پر میاں نوازشریف کا گورنمنٹ کالج میں داخلہ ناممکن تھا لہٰذا وہ کرکٹ کے کھلاڑی کے طور پر داخل ہوئے۔ میں نے استفسار کیا کہ پھر وہ کالج کی ٹیم میں جگہ کیوں نہ بنا سکے جواب تھا کہ کالج کی ٹیم میں آفتاب گل اور ماجد جہانگیر جیسے شاندار پلیئر تھے لہٰذا میاں صاحب کی جگہ نہیں بنتی تھی اور پھر انہوں نے ایک دلچسپ مگر اہم جملہ بولا کہنے لگے کہ سچ پوچھتے ہو تو میاں صاحب کرکٹ میں بھی اتنے ہی ماٹھے تھے جتنے پڑھائی میں اور مجھے عمران خان کا وہ جملہ یاد آ گیا کہ میاں صاحب کرکٹ میچ میں اپنی پسند کا امپائر لا کر کھیلتے تھے۔
سوال یہ ہے کہ کیا وزیراعظم کا افلاطون ہونا ضروری ہے۔ میاں صاحب پاکستان کی تاریخ کا کامیاب ترین سیاستدان ہیں اس کا مطلب ہے کہ وہ بہت ذہین فطین نہ سہی مگر اُن میں عقل عامہ Common Sense کی فراوانی ہے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان میں ذہین طالب علم شروع کے پچیس سال سول سروس میڈیکل اور انجینئرنگ کی طرف جاتے رہے۔ بعد میں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریٹ سیکٹر میں جانے لگے۔ مگر یہ ازبس ضروری ہے کہ سیاست میں بھی ذہین اور ایماندار لوگ آئیں۔ ملک کا حشر آپ کے سامنے ہے حکمرانوں کی اولین ترجیح موٹروے، میٹرو بس اورنج لائن ٹرین ہے۔ سوشل سیکٹر کا حال خراب ہے صرف پنجاب میں امسال پانچ ہزار بچوں نے سرکاری سکول چھوڑے ہیں۔ اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پمز میں وینٹی لیٹر نہ ہونے کے برابر ہیں لاہور میں حاملہ خواتین
سڑکوں پر بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔ دنیا بھر کے سوشل اشاریوں کو دیکھیں تو شاید پاکستان افغانستان اور صومالیہ جیسے ممالک سے ہی اوپر ہو یہ وہ صورتحال ہے جو ہمارے اوسط سے کمتر Below Average سیاست دانوں کی پیدا کردہ ہے، اُن کی ترجیحات غلط ہیں۔ 2013ء میں میاں صاحب تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو خیال تھا کہ مشکلات کی بھٹی سے گزر کر وہ کندن بن گئے ہوں گے لیکن اس دفعہ صورتحال نرالی تھی، وہ مسکراہٹ جو میں نے 1989ء میں ان کے چہرے پر مسلسل دیکھی تھی کافور ہو چکی تھی۔ تھکے تھکے اور پژمردہ نظر آ رہے تھے کئی ماہ تک قوم سے خطاب ہی نہیں کیا بعض لوگوں کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی سے جو کچھ ورثے میں ملا ہے اُس سے نالاں ہیں 2013ء میں ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا اگر میاں صاحب کو واقعی ملک و قوم کا درد تھا تو قرضوں کا بوجھ کم کرتے لیکن قرضے لینے میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ریکارڈ بھی توڑ دیئے۔
میاں صاحب کا یہ زعم کہ وہ پاکستان کے طیب اردوان ہیں غلط ہے۔ اردوان نے ٹرکش عوام کا معیار زندگی بہت بہتر کیا ہے میاں صاحب تینوں مرتبہ ایسا نہیں کر سکے۔ 1999ء میں تو ان کے جانے پر بعض لوگوں نے مٹھائیاں بانٹی تھیں کسی پاکستانی نے ٹرکش عوام کی طرح جمہوریت کے لیے جان نہیں دی جب 2013ء میں واضح اکثریت کے ساتھ میاں صاحب کو پھر سے اقتدار ملا تو ہدف یہ تھا کہ اس مرتبہ ہر صورت میں پانچ سال پورے کئے جائیں گے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے دو نکاتی پالیسی پر عمل کیا گیا اول یہ کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور پیپلز پارٹی سے بنا کر رکھی جائے مگر ہوا یوں کہ انڈیا سے ہر قیمت پر تجارت کرنے کے شوق میں وہ ایک بڑے ادارے کی خیر سگالی کھو بیٹھے پالیسی کا دوسرا ستون کلیدی عہدوں پر اپنے وفادار از قسمے ظفر حجازی بٹھانا تھا۔ نیب کے چیئرمین کے بارے میں میاں صاحب مطمئن تھے کہ وہاں سے کوئی خطرہ نہیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ عمران خان اور طاہر القادری کے طویل دھرنے شروع ہو گئے۔ پیپلز پارٹی کی سپورٹ کی وجہ سے خطرات ٹل گئے اور پھر بقول صدر ممنون حسین آسمانی آفت پاناما پیپرز کی صورت میں نمودار ہوئی اس کے بعد کیا ہوا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
میں نے اسی کالم کے پہلے حصے میں لکھا تھا کہ میاں صاحب کے بعض روّیے آمرانہ ہیں مثلاً وہ تنقید برداشت نہیں کرتے۔ پارلیمان کو کبھی زیادہ وقعت نہیں دی۔ چھوٹی سی کچن کیبنٹ سے باہر نہیں نکلتے کابینہ کے اجلاس بھی کم کم ہی ہوئے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ 1998ء میں وہ آئینی ترمیم کے ذریعہ امیر المومنین بننا چاہتے تھے تو اصل بات یہ تھی کہ وہ شریعت کے نفاذ کے بہانے آئین کو بوقت ضرورت جزوی طور پر معطل کرنے کا حق مانگ رہے تھے اس لحاظ سے میاں صاحب کو پاکستان کا جولیس سیزر کہا جا سکتا ہے۔ 
آپ کو یاد ہو گا کہ پاناما پیپرز کے انکشافات کے فوراً بعد میاں صاحب نے پچھلے سال نیشنل اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ وہ اپنے خاندان کو سب سے پہلے احتساب کے لیے پیش کریں گے اور اب سازشی اور انتقام کی باتیں ہو رہی ہیں تو کیا کپتان کی بات درست ہے کہ میاں صاحب میچ تب ہی کھیلتے ہیں جب امپائر ان کی پسند کا ہو۔ میرا خیال ہے کہ میاں صاحب اپنے آپ کو پاکستان کا بڑا سمجھتے ہیں جس کا فیصلہ ہر کسی کے لئے ماننا ضروری ہے یہی ان کی بچپن کی تربیت ہے لیکن احتساب نہ ہو تو جمہوریت نامکمل رہتی ہے۔ جمہوریت اور بادشاہت میں یہی فرق ہے مگر میاں صاحب کی سوچ بادشاہت کے قریب تر ہے۔ (ختم)

میرے ایک قریبی دوست گورنمنٹ کالج لاہور میں میاں صاحب کے کلاس فیلو تھے میں نے کالم لکھنے سے پہلے ان کی رائے معلوم کرنا چاہی۔ میرا پہلا سوال تھا کہ کالج میں داخلہ میرٹ پر ہوتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میاں صاحب نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کیا ہوگا۔ جواب ملا کہ میرٹ کی بنیاد پر میاں نوازشریف کا گورنمنٹ کالج میں داخلہ ناممکن تھا لہٰذا وہ کرکٹ کے کھلاڑی کے طور پر داخل ہوئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں