"JDC" (space) message & send to 7575

چند روز ولائت میں……(3)

عام خیال یہ ہے کہ انگریز جذبات سے عاری لوگ ہیں۔ بوڑھے والدین کو اولڈ ایج ہوم چھوڑ آتے ہیں۔ ہمسایہ کس حال میں رہ رہا ہے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی۔ ہر شخص اپنے حال میں مست رہتا ہے۔ ہمسائے سے تعلقات سالہا سال گزرنے کے بعد بھی ہیلو ہائے سے آگے نہیں بڑھتے۔ لیکن دوسرے زاویے سے دیکھیں تو یہ شاندار ویلفیئر سوسائٹی ہے۔ اولڈ ایج ہومز میں غریب بوڑھوں کا سو فیصد خرچ ریاست برداشت کرتی ہے۔ ہر شہری کو صحت اور تعلیم کی اچھی سہولتیں حکومت دیتی ہے۔ سینئر شہریوں کے لیے بس کا سفر مفت ہے۔ کرسچیئن‘ یہودی‘ ہندو‘ مسلم‘ سکھ ایک دوسرے پر پتھر نہیں برساتے۔ ہر کسی کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہے مخالف نقطۂ نظر تحمل سے سنا جاتا ہے۔
لندن آئی پر جھولا جھولنے کے علاوہ میرا پکا ارادہ تھا کہ برٹش میوزیم پھر سے دیکھنا ہے۔ برٹش میوزیم کا امتیاز یہ ہے کہ اسے غور سے دیکھنے کے لیے کئی دن درکار ہیں۔ یہاں نوادرات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ہائیڈ پارک میں سپیکرز کارنر گئے بغیر بھی لندن کی سیر نامکمل رہتی ہے۔ اس مرتبہ بھی میں ان دونوں جگہ گیا اور دونوں جگہ علم و آگہی‘ رواداری اور برداشت‘ افکار میں شدید اختلاف مگر اس کا اظہار قاعدے قانون کے مطابق‘ یہ سب کچھ دیکھنے کو ملا۔
ہلکی بارش ہو رہی ہے، سخت سردی ہے مگر لندن جانا ضروری ہے۔ اگر یہ چند روز گھر بیٹھ کر گزارے تو کیا فائدہ۔ رفعت اور وقار کی پُرخلوص مہمان نوازی اور نوبیاہتا جوڑے کا پیار اور احترام گھر کو پرکشش بنا رہے ہیں‘ مگر مجھے لندن بھی اپنی جانب بلا رہا ہے۔ وہ لندن جہاں زندگی شبانہ روز رواں دواں رہتی ہے۔ جہاں سنگ و خشت کے علاوہ افکار کی بھی تجدید جاری رہتی ہے۔ 
ریلوے سٹیشن جانے کے لیے میں اوبر ٹیکسی منگواتا ہوں۔ ٹیکسی ڈرائیور عراقی کرد ہے لہٰذا بات چیت عربی میں ہوتی ہے۔ میں اُس سے پوچھتا ہوں کہ عراقی کردستان کے حالات کیسے ہیں؟ جواب ملتا ہے: نہایت خراب۔ وجوہات پوچھیں تو جواب ملا کہ دو چیزوں نے عراقی کردستان کے مسائل کو بڑھایا ہے؛ ایک مذہب اور دوسرا مال۔ میں اُسے کہتا ہوں کہ اسلام تو امن اور سلامتی کا دین ہے اور تیل کی دولت شمالی عراق میں خوشحالی لائی ہے۔ نوجوان‘ مگر پڑھے لکھے ڈرائیور نے کہا کہ آپ جانتے ہوں گے کہ عربی زبان میں دین اور مذہب مختلف معانی رکھتے ہیں۔ تیل کی ثروت کی وجہ سے ہمیں بغداد والے علیحدہ نہیں ہونے دیتے حالانکہ عراق کردوں نے ریفرنڈم میں فیصلہ دے دیا ہے۔ دوسرے ہمیں ایک خاص مسلک کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہدف بنایا جا رہا ہے۔ یہ دلچسپ گفتگو جاری تھی کہ ریلوے سٹیشن آ گیا۔ ٹرین فوراً ہی آ گئی۔ میں جلدی سے بوگی میں داخل ہوتا ہوں، رش بہت زیادہ ہے، مشکل سے کھڑے ہونے کی جگہ ہی ملتی ہے۔ گاڑی یکدم روانہ ہوتی ہے۔ مجھے جھٹکا لگتا ہے اور میں ایک بوڑھی میم کی گودی میں گر جاتا ہوں۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ ناراض ہو گی۔ میں 'آئی ایم سوری‘ کہتا ہوں اور وہ 'اٹ از آل رائٹ‘ کہہ کر جواب دیتی ہے۔ 'جیو اور جینے دو‘ یہاں کا سنہری اصول ہے۔ ٹرین سٹیشن اور کئی جگہ آپ کو نوجوان جوڑے ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ انہیں صمد بانڈ سے جوڑ دیا گیا ہے مگر کوئی ان کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔ 'مائنڈ یور اون بزنس‘(Mind your own business) یہاں کا دوسرا اصول ہے۔
رفعت بھابھی بھی ماشاء اللہ پابند صوم و صلوٰۃ ہیں۔ وہ تینوں ادیان سماویہ یعنی عیسائیت‘ اسلام اور یہودیت کے پیروکاروں میں مفاہمت کو فروغ دینے میں مصروف رہتی ہیں۔ مسجد‘ کلیسا اور یہودی معابد میں تینوں مذاہب کے لوگ ملتے ہیں اور تینوں ادیان کی مشترکہ اقدار پر بات چیت کرتے ہیں۔ وہ اپنے گروپ کے ساتھ اسرائیل اور فلسطین سے ہو کر آئی ہیں۔ اس طرح کئی عیسائی اور یہودی مسلمانوں کو بہتر سمجھنے لگے ہیں۔ یہ تاثر خاصی حد تک زائل ہوا ہے کہ مسلمان انتہا پسند ہوتے ہیں۔ جب رفعت بھابھی مجھے اپنے ادیان میں مفاہمت کے گروپ کی باتیں سُنا رہی تھیں تو میرا دھیان پاکستان کی طرف گیا‘ جہاں لوگ چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ہو رہے ہیں، نفرتوں کے پودے درخت بن رہے ہیں۔
ولیمہ کے موقع پر مجھے چند بہت دلچسپ لوگ ملے۔ ڈاکٹر منظور میمن یہاں پچاس سال سے آباد ہیں۔ ان کی بیگم انگریز ہیں، تعارف ہونے کے فوراً بعد ڈاکٹر صاحب ڈائریکٹ سوال پوچھتے ہیں Is There any hope for Pakistan? میں جواب دیتا ہوں کہ میں پاکستان کے بارے میں رجائیت پسند ہوں۔ پھر ڈاکٹر صاحب سندھ کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں‘ اور کہتے ہیں کہ سندھ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ عمران خان کے بقول سندھ کو زرداری نامی بیماری لگ گئی ہے۔ ڈاکٹر میمن کہتے ہیں کہ انہیں عمران خان کی بات سے بڑی حد تک اتفاق ہے۔
ڈاکٹر فہیم کا تعلق مصر سے ہے۔ وہ پچھلے چالیس سال سے برطانوی شہری ہیں۔ ڈاکٹر فہیم نے کئی سال ایک اولڈ ایج ہوم چلایا۔ جمعہ کی نماز کا خطبہ بھی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ چالیس سال گزرنے کے بعد بھی گورے لوگ انہیں 'بلڈی فارنرز‘ ہی سمجھتے ہیں۔ ساتھ ہی کہنے لگے کہ آپ اپنا ملک چھوڑ کر نئے ملک میں دوسرے درجے کے شہری ہی رہتے ہیں۔ 'تو پھر آپ مصر واپس کیوں نہیں چلے جاتے‘ میں نے ڈائریکٹ سوال داغ دیا۔ آپ سچا جواب چاہتے ہیں تو بات یہ ہے کہ میں برطانیہ میں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہوں۔ ذرا غور کیجئے ایک اہم عرب اور اسلامی ملک کا شہری ایک مغربی عیسائی اکثریت والے ملک میں زیادہ حفظ و امان محسوس کرتا ہے۔ یہاں اُسے مذہبی رسومات کی مکمل آزادی ہے۔ اُس کی ڈاڑھی پر کسی کو اعتراض نہیں۔ ان سب باتوں کا کریڈٹ ہمیں برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ مغربی ممالک کو دینا پڑے گا۔ اتوار کا روز ہے اور میں ہائیڈ پارک میں سپیکرز کارنر پر کھڑا ہوں۔ ایک کیتھولک گورا عیسائی اپنے عقیدے کا زور و شور سے پرچار کر رہا ہے۔ اس کے ارد گرد کھڑے عرب مسلمان اُسے غلط ثابت کرنے کی انتہائی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کی باتوں کو نظر انداز کرکے بولتا ہی جاتا ہے کبھی کبھار سوال کا جواب بھی دیتا ہے۔ تھوڑی دور لاہور کے ایک باریش صاحب اسلام کی خوبیاں شد و مد سے بیان کر رہے ہیں۔ ایک انڈین ہندو اُن کے سامنے ہرزہ سرائی کر رہا ہے۔ سپیکرز کارنر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں بات دلیل سے کی جاتی ہے غلیل سے نہیں۔ سب سے زیادہ سامعین ایک نوجوان گورے کے گرد جمع ہیں‘ جو اپنے نظام تعلیم کی برائیاں بیان کر رہا ہے۔
برطانیہ کی سب سے بڑی خوبی یہاں کے مضبوط ادارے ہیں‘ قانون کی حکمرانی ہے۔ میرٹ ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ڈسپلن ٹریفک سے لے کر قطار کے کلچر میں‘ ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ملک میں مسلمان صرف پانچ فیصد ہیں۔ رومن کیتھولک دس فیصد مگر کوئی ان پر حملے نہیں کرتا۔ یہ تمام وہ اصول ہیں جو بابائے قوم ہمیں بتا کر گئے تھے مگر ہم سب اچھے اصول شتابی سے بھول گئے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں