"JDC" (space) message & send to 7575

چند روز ولائت میں… (2)

میں ایسٹ لندن میں اپنے بھائی وقار کے گھر قیام پذیر ہوں۔ شادی اور ولیمہ میں ایک ہفتے کا وقفہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں اکثر لوگ صرف ویک اینڈ پر یعنی ہفتہ اتوار کو قدرے فارغ ہوتے ہیں۔ پانچ روز یہ لوگ بہت مصروف گزارتے ہیں۔ وقار چند سال پہلے ریٹائر ہوا تھا مگر آج بھی بینک آف امریکہ میں جاب کرتا ہے۔ بینک کے کمپیوٹر سسٹم کو رواں دواں رکھنا اس کا اولین فرض ہے۔ وہ صبح سات بجے کام کے لیے نکلتا ہے اور شام کو سات بجے واپس آتا ہے۔ بکہرسٹ ہل Bukhurst Hill کا ریلوے سٹیشن اُس کے گھر سے زیادہ دور نہیں۔ وہاں سے وہ ٹیوب پکڑ کر سنٹرل لندن جاب کے لیے جاتا ہے۔ کار استعمال کرنے کی بجائے سٹیشن پیدل آنا جانا پسند کرتا ہے کہ اس طرح پانچ روز چالیس منٹ کی ڈیلی واک ہو جاتی ہے۔
رفعت بھابھی ہماری فرسٹ کزن بھی ہیں لہٰذا اُن سے دوہرا رشتہ ہے۔ وہ میری خاطر تواضع پہ ہر وقت مائل نظر آتی ہیں۔ میری عادتیں خراب کر رہی ہیں۔ گلاس اور برتن تک اٹھانے نہیں دیتیں۔ نوبیاہتا جوڑا ابھی گھر پر ہی ہے۔ خوب رونق لگی ہوئی ہے۔ نیا جوڑا ولیمہ کے بعد ویسٹ انڈیز ہنی مون کے لیے چلا جائے گا اور میں پاکستان کی راہ لوں گا۔
بات چونکہ شادی کی ہو رہی ہے لہٰذا اسی حوالے سے دو اہم اوامر کا ذکر ضروری ہے‘ جو آج کل یہاں میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ پرنس ہیری کی منگنی آج کل یہاں کا مقبول موضوع ہے۔ برطانوی شہزادے کی منگیتر میگن مارکل Meghan Markle ایک عام امریکن شہری ہے۔ وہ ہالی وڈ کی فلم ایکٹرس ہے اور طلاق یافتہ ہے۔ اس کے علاوہ میگن کی والدہ سیاہ فام امریکن ہے یعنی وہ مکسڈ شادی کی اولاد ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے رومن کیتھولک ہے۔ عمر کے لحاظ سے وہ پرنس ہیری سے کچھ بڑی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پچھلی صدی میں جب برطانیہ کے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم نے مسز سمپسن Mrs. Simpson سے شادی کرنا چاہی تھی تو ایک طوفان کھڑا ہو گیا تھا۔ شاہی خاندان کو ایک اعتراض یہ تھا کہ مسز سمپسن کا تعلق عوام سے ہے۔ وہ بھی امریکہ نژاد تھیں لیکن سب سے بڑا اعتراض تھا کہ وہ مطلقہ ہیں اور ایسی خاتون شاہی خاندان کا حصہ نہیں بن سکتی۔ چنانچہ محبت کی خاطر ایڈورڈ ہشتم نے تخت کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ مسز سمپسن والی خوبیاں یا خامیاں میگن مارکل میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن نہ برطانوی شاہی خاندان نے کوئی رکاوٹ ڈالی اور نہ ہی برٹش سوسائٹی نے کوئی اعتراض اٹھایا۔ برطانوی میڈیا نے بھی اس خبر کو مثبت انداز میں پیش کیا ہے۔ وزیر اعظم تھریسا مے نے بڑھ چڑھ کر مبارکباد دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ برطانوی شاہی خاندان اور معاشرہ پچھلے آٹھ عشروں میں بہت حد تک تبدیل ہوا ہے۔ عوام کی قدر و منزلت بڑھی ہے۔ مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کے لیے برداشت بڑھی ہے۔ دوسری جانب میگن نے بھی کہا ہے کہ وہ پروٹسٹنٹ ہو جائے گی اور برطانوی شہریت اختیار کر لے گی۔ شادی کے حوالے سے ہی ایک بحث یہاں یہ چھڑی ہوئی ہے کہ بہت سے نوبیاہتا مسلمان جوڑے اپنی شادی کو برٹش سول لاء کے تحت رجسٹر نہیں کراتے۔ یہاں طلاق کی صورت میں آدھے اثاثے بیوی کو ملتے ہیں مگر شادی رجسٹر نہ ہونے کی صورت میں وہ اس حق سے محروم رہتی ہے۔ شادی رجسٹر نہ کروانے والوں میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔ یہاں یہ تاثر عام ہے کہ خواتین کے حقوق کے بارے میں مسلمان عام طور پر اور پاکستانی خاص طور پر خود غرض ہیں۔ اب یہ سوچا جا رہا ہے کہ اسلامی نکاح اور سول لاء رجسٹریشن دونوں ایک ہی روز ہوں۔
وقار کے گھر سے الفرڈ Alford کا قصبہ صرف پانچ میل دور ہے۔ یہاں پاکستانی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ یہاں دو فلک بوس عمارتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں عمومی خیال یہ ہے کہ وہ دراصل شریف فیملی کی ملکیت ہیں۔ میں نے انٹرنیٹ پر یہ معلومات کنفرم کرنے کی کوشش کی۔ وہاں لکھا ہوا ہے کہ برطانیہ میں میاں صاحب کی دو سو چالیس جائیدادیں ہیں۔ یہ خبر میرے لیے نئی تھی۔ چنانچہ میں نے تصدیق کے لئے کئی باخبر پاکستانیوں سے رابطہ کیا۔ اس سے ایک تو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ برطانیہ میں مقیم اکثر پاکستانی نااہل وزیر اعظم کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔ وہ شریف فیملی کو بہت کرپٹ سمجھتے ہیں۔ میاں صاحب کے مقابلے میں عمران خان یہاں بہت پاپولر ہیں۔ بات شریف فیملی کی برطانیہ میں جائیداد کی ہو رہی تھی۔ میں حیران تھا کہ پراپرٹی کے یونٹ سینکڑوں میں کیسے ہو سکتے ہیں۔ ہم تو صرف لندن میں ہائڈ پارک کے سامنے والے اپارٹمنٹ ہی ان کی پراپرٹی سمجھتے تھے۔ مجھے ایک پاکستانی نے بتایا کہ الفرڈ والی دونوں ہائی رائیز عمارتوں میں بے شمار فلیٹ ہیں اور اس طرح اگر پراپرٹی کے تمام یونٹ گنے جائیں تو ٹوٹل ڈبل سنچری کو کراس کر جاتا ہے۔ میں اب بھی سوچ رہا تھا کہ بدگمانی گناہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یار لوگوں نے اپنی پرواز تخیل سے یہ جائیدادیں شریف فیملی کی بنا دی ہوں۔ ایک اور باخبر پاکستانی سے اسی موضوع پر بحث ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ الفرڈ کی پراپرٹی آف شور کمپنیوں کے نام پر ہے۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے آف شور کمپنی کا نام بتا سکتے ہیں تو وہ صاحب یہ کہہ کر خاموش ہو گئے کہ الفرڈ میں بچہ بچہ اس حقیقت سے آشنا ہے۔
شریف فیملی کے بارے میں اب صرف پاکستانی کمیونٹی ہی نہیں عام گورا انگریز بھی منفی خیالات رکھتا ہے۔ یہاں ٹیکس نہ دینا گناہ کبیرہ ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ساٹھ سے زائد برطانوی شہری لوکل کونسل کو ٹیکس نہ دینے پر جیل گئے ہیں۔ بالکل اسی طرح پِبلک فنڈز میں کرپشن کرنا بھی ناقابل معافی گناہ ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے برطانوی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ شریف فیملی کی جائیداد اپنی تحویل میں لے لے۔ استدلال یہ ہے کہ برطانوی حکومت اپنے بجٹ سے پاکستان کو مالی امداد دیتی رہی ہے۔ اسی امداد سے شریف فیملی نے چوری کرکے مال بنایا اور برطانیہ میں پراپرٹی خرید لی لہٰذا اس پراپرٹی پر شریف خاندان سے زیادہ حق برطانوی عوام کا ہے۔ برطانوی حکومت پر یہ بھی پریشر ہے کہ آف شور کمپنیوں کے نام پر یو کے میں خریدی گئی تمام جائیدادوں کے اصل مالکان کے نام افشا کئے جائیں۔
لندن میں آج کل سخت سردی ہے‘ لیکن نظام زندگی برابر چل رہا ہے؛ چنانچہ فیصلہ کیا کہ سردی اور بارش سے ڈر کر گھر بیٹھنے کی بجائے لندن کی سیر کی جائے۔ سنٹرل لندن دریائے ٹیمز Thames کے دونوں جانب ہے۔ پارلیمنٹ ہائوس‘ جسے ویسٹ منسٹر کہا جاتا ہے‘ ٹرفالگر سکوائر آکسفورڈ سٹریٹ اور ریجنٹ سٹریٹ‘ یہ سب اسی علاقے میں ہیں۔ چند سال پہلے دریائے ٹیمز کے کنارے بجلی کا دیوہیکل پنگھوڑا بنایا گیا تھا۔ یہ پنگھوڑا بہت بڑے گول دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ اس پر تیس چالیس شیشے کی دیواروں والے کیپسول لگے ہوئے ہیں۔ ہر کیپسول میں پندرہ بیس لوگ کھڑے ہو سکتے ہیں۔ جیسے ہی آپ کا کیپسول بلندی کی طرف جاتا ہے‘ پورا سنٹرل لندن نظر آنے لگتا ہے۔ آپ کے نیچے دریائے ٹیمز خراماں خراماں چل رہا ہے اور دریا میں چھوٹے سائز کے جہاز۔ اس پنگھوڑے کو لندن آئی یعنی لندن کی آنکھ کہتے ہیں۔ پنجابی میں کہا جائے تو یہ میرا لندن آئی پر پہلا ''ہوٹا‘‘ تھا۔ (جاری)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں