"JDC" (space) message & send to 7575

اکیسویں صدی کی عالمی طاقتیں …(2)

اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار روس کے پاس ہیں۔ البتہ اقتصادی لحاظ سے روس تیرہویں نمبر پر ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایٹمی پاور کسی بھی ملک کی اہمیت بڑھاتی ضرور ہے لیکن ایٹمی قوت سے کہیں زیادہ اہم اقتصادی قوت ہے اس کی واضح مثالیں جرمنی اور جاپان ہیں جن کے پاس کوئی ایٹمی ہتھیار نہیں لیکن صنعتی ترقی کی بدولت دونوں بہت اہم ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر تیل کے نئے ذخائر دریافت نہ ہوئے تو 2044 ء میں روس کی تیل کی برآمدات گرنا شروع ہو جائیں گی البتہ گیس کے ذخائر اگلی صدی تک چلیں گے۔ اس وقت روس یورپ کو گیس سپلائی کرنے والا سب سے اہم ملک ہے۔
روس کی کرسچین آبادی تقریباً پچاس فیصد ہے جبکہ مسلمان پندرہ فیصد ہیں روسی آرتھوڈوکس عیسائی ہیں اور آبادی کے اس بڑے حصے کی شرح نمو بہت کم ہے۔ روس کی آبادی اس وقت 144 ملین ہے اندازہ ہے کہ اس صدی کے آخر تک روس کی ٹوٹل پاپولیشن 125 ملین رہ جائے گی۔ دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ روسی مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اس رجحان کے روس کی اندرونی صورتحال پر کیا نتائج مرتب ہوں گے۔ روس کے اندر چیچنیا کا مسئلہ فی الحال دبا ہوا ہے لیکن یہ دوبارہ بھی سر اٹھا سکتا ہے۔
ایک اور بہت اہم عالمی طاقت یورپی یونین ہے۔ یہ 28 ممالک کا مجموعہ ہے جو ایک کامن مارکیٹ کے طور پر فنکشن کرتی ہے۔ ان تمام ممالک کے درمیان تجارت آزادانہ ہے یعنی کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں دینی پڑتی۔ ممبر ممالک کے شہری آزدانہ تمام یورپی یونین میں آ جا سکتے ہیں جاب اور بزنس بھی کر سکتے ہیں مگر ان ممالک کا کوئی مشترکہ دفاعی معاہدہ نہیں ہے۔ لہٰذا یورپی یونین عسکری بلاک یا گروپ نہیں۔ برطانیہ نے یورپی یونین کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس فیصلے کے بعد یورپی یونین کے مستقبل پر سوالیہ نشان ضرور لگ گیا ہے۔ 
آبادی اور صنعتی ترقی کے لحاظ سے یورپ کا سب سے بڑا اور اہم ملک جرمنی ہے۔ جرمنی یورپی اتحاد کا سب سے قوی داعی بھی ہے۔ جرمنی کو یورپ کا اکنامک انجن بھی کہا جاتا ہے۔ اس ملک کی اہمیت کا اندازہ ہم اس امر سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ایران کے ساتھ اٹامک معاملے پر سکیورٹی کونسل کے پانچ دائمی ارکان نے بات چیت کا سلسلہ کئی سال تک جاری رکھا تو جرمنی کو اس طویل عمل کا حصہ بنائے رکھا اس کے علاوہ جرمنی سلامتی کونسل کی دائمی ممبر شپ کا مضبوط امیدوار بھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ کئی انٹرنیشنل معاہدوں سے روگردانی کر رہا ہے یا ایسا کرنے کا سوچ رہا ہے اور ان معاہدوں میں پیرس میں کیا جانے والا موسمیاتی تبدیلی کا ایگریمنٹ بھی شامل ہے۔ نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ NAFTA کے بارے میں بھی صدر ٹرمپ کے خیالات منفی ہیں۔ امریکہ اپنا فری ورلڈ کے لیڈر والا رول چھوڑتا نظر آ رہا ہے۔ ادھر برطانیہ میں بھی یورپی اقتصادی تعاون سے کنارہ کش ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس صورتحال میں جرمنی کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ البتہ جرمنی اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کرنے کی بجائے فوج کا سائز کم کر رہا ہے اور یہ عسکری اخراجات کم کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔ 
جرمنی 1945ء میں ایک شکست خوردہ اور تباہ حال ملک تھا پھر امریکہ نے وہاں فوجی اڈے بنا لیے اس طرح جرمنی کے دفاعی اخراجات بچ گئے اور اس نے اپنی تمام تر توجہ اقتصادی ترقی اور تعمیر نو پر لگا دی۔ امریکہ کا دیا ہوا مارشل پلان بھی ممدومعاون ثابت ہوا۔ 1960ء میں جب ورلڈ بینک انڈیا اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدے کا بندوبست کر رہا تھا تو جرمنی پاکستان کو منگلا اور تربیلا ڈیم بنانے کے لیے درکار فنڈز فراہم کرنے والے ممالک کی صف میں کھڑا تھا۔ گویا عالمی جنگ کے بعد پندرہ سال میں جرمنی کی اقتصادی حالت بہت بدل چکی تھی جرمنی اپنے سائنس دانوں فلاسفرز اور دانشوروں کی وجہ سے مشہور رہا ہے جب دیوار برلن ختم ہوئی تو جرمنی پھر سے متحد ہوا اور اب یہ بات یقینی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرمنی کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس وقت بھی جرمنی کی مجموعی قومی پیداوار انڈیا سے زیادہ ہے جبکہ آبادی صرف تراسی (83) ملین ہے اس کا مطلب ہے کہ جرمنی کی فی کس اوسط آمدنی انڈیا سے بہت زیادہ ہے۔
انڈیا کی اقتصادی قوت کے بارے میں مختلف اندازے ہیں۔ انڈیا کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مجموعی قومی پیداوار کے اعتبار سے ہندوستان اب دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے یعنی برطانیہ اور جاپان کو کراس کر چکا ہے۔ انٹرنیٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق اقتصادی لحاظ سے انڈیا دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔ بہرحال انڈیا کا دنیا کی اہم ترین اقتصادی طاقتوں میں شامل ہونا‘ اس کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے اور انڈیا نے یہ سب کچھ تعلیم اور محنت سے حاصل کیا ہے۔ انڈیا میں انجینئرنگ‘ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ میڈیسن اور بزنس کی تعلیم کے کئی ادارے انٹرنیشنل لیول کے ہیں جبکہ ہمارے ہاں یونیورسٹیوں میں ہڑتال بھی ہوتی ہے۔ این ٹی ایس والے پرچے لیک کرنے کے الزم میں پکڑے جاتے ہیں۔ تعلیمی معیار کے لحاظ سے ہم اپنے دشمن آپ ہیں۔
بات انڈیا کی اقتصادی قوت کی ہو رہی تھی۔ کسی ملک کو اقتصادی قوت کو ناپنے کے دو پیمانے ہیں اور دونوں بیک وقت اپلائی کرنے چاہئیں ایک پیمانہ جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار کا ہے جس میں انڈیا بہت آگے نکل گیا ہے اور دوسرا پیمانہ فی کس آمدنی کا ہے جس میں انڈیا بہت پیچھے ہے۔ فی کس آمدنی کے لحاظ سے انڈیا کا اس وقت دنیا میں 133 واں نمبر ہے یعنی وہاں غربت اب بھی بہت زیادہ ہے ترقی کے دونوں پیمانوں کا بیک وقت اپلائی کرنا بے حد ضروری ہے۔ اگر ہم ایک بالکل مختلف مثال لیں تو فی کس آمدنی کے لحاظ سے قطر اس وقت دنیا کا امیر ترین ملک ہے لیکن مجموعی پیداوار میں یہ بہت پیچھے ہے کیونکہ اس کا رقبہ اور آبادی دونوں مختصر ہیں۔
انڈیا نے بہت اچھی اقتصادی ترقی کی ہے وہاں جمہوریت کی گاڑی کو بریک نہیں لگی۔ آج امریکہ اور اسرائیل دونوں انڈیا کی دوستی کے خواہش مند ہیں لیکن کشمیر میں آزادی کی تحریک ختم نہیں جا سکی۔ انڈیا کے شمال مشرق میں بھی علیحدگی کی تحریکیں ہیں مگر ان تمام مشکلات کے باوجود 1947ء کے بعد کا انڈیا متحد ہے ٹوٹا نہیں ہے۔ مسلمان اقلیت کا قومی دھارے میں شامل نہ ہونا انڈیا کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور پھر انڈیا کے شمال میں چین ہے جو اس سے بڑی طاقت ہے۔ باوجود تمام کوشش کے انڈیا پاکستان کو تابع فرمان نہیں بنا سکا۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ اس صدی کے آخر تک دنیا میں پانچ ممالک سب سے اہم ہوںگے اور وہ ہوںگے امریکہ‘ چائنا‘ روس‘ انڈیا اور جرمنی۔ عام خیال یہ ہے کہ روس اور چائنا کا ایک دھڑا ہو گا جبکہ امریکہ بھارت اور جرمنی کا دوسرا گروپ۔مگر یہ اندازہ بھی حتمی نہیں اور اس پر بحث پھر کبھی ہو گی۔ (ختم)

ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ کئی انٹرنیشنل معاہدوں سے روگردانی کر رہا ہے یا ایسا کرنے کا سوچ رہا ہے اور ان معاہدوں میں پیرس میں کیا جانے والا موسمیاتی تبدیلی کا ایگریمنٹ بھی شامل ہے۔ نارتھ امریکن فری ٹریڈ ایگریمنٹ NAFTA کے بارے میں بھی صدر ٹرمپ کے خیالات منفی ہیں۔ امریکہ اپنا فری ورلڈ کے لیڈر والا رول چھوڑتا نظر آ رہا ہے۔ ادھر برطانیہ میں بھی یورپی اقتصادی تعاون سے کنارہ کش ہوتا نظر آ رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں